روزمرہ زندگی کی نفی اصل اداکاری ہے

غلام محی الدین  بدھ 21 اگست 2013
معروف مزاحیہ اداکاراور ٹی وی میزبان مسعود خواجہ کی زندگی کے خد وخال ۔ فوٹو : فائل

معروف مزاحیہ اداکاراور ٹی وی میزبان مسعود خواجہ کی زندگی کے خد وخال ۔ فوٹو : فائل

اسلام آ باد:  اداکار مسعود خواجہ کا شمار خوش قسمت فن کاروں میں کیاجائے تو غلط نہ ہوگا، قریباً 20 سال پہلے فن کی دنیا میں قدم رکھنے والے اِس فن کار نے تھیٹر، ٹیلی ویژن اور فلم میں اداکاری کے جوہر دکھانے شروع کیے تھے، پہلے دن سے لے کر آج تک وہ مسلسل کام کررہے ہیں اور آنے والے دنوں میں مزید کام کرنے کے لیے پرعزم بھی ہے۔

بقول مسعود خواجہ کے’’ جس رفتار سے مجھے بھوک لگتی ہے، اُسی رفتار سے مجھے کام کرنے کا شوق بھی ہے، میں جب راولپنڈی اسلام آباد سے باہر کام کرنے کی غرض سے جاتا ہوں تو اِس شرط پر ’’میرے کمرے میں فریج، اوون اور ایرکنڈیشن لازمی ہونا چاہیے، جو میری یہ شرط نہیں مانتا، میں اُس کے ساتھ کام کرنے سے معذرت کرلیتا ہوں‘‘۔

سچی اور کھری باتیں کرنے والے اداکار مسعود خواجہ عرف ’’گوگا‘‘ نے راول پنڈی میں جنم لیا۔ گیارہ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے والدین، عزیز و اقارب اور بہن بھائیوں کا خوب لاڈ، پیار سمیٹا، والدہ پیار سے ’’گُگا‘‘ کہا کر تی تھیں۔ راول پنڈی کے نیو کیپیٹل اسکول سے پرائمری اور میٹرک تک تعلیم مکمل کرنے کے بعد سپورٹس بیس، (کرکٹ) پر کالج میں داخلہ مل گیا، کرکٹ کھیلتے کھیلتے بی اے کا امتحان جیسے تیسے کرکے پاس کر لیا اور دوران تعلیم ہی اپنے بھائیوں اداکار تنویر خواجہ اور سلیم خواجہ کو دیکھ کر اداکاری کا شوق چرایا، سلیم خواجہ کا پی ٹی وی کے ڈرامے انگار وادی میں لازوال کردار’’نولکھا‘‘ ابھی تک لوگ نہیں بھولے۔

’’میں اپنے بھائیوں کے ڈراموں کو اپنے انداز میں لکھ کر اسکول اور کالج میں خفیہ طور پر پیش کرنے کی کوششوں میں مصروف رہتا، پھر جب لیاقت ہال کے ایک تھیٹر میں باقاعدہ کام شروع کیا تو گھر والوں کو میری سرگرمیوں کا علم ہوگیا، خدا کا شکر ہے کہ دوسرے بہت سے فن کاروں کی طرح مجھے گھر سے مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور شاید اسی لیے اس راہ پر چلتے ہوئے میرے پاؤں لہولہان نہیں ہوئے۔‘‘ اداکار مسعود خواجہ نے تین فلموں میں کام کیا اور ان کے بارے میں وہ کہتے ہیں ’’یہ بھی ایک منفرد اعزاز ہے کہ تینوں بڑے دھوم دھڑکے سے ناکام ہوئیں، لیکن ان کی وجہ سے میں فلموں میں کام کرنے کی تکنیک سے واقف ہو گیا، میں اصل میں ٹی وی کا فن کار ہوں اور ٹی وی پر ہی میرے جوہر کھل کر سامنے آئے‘‘۔

کشمیری خاندان میں پیدا ہونے والے مسعود خواجہ کا بچپن بہت شور شرابے والا تھا، گیارہ بہن بھائیوں، گلی محلے اور رشتے داروں کے بچوں کی موجودگی میں پروان چڑھنے والے اِس بچے نے خوب شرارتیں کیں اور وہی شرارتیں ابھی تک ان کے ساتھ ہیں اور یوں وہ سنجیدہ اداکاری سے اکتا کر مزاحیہ اداکاری کی جانب آ گئے۔ ’’لوگ کہتے ہیں مزاحیہ اداکاری مشکل ہے جب کہ مجھے یہ بہت آسان لگتی ہے‘‘۔

