کبھی کبھی میرے دل میں

خرم علی راؤ  اتوار 5 مئ 2019
’’کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے‘‘۔(تصویر: انٹرنیٹ)

’’کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے‘‘۔(تصویر: انٹرنیٹ)

قریباً تیس پنتیس سال پہلے فلم ’’کبھی کبھی‘‘ میں ساحر لدھیانوی کی پرکیف و اثرانگیز شاعری پر مشتمل شہرۂ آفاق گیت ’’کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے‘‘ جو روشن جیسے باکمال موسیقار کی بنائی لافانی دھن اور مکیش کی سنہری آواز میں جب نشر اور پردۂ سیمیں پر جلوہ گر ہوا تو ایک ایسا امر گیت بن گیا جو آج بھی کانوں میں رس گھولتا ہے۔ یہ گیت میں بھی کبھی کبھی سنتا ہوں اور جب کبھی سنتا ہوں تو میرے دل میں رومانوی جذبات جاگنے کے بجائے کچھ اور خیالات آنے لگ جاتے ہیں۔ تو سوچا کہ آپ سے شیئر کرلوں۔

تو کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ کاش ہم جس ہمہ گیر و دلگیر اور برسوں سے جاری جس زوال و عتاب کا شکار ہیں، کاش نہ ہوتے۔ اگر اس زوال کے آغاز کی کوئی ٹائم لائن متعین کی جائے، یعنی اگر یہ جاننے کی کوشش کی جائے کہ وہ کون سا دور، عہد یا زمانہ تھا کہ جب عالمی قیادت و سیادت کا امت مسلمہ سے لیے جانے اور غیروں کو دیے جانے کا آغاز ہوا تو میری ناقص رائے میں وہ سقوطِ بغداد کا عہد اور دور ہے، جہاں سے اس زوال کا آغاز ہوتا ہے اور پھر سقوط اندلس سے ہوتے ہوئے خلافت عثمانیہ کا خاتمہ اس کا نقطۂ عروج ٹھہرا۔

یہ زوال اگر نہ ہوا ہوتا اور مسلمان اپنی دنیاوی اور علمی سیادت کا سفر جاری رکھے ہوئے ہوتے۔ یہ کوئی تعصب والی بات نہیں، بلکہ تاریخ شاہد ہے کہ یہ محیرالعقول ترقی جو آج مغرب سے منسوب ہے اور بجا طور پر منسوب ہے، شاید چودھویں اور پندرھویں صدی عیسوی میں ہی انسانیت کو مل چکی ہوتی کہ بارہویں صدی عیسوی میں مسلمان فلاسفر اور سائنسدان مادے اور توانائی کے باہمی تعلق پر، ریاضی کی مبادیات پر، سائنسی ایجادات پر مباحث، مفروضات، نظریات پیش کرنے اور عملی کام کرنے کا ایک ایسا شاندار نظام لے کر چل رہے تھے، جو آگے جاکر موجودہ شاندار ترقی کا پیش خیمہ اور بنیاد ثابت ہوا۔ تو کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ کاش یہ سفر اس بری طرح قطع نہ ہوا ہوتا یا نہ کیا جاتا تو انسانیت کی ترقی کے پانچ چھ سو سال شاید بچ جاتے۔

کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ اگر بانیان پاکستان قیام پاکستان کے فوراً بعد جاگیرداری اور سرداری نظام کا بالکل اسی طرح جڑ سے خاتمہ کردیتے جس طرح سے ہندوستان نے آزادی کے فوراً بعد ریاستوں ،رجواڑوں اور جاگیروں کا خاتمہ کرکے کیا تو شاید آج ہم ایک بھیانک قسم کے مافیائی جال میں گرفتار اور جکڑے ہوئے نہیں ہوتے اور ملک ترقی کی شاہراہ پر آگے ہی اگے فراٹے بڑھ رہا ہوتا۔

