حکمرانوں کی شہرت میں میڈیا کا کردار

نصرت جاوید  بدھ 21 اگست 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

وزیر اعظم کے قوم سے براہِ راست خطاب کی اہمیت یقینا ان دنوں بہت زیادہ تھی جب اس ملک میں صرف ایک ٹیلی وژن نیٹ ہوا کرتا تھا۔ حکومت اس کی مالک ومختار تھی اور وہ ٹیلی وژن خبروں اور سیاسی تبصروں کو مخصوص اور محدود اوقات میں پیش کیا کرتا تھا۔ اخبارات بھی ان دنوں کوئی بہت زیادہ آزاد نہ تھے۔ ان کی بقاء کا تمام تر انحصار سرکاری اشتہاروں پر تھا اسی لیے حکومتِ وقت کے ساتھ انھیں کافی بنا کر رکھنا پڑتی۔ 1990ء کی دہائی کے آخری برسوں سے مگر ہمارے ہاں نجی شعبے میں اشیائے صرف بناکر فروخت کرنے والے افراد اور اداروں کی اشتہارات کے حوالے سے اہمیت حکومت کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہونا شروع ہوگئی۔

پھر ہم نئی صدی میں چوبیس گھٹنے چلنے والے ٹیلی وژن کے ساتھ داخل ہوگئے۔ اِس وقت کم از کم 10ٹیلی وژن نیٹ ورک ایسے ہیں جنھیں پاکستانی اپنے ریموٹ کنٹرول کے بٹن دباتے ہوئے مسلسل دیکھتے رہتے ہیں۔ ابلاغ کے ذرایع نت نئی صورتوں اور امکانات سمیت مسلسل پھیلتے اور بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ کبھی کبھار تو مجھے ذاتی طورپر صحافی ہوتے ہوئے بھی اپنے اِرد گرد خبروں اور سیاسی تبصروں کا گویا ’’ہیضہ‘‘ پھیلا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ خود کو اس سے محفوظ رکھنے کے لیے صرف اپنا ٹی وی سیٹ ہی نہیں اکثر اوقات موبائل فون بھی بند کردیا کرتا ہوں۔ خبروں کے پُرشور ہجوم میں یہ حرکت وقتی ہی سہی ٹھوس راحت ضرور پہنچاتی ہے۔

ذرایع ابلاغ کی وسعت کے اس انقلاب آفرین دور میں پاکستان اکیلا ملک نہیں ہے جہاں حکمرانوں کو میڈیا کے ذریعے اپنے دل کی بات زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے میں بڑی مشکل پیش آرہی ہے۔ امریکا سے اس ضمن میں اپنی بات کا آغاز کریں تو اُس ملک میں آج سے پورے ساٹھ برس پہلے کنیڈی وہ پہلے صدر تھے جنہوں نے اپنی شخصیت سے ٹیلی وژن اسکرین کو پُررونق بنادینے کی وجہ سے ایک تاریخی انتخاب جیتا۔ ان کے اجداد کا تعلق آئرلینڈ سے تھا۔ والد نے ناجائز شراب فروشی سے دولت کے انبار اکٹھے کیے تھے۔ وہ امریکی عوام کی اکثریت کی مانند پروٹسٹنٹ نہیں کیتھولک بھی تھے۔ان سب منفی عوامل کے باوجود جان کنیڈی نے صرف ٹیلی وژن اسکرین پر مسحور کن نظر آنے کی وجہ سے اکثریت کے دل جیت لیے۔ رونلڈ ریگن دوسرا صدر تھا جس کی سیاسی کامیابیاں ٹیلی وژن پر کاٹ دار مگر جذبات انگیخت One Liners کے بے ساختہ اظہار والی صلاحیتوں کی مرہون منت تھیں۔

کلنٹن کا جادو بھی ٹیلی وژن سے متعلق ہی رہا۔ امریکا کے پہلے سیاہ فام صدر اوباما اپنے پیشروئوں سے کہیں آگے بڑھ گئے۔ ٹیلی وژن اسکرین پر اچھا لگنے کے ساتھ ساتھ انھوں نے ’’تبدیلی‘‘ کے نعرے سے ایک دوسرے کو اپنے موبائل فونوں کے ذریعے مسلسل SMS کرنے والے نوجوانوں کی بے پناہ تعداد کو متحرک کیا اور وائٹ ہائوس پہنچ گئے۔میڈیا کے تخلیقی استعمال کی اپنی اس بے پناہ صلاحیت کے باوجود امریکی صدر اوباما ان دنوں اپنے لوگوں سے بڑے الگ تھلگ نظر آتے ہیں۔ ابھی ان کی دوسری میعادِ صدارت کے ختم ہونے میں دو برس سے زائد کا وقت باقی ہے مگر اپنے میڈیا کی نظر میں وہ اب تھک چکے ہیں۔ ان کے پاس قلب کو گرمانے اور رُوح کو تڑپانے کے لیے کوئی پیغام باقی نہیں رہا ہے۔ بس ڈنگ ٹپا رہے ہیں۔ امریکا کے بعد میں بھارت کی سیاست میں میڈیا کے ذریعے ڈوبتے یا اُبھرتے ہوئے لوگوں کی ایک لمبی فہرست بھی گنوا سکتا ہوں۔ مگر موضوع میرے اس کالم کا میاں محمد نواز شریف ہیں۔