بچپن کی باتیں کرتے ہوئے کہنے لگے ’’گھر والوں نے خرچے پر کبھی پابندی نہیں لگائی تھی اس لیے بچپن اور جوانی بڑے مزے سے گزر گئے، میں بہت مطمعن انسان ہوں، حضرت علیؓ کا فرمان ہے ’’جس کا آج ،گزرے ہوئے کل سے بہتر نہیں اُس کو سوچنا چاہیے‘‘ شکر الحمداللہ میرا آج، ماضی سے بہت بہتر ہے۔ ایک وہ دن بھی تھے ’’اکیلے والد صاحب کماتے اور ہم پندرہ لوگ کھانے والے تھے، اُس وقت بھی گھر میں برکت تھی اور شکر کرتا ہوں کہ دن آج بھی برے نہیں، زندگی میں چھوٹی چھوٹی تکلیفیں اور دکھ تو ہر کوئی برداشت کرتا ہے مگر میں نے اپنی زندگی میں کوئی بڑا دکھ نہیں دیکھا، سوائے اس کے آج میں اپنی والدہ کو یاد کرکے اداس ہو جاتا ہوں، کاش وہ زندہ ہوتیں… یہ خواہش تمام تر کوشش کے باوجود دبا نہیں سکا‘‘۔

اپنی تعمیر و ترقی میں کردار ادا کرنے والے اپنے بھائیوں، دوستوں اور ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’سچے فن کار کو احسان فراموش نہیں ہونا چاہیے، سچا اداکار اپنے اٹھنے بیٹھنے سے ہی پہچانا جاتا ہے، وہ اپنے سے جونیئر کا راستہ نہیں روکتا اور سینئر کا ادب نہیں بھولتا، جس میں یہ وصف نہیں وہ فن کار نہیں بل کہ فن کار بننے کے چکر میں ہوتا ہے‘‘۔ فاروق قیصر اور شاکر عزیر کا ادب سے نام لیتے ہوئے اداکار مسعود خواجہ نے کہا ’’میرے آگے بڑھنے میں ان کا بہت بڑا ہاتھ ہے، میں نے ان لوگوں سے ڈرامہ لکھنے، ڈائریکشن اور اداکاری کے رموز و اسرار سیکھے، گیسٹ ہاؤس سے لے کر خواجہ آن لائن تک کا سفر بہت سے محترم لوگوں کی وجہ سے طے ہوا ورنہ میں ہرگز اِس قابل نہیں تھا‘‘۔

اداکار مسعود خواجہ نے ایک بات بغیر لگی لپٹی کہی ’’مجھے سنجیدہ اداکاری شروع دن سے ہی اچھی نہیں لگتی تھی، اِس لیے میں بہت جلد مزاح کی طرف آ گیا، اگر وہیں اڑا رہتا تو مارا جاتا۔ کامیڈی کے میدان میں جو کردار پرفارم کیے وہ سب کے سب ہٹ ہوتے گئے اور مجھے اللہ نے خواجہ آن لائن کے مسلسل 600 پروگرام کرنے کے اعزاز سے نواز دیا‘‘۔

مرحوم معین اختر اور عمر شریف کا ذکر کرتے ہوئے کہا ’’میں نے اِن سے بہت کچھ سیکھا، جو لوگ آج بھی سیکھنے کا شوق رکھتے ہوں، وہ ان کے کام کو غور سے دیکھیں اور فیض حاصل کریں۔ مرحوم معین اختر نے جب میرے پروگرام خواجہ آن لائن کی لکھ کر تعریف کی تو میں خوشی پاگل ہو گیا تھا ان کی تحریر میرے لیے بہت بڑی سند کا درجہ رکھتی ہے‘‘۔

منور ظریف، رنگیلا، ننھا، لہری اور البیلا کے علاوہ دیگر لیجنڈ فن کاروں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے مسعود خواجہ نے کہا کہ میں اس قابل نہیں کہ ان کے کام پر بات کروں، یہ چھوٹا منہ بڑی بات ہو جائے گی، میں منور ظریف کو صرف اداکار کہوں تو یہ درست نہیں وہ اداکاری کے دیوتا تھے، ماضی کے بڑے فن کاروں کے سامنے مجھ سمیت بہت سے دوسرے اداکار صرف ’’مخولیے‘‘ ہیں۔

