مہنگائی، آئی ایم ایف کی نئی شرائط اور پولیس اصلاحات

مزمل سہروردی  جمعرات 2 مئ 2019
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

مہنگائی کا شور ہے۔ اوپر سے آئی ایم ایف کے وفد کی پاکستان آمد کے موقع پر مزید مہنگائی کی خبریں آرہی ہیں۔ نئی خبر یہ آئی ہے کہ آئی ایم ایف بجلی اور گیس کے نرخوں میں مزید اضافہ کی مانگ کر رہا ہے۔ حالانکہ جب سے یہ حکومت آئی ہے بجلی گیس کے نرخوں میں مسلسل اضافہ کر رہی ہے۔ لیکن پھر بھی آئی ایم ایف کی تسلی نہیں ہوئی ہے۔ اور اس کے خیال میں عوام میں بجلی اور گیس کے نرخوں میں مزید اضافہ برداشت کرنے کی سکت ہے۔ اس لیے مزید دباؤ ڈالنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ تاہم یہ احساس خوش آیند ہے کہ حکومت کو مہنگائی کا علم ہو گیا ہے۔

اس لیے اس بار آنکھیں بند کر کے پٹرول کی قیمت بڑھانے سے بھی اجتناب کیا گیا ہے۔ اور معاملہ ای سی سی کو بھیج دیا گیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ پٹرول کی قیمت میں اضافہ ہوگا لیکن کہیں نہ کہیں حکومت کو یہ احساس ہونا شروع ہو گیا ہے کہ اب سیاسی مخالفین پر تنقید کر کے اور ماضی کی حکومتوںکو ذمے دار قرار دیکر عوام پر ظلم کرنے کا حربہ آہستہ آہستہ اپنی اہمیت کھو رہا ہے۔ اب لوگ مہنگائی کا ذمے دار اس حکومت کو ہی ٹھہرا رہے ہیں۔ اس لیے اب ماضی کی حکومتوں پر تنقید کر کے عوام کو مزید بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا۔

عام آدمی کو آئی ایم ایف جانے یا نہ جانے سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ کہیں نہ کہیں عام آدمی کو اس بات سے بھی کوئی سروکار نہیں کہ یہ حکمران کیسے اور کتنا قرضہ لیتے ہیں۔ عام آدمی کو تو اپنے شب و روز سے غرض ہے۔ اسے تو اپنی تنخواہ اور دو وقت کی روٹی سے غرض ہے۔ اور کہیں نہ کہیں اس حکومت کو یہ احساس کرنا ہے کہ وہ روز بروز عام آدمی کے شب و روز مشکل بناتی جا رہی ہے۔

اب شنید یہی ہے کہ آیندہ بجٹ میں 500ارب سے زائد کے نئے ٹیکس لگنے جا رہے ہیں۔ یہ خبر کسی سونامی سے کم نہیں ہے۔ کیونکہ سب کو معلوم ہے کہ امیر سے ٹیکس لینے میں تو یہ حکومت مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ اسی لیے اب غریب اور مڈل کلاس سے زیادہ سے زیادہ ٹیکس لینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس نئے پاکستان میں ضرورت زندگی کی ہر چیز مہنگی ہو چکی ہے۔ روپے کی قدر کم ہو چکی ہے۔ ڈالر مہنگا ہو چکا ہے۔ برآمدات گر چکی ہیں۔ تنخواہیں کم ہو چکی ہیں۔ بے روزگاری بڑھ چکی ہے۔ روزگار کے مواقعے روز بروز کم ہو رہے ہیں۔ کیا یہی نیا پاکستان ہے۔

