- جنوبی افریقا میں ایسٹر تقریب میں جانے والی بس پل سے الٹ گئی؛ 45 ہلاکتیں
- پاکستانی ٹیم میں 5 کپتان! مگر کیسے؟
- پختونخوا کابینہ؛ ایک ارب 15 کروڑ روپے کا عید پیکیج منظور
- اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی رہنما کو عمرے پرجانے کی اجازت دے دی
- وزیر اعظم نے مشترکہ مفادات کونسل کی تشکیل نو کر دی
- پنجاب گرمی کی لپیٹ میں، آج اور کل گرج چمک کیساتھ بارش کا امکان
- لاہور میں بچے کو زنجیر سے باندھ کر تشدد کرنے کی ویڈیو وائرل، ملزمان گرفتار
- پشاور؛ بس سے 2 ہزار کلو سے زیادہ مضر صحت گوشت و دیگر اشیا برآمد
- وزیراعلیٰ پنجاب نے نوازشریف کسان کارڈ کی منظوری دے دی
- بھارتی فوجی نے کلکتہ ایئرپورٹ پر خود کو گولی مار کر خودکشی کرلی
- چائلڈ میرج اور تعلیم کا حق
- بلوچستان؛ ایف آئی اے کا کریک ڈاؤن، بڑی تعداد میں جعلی ادویات برآمد
- قومی ٹیم کی کپتانی! حتمی فیصلہ آج متوقع
- پی ایس 80 دادو کے ضمنی انتخاب میں پی پی امیدوار بلامقابلہ کامیاب
- کپتان کی تبدیلی کیلئے چیئرمین پی سی بی کی زیر صدارت اہم اجلاس
- پاکستان کو کم از کم 3 سال کا نیا آئی ایم ایف پروگرام درکار ہے، وزیر خزانہ
- پاک آئرلینڈ ٹی20 سیریز؛ شیڈول کا اعلان ہوگیا
- برج خلیفہ کے رہائشیوں کیلیے سحر و افطار کے 3 مختلف اوقات
- روس کا جنگی طیارہ سمندر میں گر کر تباہ
- ہفتے میں دو بار ورزش بے خوابی کے خطرات کم کرسکتی ہے، تحقیق
سمندروں میں دو لاکھ نئے وائرس دریافت
جرمنی: سمندروں کے سینے میں کئی راز دفن ہوتے ہیں اور اب دنیا بھر کے گہرے پانیوں میں ایک دو نہیں بلکہ 195,728 ایسے وائرس ملے ہیں جو اب تک سائنس دانوں کی نگاہوں سے اوجھل تھے۔
’سیل‘ نامی سائنسی جرنل میں شائع رپورٹ کے مطابق زمین پر ایک برفیلے قطب سے لے کر دوسرے قطب تک ایک عالمگیر اور ہمہ گیر سروے سے انکشاف ہوا ہے کہ ان وائرس کی اکثریت ہمارے لیے بالکل نئی ہے کیونکہ اس سے قبل تک ہم سمندری وائرس کی 15 ہزار اقسام سے ہی واقف تھے۔ اس دریافت سے سمندروں میں حیاتیاتی ارتقا ، ماحولیاتی اور آب وہوا میں تبدیلیوں کے متعلق ہماری معلومات میں اضافہ ہوگا۔
ٹیرا نامی سائنسی کشتیوں نے سال 2009ء سے 2013ء تک دنیا بھر کے سمندروں میں سفر کیا اور اس سے قبل 10 برس تک سمندری حیات اور اس کے ارتقا پر بھی غور کیا تھا۔ اس ٹیم میں اوہایو اسٹیٹ یونیورسٹی کے خرد حیاتیات داں ڈاکٹر میتھیو سُلی ون بھی شامل ہیں ۔ وہ کہتے ہیں،’ وائرس اتنے چھوٹے ہیں کہ وہ دکھائی نہیں دیتے لیکن سمنروں میں ان کی غیرمعمولی اقسام کی موجودگی بہت اہمیت رکھتی ہے۔‘
ماہرین نے اپنی تحقیقات کے بعد ایک تفصیلی نقشہ بنایا ہے جس میں دنیا بھر کے پانیوں میں پائے جانے والے وائرسز کا ڈیٹا بیس ظاہر کیا گیا ہے۔ ماہرین نے ان وائرس کو پانچ حیاتیاتی خطوں (ایکولوجیکل زون) میں بانٹا ہے۔ ان میں آرکٹک اور انٹارکٹک کے علاوہ، منطقہ حارہ اور معتدل خطوں کے تین گروپس شامل ہیں۔
سخت برفیلی سرزمین آرکٹک میں امید کے برخلاف وائرس کی بڑی تعداد دریافت ہوئی ہے۔ یہ وائرس اگرچہ اوسطاً 4000 میٹر گہرائی میں ملے ہیں جن میں نئے وائرس اور ان کے نئے خاندان بھی شامل ہیں۔ اس سے سمندری حیات اور پیچیدہ بحری نظام کو سمجھنے میں بھی مدد ملے گی۔ نئے وائرس کی بدولت سمندروں میں موجود آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی شرح کو سمجھنے میں بھی مدد ملے گی۔
اگرچہ اب بھی طویل تحقیق باقی ہے لیکن وائرس بحری حیاتیات میں اپنا اہم کردار ادا کرتے ہیں جنہیں اس سے قبل نظرانداز کیا جاتا رہا تھا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