11مئی کے انتخابات کے بعد وہ اس ملک کے تیسری بار وزیر اعظم بنے ہیں۔ ٹھنڈے دل سے تجزیہ کیا جائے تو نواز شریف کے بدترین سیاسی دشمن بھی یہ بات مان لیں گے کہ عمران خان کی جانب سے چلائی گئی ایک بھرپور انتخابی مہم کے باوجود لوگوں کی اکثریت نے نواز شریف کی مسلم لیگ کو ووٹ دیا تو بنیادی طورپر یہ سوچتے ہوئے کہ پاکستان کے خوفناک حد تک بڑھتے اور گھمبیر ہوتے مسائل کو شاید وہ ماضی کی حکومتوں میں برسوں کی بنیاد پر حاصل کیے تجربے کی بنیاد پر حل کرسکیں۔ میاں صاحب نے تیسری بار وزیر اعظم بن جانے کے بعد ملکی مسائل کو سمجھنے کے لیے اپنے مشیروں کے ساتھ جو طویل ملاقاتیں کیں انھیں لوگوں نے اسی تناظر میں سراہا۔ وجوہات کچھ بھی رہی ہوں اور شاید طویل المدتی بنیادوں پر دیرپا بھی ثابت نہ ہوں مگر اقتدار سنبھالنے کے چند ماہ بعد ہی ان کی حکومت نے لوڈشیڈنگ کے مسئلے پر خاطر خواہ انداز میں قابو پایا ہے۔

بتّی کے معاملات کو تھوڑا بہت درست کرلینے کے بعد نواز شریف کی اصل ذمے داری اب کوئی ایسی پالیسی بنانا اور اس پر عمل کرنا ہے جو ہمارے عوام کو دہشت گردی کے خوف سے نجات دلائے۔ اس پالیسی کے خدوخال واضح طورپر سمجھ لینے سے پہلے وزیر اعظم کا پیر کی شب آٹھ بجے قوم سے ایک گھنٹے لمبا خطاب ایک کارزیاں تھا۔ اس خطاب نے لوگوں کو ہرگز یہ اُمید نہیں دلائی کہ ان کا وزیر اعظم اپنی کمر کس کر چند سنگین مسائل کو حل کرنے کے سفر پر چل نکلا ہے۔ بجھے اور تھکے چہرے کے ساتھ  اور لہجے میں بنیادی طور پر حالات پر چھائی مایوسیاں بیان کرتے رہے اور مستقبل کے حوالے سے وہی باتیں دہراتے رہے جو وہ اپنی حالیہ انتخابی مہم میں بار بار لوگوں کے سامنے رکھتے رہے ہیں۔ قوم سے پیر والے دن ٹیلی وژن اسکرین کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے کسی اور کو نہیں خود اپنے Image کو نقصان پہنچایا ہے۔

ذاتی طور پر مجھے مسلم لیگ کا کوئی مرکزی وزیر یا نواز شریف صاحب کا قریبی ساتھی ہرگز نہیں سمجھا پایا کہ اس خطاب کی ضرورت کیا تھی۔ زیادہ سے زیادہ بس یہی کہا گیا کہ جمعرات کو ملک کے بہت سارے حلقوں میں ضمنی انتخابات ہونے والے ہیں۔ اپنی سرکاری مصروفیات اور سیکیورٹی کے مسائل کی وجہ سے نواز شریف ان تمام حلقوں میں ذاتی طورپر جاکر جلسے وغیرہ منعقد نہیں کرسکتے تھے۔ ان کے مشیران نے مناسب سمجھا کہ وہ ٹیلی وژن کیمروں کے سامنے بیٹھ کر ایک گھنٹے میں اپنے دل کی باتیں لوگوں سے بھرپور انداز میں کر ڈالیں۔ عوام ان پر اعتماد کریں اور اپنے اپنے حلقوں میں مسلم لیگ کی طرف سے کھڑے کیے گئے امیدواروں کو ووٹ ڈال دیں۔ پیر کے خطاب کی ایک وجہ یہ بھی بتائی گئی کہ عوام میں مقبول چند اینکر حضرات اور کالم نگار مسلسل کچھ دنوں سے یہ گلہ کررہے تھے کہ وزیر اعظم بن جانے کے بعد نواز شریف صاحب نے قوم سے خطاب کرنے کی زحمت نہیں کی۔ مجھے بتائے گئے یہ دونوں جواز حیران کن حد تک بودے اور مضحکہ خیز ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ یہ حقیقت بھی بے نقاب کرتے ہیں کہ نواز شریف اپنے سیاسی پیغام کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے ان دنوں بھی وہی بوسیدہ ہتھیار استعمال کر رہے ہیں جو پچھلی صدی کے اختتام تک پہنچتے پہنچتے قطعی ناکارہ ہوچکے تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