قوی صاحب، عرفان کھوسٹ صاحب اور بہت سے نام ور فن کار آج مجھے دوستوں میں شمار ہوتے ہیں میرے لیے یہ بہت بڑا اعزاز ہے کہ میں ان کے حلقے میں شامل ہوں۔ اداکار مسعود خواجہ نے اپنی اداکاری میں ایک خامی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میں جملوں کی ادائیگی میں تیزی دکھاتا تھا اور اب بھی اس خامی پر قابو پانے کی کوشش میں ہوں، عرفان کھوسٹ صاحب نے صرف ایک جملے میں مجھے سمجھا دیا کہ ’’خواجہ تیز بولنے کی عادت سے استفادہ کرو، کہاں جملہ روکنا ہے، کہاں تیزی سے آگے بڑھنا ہے، اس پر دھیان دو گے تو بہت سے کام سنور جائیں گے، ان کا فرمایا ہوا غلط نہیں تھا۔ پھر انہوں نے مجھے جملوں کی ادائیگی کا ہنر سکھایا، اب یہ میرا قیمتی ہتھیار بن چکا ہے۔

اپنی ذات کے حوالے سے کہنے لگے ’’میں کشمیری پُتر ہوں، کشمیری وہ قوم ہے کہ جو کھانے پینے پر سمجھوتہ نہیں کرتی، اگر ایک مکان ہو اور کھانے کو کچھ نہ ہو تو یہ مکان بیچ دے گی، دال چاول کا عاشق ہوں، میرے کمرے میں بیڈ، صوفہ ہونا ضروری نہیں، کھانے پینے کا سامان ہونا لازمی ہے۔ میں چوبیس گھنٹے کھا سکتا ہوں، اوپر سے اللہ نے بیوی ایسی دی جو لذیذ کھانا پکانے کی ماہر ہے، اِس لیے زندگی بڑی سکھی گزر رہی ہے‘‘۔

گھر داری اور ازدواجی زندگی پر کہنے لگے ’’میرے بچے اور بیوی بہت پیار کرنے والے ہیں۔ بیوی نے آج تک مجھ پر شک نہیں کیا، وہ تو یہاں تک طعنہ دیتی ہے کہ مسعود کسی لڑکی سے عشق کرلو، تم کو عشق کی وجہ سے بننا سنورنا تو آ جائے گا۔ حالاں کہ میں کپڑے بہت اچھے پہنتا ہوں۔ خواجہ آن لائن کے تمام پروگراموں میں جو سوٹ میں نے ایک مرتبہ پہنا وہ دوسرے پروگرام میں نہیں پہنا، مگر جب کبھی کبھی سستی کا دورہ پڑتا ہے ،تو شیو نہیں کرتا، کئی کئی دن ایک ہی سوٹ میں نکل جاتا ہے پھر بیوی کی طرف سے محبت بھری ڈانٹ سننا پڑتی ہے، بات یہ بھی دل چسپ ہے کہ میرے کپڑوں کے سارے ڈیزائن میری بیوی خود تیارکرتی ہے اور پھر بھی مجھے کپڑوں پر سنا دیتی ہے‘‘۔

اداکاری پرزوال کی بات ہوئی تو کہنے لگے ’’میں بڑے اور طویل زوال سے بہت ڈرتا ہوں، چھوٹے چھوٹے زوال ضرور ہونے چاہئیں، اس سے فن کار سیکھتا ہے لیکن جب بڑا زوال آتا ہے تو اس کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ آپ کے بہن بھائی، دوست احباب اور بعض اوقات بچے بھی ساتھ چھوٹے دیتے ہیں۔ میں اللہ تعالیٰ کا بہت مشکور ہوں کہ شروع دن سے ہی مجھ پر اس کی رحمت ہے۔ میں نے زندگی میں ابھی تک بڑی اور خوف ناک مشکل نہیں دیکھی، سوائے ماں کی جدائی کے ‘‘۔ اداکار مسعود خواجہ نے نہایت معصومیت سے یہ تسلیم کیا کہ وہ اچھے بیٹے کی نسبت اچھے باپ ہیں ’’جب بیٹا تھا تو والدین کے مقام کی سمجھ نہیں تھی، جب خود والد بنا ، تو سمجھ آئی، اِسی لیے شاید میں بیٹے کی نسبت اچھا باپ ہوں، میں سات بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہوں مگر جب عید پر بڑی بہنوں کو مٹھائی اور چوڑیاں دینے جاتا ہوں تو اُس وقت میں بڑا بن جاتا ہوں، مجھے بڑا بننا بہت اچھا لگتا ہے‘‘۔