اس ایک طبقے نے جسے اب اجتماعی طور پر کچھ سیاسی و سماجی دانشور اشرافیہ کا نام دیتے ہیں، ہر شعبۂ زندگی میں بڑی مہارت سے گھس کر اور سرائیت کرکے صرف اپنی ذاتی خواہشات، لذات اور مفادات کو پورا کرتے رہنے کےلیے ایسا بگاڑ، ایسا زوال اور ایسے لاینحل قسم کے معمے اور مسائل پیدا کردیے ہیں، مثلاً کرپشن، جہالت، میرٹ کی حق تلفی وغیرہ، جن سے نبردآزما ہونا اگر ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور ہوگیا ہے۔ مگر بانیان پاکستان بھی کیا کرتے؟ ان کے سامنے بھی مسائل کےانبار و پہاڑ موجود تھے اور عیار پڑوسی روز اول سے ہی اپنی مکروہ چالیں اس نوزائیدہ مملکت کو ابتدا ہی میں ناکام بنانے کےلیے، چلنے میں مصروف تھا، جن کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔

کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ کاش میرا وطن ایک مثالی فلاحی مملکت ہوتا، جس کے تمام تر ذرائع، وسائل اور امکانات قدرت نے اسے بڑی فیاضی سے عطا کیے ہیں۔ کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ کاش میرے ملک کی یونیورسٹیاں نیوٹن اور آئن اسٹائن جیسے عبقری اور میرے ملک کے مدارس رازی و غزالی جیسے علما پیدا کررہے ہوتے۔

کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ کاش میرا وطن اتنا روشن، جگمگاتا اور ترقی یافتہ ہوچکا ہوتا کہ لوگ میرے وطن میں آنے کےلیے اپنے اپنے ممالک میں پاکستانی سفارت خانوں کے سامنے ایسے ہی پاکستان کا ویزا لینے کے لیے لائن لگائے کھڑے ہوتے جیسے کہ آج ہم یورپ، امریکا اور جاپان وغیرہ کے سفارت خانوں کے سامنے قطاروں میں کھڑے ہوا کرتے ہیں۔

کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ ہم غیروں کی تہذیب کی چمک دمک سے مرعوبیت میں کھو جانے، ڈوب جانے اور اپنانے کے بجائے اپنی تہذیب و تمدن اور طرزِ زندگی سے زندہ قوموں کی طرح سارے عالم کو مسخر کررہے ہوتے۔

کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ کاش ہمارے خلائی اسٹیشنز نظامِ شمسی، کہکشاؤں اور کائنات کی چھان بین کرنے میں سب سے آگے ہوتے اور فلکیاتی و کائناتی سائنسز میں ہم نت نئے آفاق وا کررہے اور عیاں کررہے ہوتے۔

کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ کاش ہمارے حکمراں باتوں کے شیر اور کلام کے کھلاڑی نہیں، بلکہ اجتماعی طور پر قومی ترقی کےلیے دن رات کام، کام اور صرف کام کرنے کی عملی تصویر ہوتے۔ عوام خوشحال، خوش باش اور پرسکون ہوتے۔ ہم دنیا کو قرضہ دینے والے ممالک میں سے ہوتے اور عالمی معیشت میں ایک طفیلی قسم کا ملک ہونے کے بجائے اس عالمی معاشی گورکھ دھندے میں زبردست اثرو رسوخ کے حامل ہوتے۔

یہ چند خیالاتِ آوارہ اور ان کے علاوہ بھی کئی کبھی کبھی میرے دل میں آیا کرتے ہیں۔ مجھے ان خیالات کو لانے کی اور سوچنے کی وجہ سے براہِ کرم معاف کردیجیے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

خرم علی راؤ

خرم علی راؤ

بلاگر استاد ہیں جبکہ شارٹ اسٹوریز، کونٹینٹ رائٹنگ، شاعری اور ترجمہ نگاری کی مہارت بھی رکھتے ہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