زندگی میں ’’یو ٹرن‘‘ آ جائیں تو کیا کرنا چاہیے؟ ’’ بھائی جان چپ چاپ مڑ جانا چاہیے، یہ یوٹرن اللہ نے بندے کو سمجھانے کے لیے تیار کررکھے ہیں، جب منافقت اور خود غرضی کی انتہا ہو جاتی ہے تو یہ مقام آ تے ہیں، واپس مڑنے سے میرے خیال میں زندگی بہتر ہو جاتی ہے۔ والدہ اللہ کو پیاری ہوئیں، شادی ہوئی اور ا س کے بعد بہن بھائیوں سے الگ ہونا پڑا، یہ میرے لیے یو ٹرن تھے، میں اگر ضد پر اڑا رہتا تو آج یہ سب کچھ نہ ہوتا، جب آپ بے یارومددگار ہو جاتے ہیں اور آپ کے بڑے اس لیے الگ ہو جاتے ہیں کہ یہ کچھ مانگ نہ لے، چھوٹے اس لیے منہ نہیں لگاتے کہ اس کے پاس ہے ہی کیا؟ تو اُس وقت بندے کو سمجھ آتی ہے کہ یو ٹرن کیا ہوتا ہے، میں اس موڑ سے گزر چکا ہوں مگر میرے مالک نے ہر مقام پر ایسی رحمت کی کہ میںمایوس ہوئے بغیر ہر موڑ سے گزر گیا۔

میں ماننے والوں میں سے ہوں، شاید اس لیے اللہ نے مجھے آج تک رسوا نہیں ہونے دیا، اپنے سینئر کو ماننا، اپنے جونیئر کو ماننا میرے لیے ایک جیسا کام ہے۔ جونیئر کے برے حالات مجھ سے دیکھے نہیں جاتے اور سینئر کے اچھے حالات پر حسد نہیں ہوتا، شاید اِس لیے ابھی تک اللہ کے غضب سے محفوظ ہوں۔ میرے خیال میں اللہ سے ہر وقت کرم مانگنا چاہیے، ا پنے اللہ سے ’’لاڈیاں‘‘ کرنی چاہئیں، وہ بھی تو ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرنے والی ماں کی طرح شفیق ہے، لاڈیاں ماں سے ہی ہو سکتی ہیں، اِس لاڈ پیار میں جو گلے شکوے ہوتے ہیں وہ محبت بھرے ہوتے ہیں، میں جب اپنے اللہ سے باتیں کرتا ہوں تو اُس میں اپنی مایوسیوں کو کبھی نہیں چھپاتا، سب کچھ اُگل دیتاہوں، پھر مجھے میرا مالک جواب دیتا ہے تو میں آبدیدہ ہو جاتا ہوں۔

میرے گلے شکوؤں کا جواب کبھی کسی ڈرامے کی لائن میں چھپا ہوتا ہے، کبھی تنور سے لائی گئی روٹی والے اخبار کے ٹکڑے پر لکھا ہوتا ہے، کبھی کسی فون کال کی گفت گو کا کوئی جملہ میرے لیے جواب بن جاتا ہے، آقا دو جہاں کی حدیث مبارکہ سامنے آ جاتی ہے، بزرگوں کے فرمان اور اقوال سے روشنی مل جاتی ہے، یہ سب کچھ میری تسلی اور تشفی کا سامان ھی تو ہیں، مثلاً ایک فرمان ہے کہ ’’صبر ایک ایسی سواری ہے جو کبھی اپنے سوار کو نظروں سے اور قدموں میں گرنے نہیں دیتی ہے‘‘۔

اداکاری کے شعبہ میں آنے والے نئے لوگوں کے متعلق مسعود خواجہ نے کہا ’’میں نئے لوگوں کے اس لیے خلاف ہوں کہ صدر پاکستان سے لے کر ایک ریڑھی والے تک کی ایک ہی خواہش ہے کہ میں ٹی وی پر آ جاؤں،بھئی اگر آپ آنا چاہتے ہیں تو پھر کشتیاں جلا کر آئیں، پورا وقت دیں، اس شعبے کو اپنے مفادات کے لیے ڈھال مت بنائیں۔ آج ٹیلی ویژن پر سیاسی اداکاروں سے لے کر مذہبی اداکاروں کی بھرمارہوچکی ہے، میرا ان لوگوں سے ایک ہی اختلاف ہے کہ اگر ٹیلی ویژن پر آنا ہے تو پہلے اپنے دوسرے کاروبار بند کریں اور اس پلیٹ فارم پر یکسوئی کے ساتھ آ کر پرفارم کریں۔

مثلاً جنید جمشید کے آؤٹ لیٹ پر ایک شیروانی ایک لاکھ روپے کی ہے مگر ٹیلی ویژن پھر بھی اُس کی ضرورت ہے، یہ کیا ہے؟ یہ دوسروں کی، اصل لوگوں کی حق تلفی نہیں، تو کیا ہے؟ اِن دوہرے معیار والے نئے اور پرانے لوگوں کے میں ہمیشہ سے خلاف ہوں، یہ اوریجنل بندوں کا حق مارتے ہیں، راہیں روکتے ہیں، شہرت کے لیے مفت کام کرکے، غریب اور حق داروں کے بچوں کی روٹی چھینتے ہیں، یہ ایکٹر نہیں، بُروکر ہیں‘‘۔

اداکاری اور عام زندگی میں اداکاری کے فرق کی وضاحت کرتے ہوئے مسعود خواجہ کہنے لگے ’’اداکاری نام ہے اُس عمل کا جو اداکارخود نہیں ہوتا مگر وہ ادا کرتا ہے‘‘ روزمرہ زندگی میں اداکاری کی نفی ہی، اصل اداکاری ہے، اِس لیے جو لوگ روزمرہ زندگی میں اداکاری کرتے ہیں وہ اداکاری کے میدان میں ہمیشہ ناکام رہتے ہیں، زندگی میں اداکاری اور اسٹیج یا کیمرے کے سامنے اداکاری کا فرق ایک منٹ میں سمجھ آ جاتا ہے، یہ لوگ ڈرائنیگ روم کے اداکار ہوتے ہیں، کہے بغیر یہ بہت اچھی اداکاری کر لیتے ہیں مگر جب کہا جاتا ہے کہ اداکاری کرو تو چہرے کا رنگ فق ہو جاتا ہے۔ اداکاری نقالی کا ہی دوسرا نام ہے اور یہ ایک باقاعدہ فن ہے‘‘۔

ٹی وی میزبان اور اداکار میں کیا فرق ہوتا ہے، اس پر مسعود خواجہ نے کہا کہ اینکر پرسن یا میزبان کو غیر جانب داری کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے، حالات و واقعات کو خود پر طاری نہیں کرنا چاہیے جب کہ اداکاری اس کے برعکس ہوتی ہے، میں نے دونوں کام کیے تومجھے اِس باریک فرق کا علم ہوا مگر آج کل جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس کے بالکل الٹ ہے، ماضی کے اینکر پرسن، نعیم بخاری، طارق عزیز، قریش پور، پروفیسر لیئق احمد کی مثال ہمارے سامنے ہے،کسی مہمان کی مجال نہیں ہوتی تھی کہ ان کے پروگرام میں لڑائی کرے، ان لوگوں کا علم، رعب اور مرتبہ مہمانوں سے تربیت، تعلیم اور تفریح کے وہ پہلو نکال لیتے جس سے رائے عامہ ہم وار ہوتی، مگر آج کا اینکر رائے عامہ کو ایک منٹ میں تتر بتر کرنے کو’’ ریٹنگ‘‘ کا نام دے کر شہرت حاصل کرنے کی دھن میں مگن ہے‘‘۔ اب لوگ جعلی اداکاروں اورٹاک پروگراموں کے میزبانوں کی شکل دیکھ کر ہنستے ہنستے رونے لگے جاتے ہیں اور روتے روتے ہنس پڑتے ہیں‘‘۔

اداکار مسعود خواجہ نے کہاکہ اب وقت آ گیا ہے کہ پاکساتن کے ہر بندے کو سوچنا پڑے گا کہ میں جو ہوں؟ کیا میں اس کے قابل بھی ہوں یا میرا داؤ لگا ہوا ہے؟ اگر داؤ بھی لگا ہوا ہے تو اُس کا برملا اقرار کرنا ہوگا، اگر آپ واقعی قابل ہیں مگر موقع نہیں مل رہا تو خدا کے حضور پھر عاجزی سے اقرار کرنا ہوگا کہ جو تیری رضا ہے میں اُس پر راضی ہوں، موقع خود بہ خود نکل آئے گا۔ ایمان داری سے میں جب اپنا احتساب کرتا ہوں تو میں پکار اٹھتا ہوں کہ میں جو ہوں، میں اس کے قابل نہیں ، میں تو عیبوں بھرا شخص ہوں، اگر پھر بھی مالک مجھے ناکام نہیں ہونے دیتا تو اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ یہی میری محنت اور کوشش ہے، ہر روز لوگ مجھ سے زیادہ محنت اور کوشش کر رہے ہیں، ان کو کیوں ناکامی ملتی ہے؟ یہ باتیں سوچ بچار کی ہیں لیکن رستہ ایک ہی ہے کہ ایمان داری سے اپنا احتساب کیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