یہ بات بھی نا قابل فہم ہے کہ اگر اب آئی ایم ایف کے کہنے پر بجلی گیس کے نرخ بڑھائے جائیں گے۔ اگر اب دوبارہ آئی ایم ایف کے کہنے پرروپے کی قدر پھر کم کرنی ہے تو پہلے کس کے کہنے پر روپے کی قدر کم کی گئی ہے۔ اگر اب پانچ سو ارب روپے کے اضافی ٹیکس آئی ایم ایف کے کہنے پر لگانے ہیں تو پہلے ٹیکس کس کے کہنے پر لگائے گئے ہیں۔

اس حکومت نے اپنے پہلے نو ماہ میں عوام کا بھرکس نکال دیا ہے۔ یہ سنا کر سارا قصور گزشتہ حکومت کا ہے ساتھ ہی نیا ظلم شروع کر دیا جاتا ہے۔ یہ راگ الاپ کر کہ گزشتہ حکومت چور تھی عام آدمی سے دو وقت کی روٹی چھین لی جاتی ہے۔یہ کہاں کا انصاف ہے۔

میری حکومت سے درخواست ہے کہ اب بجلی گیس کی قیمتیں بڑھانا بند کر دے۔ آئی ایم ایف سے قرضہ لے یا نہ لے۔ لیکن میری زندگی کو مشکل سے مشکل تر نہ بنایا جائے۔ غریب اور مڈل کلاس پر ٹیکس لگانا بند کر دیا جائے۔ اگر آپ امیر سے ٹیکس نہیں لے سکتے تو مجھ پر بوجھ کیوں ڈال رہے ہیں۔ اگر آپ اس سال ہدف کے مطابق ٹیکس اکٹھا کرنے میں ناکام رہے ہیں تو کیا یہ میرا قصور ہے۔

آپ کی نا تجربہ کاری کی قیمت میرے خون سے کیوں ادا کی جا رہی ہے۔ اتنا تو ایسٹ انڈیا کمپنی کے تحت بھی عام آدمی پر ظلم نہیں کیا جاتا تھا جتنا یہ حکومت عام آدمی پر رہی ہے۔ ایک کروڑ نوکریاں دینا تو دور کی بات ہے دس لاکھ سے زائد لوگ مزید بے روزگار ہو گئے ہیں۔ عام آدمی کو خوشحالی کیا دینی تھی پہلی تنخواہیں ہی کم ہو گئی ہیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومت کو ابھی مکمل احساس نہیں ہوا ہے۔ نئے وزیر خزانہ نئے جوش و جذبہ کے ساتھ ٹیکس بڑھانے کی تیاری کر رہے ہیں۔

اس حکومت کے کون کون سے دعوے یاد کر کے ہم روئیں گے۔ مہنگا نیا پاکستان تو ایک طرف لیکن پولیس اصلاحات دوسری طرف۔ تحریک انصاف کے نئے پاکستان میں تھانہ کلچر کی تبدیلی ایک بنیادی نقطہ تھی۔ اسی پولیس اصلاحات اور ٹیکس کلچر کی تبدیلی میں یہ حکومت آئی جی پر آئی جی بدل رہی ہے۔ ایسے آئی جی بدلنے کا رواج پہلے دیکھنے میں نہیں آیا۔ اب امید کی جا سکتی ہے کہ آئی جی بدلنے کا طوفان تھم گیا ہے۔

دیر کی مہرباں آتے آتے کے مصداق پنجاب میں بھی عارف نواز واپس آگئے ہیں۔ بہت سے تجربات کے بعد تحریک انصاف کو سمجھ آئی ہے کہ عارف نواز کو واپس لانے میں ہی بہتری ہے۔ اسی طرح اسلام آباد میں بھی متعدد تبدیلیوں کے بعد عامر ذوالفقار پر گیم آکر رک گئی ہے۔ حالانکہ اس سے قبل عامر ذوالفقار کو آئی جی موٹر وے لگایا گیا لیکن حکومت کی سمسٹر سسٹم پالیسی کے تحت انھیں فوری ہٹا دیا گیا۔ لیکن اب لگتا ہے کہ اے ڈی خواجہ بھی بطور آئی جی موٹر وے سیٹ ہو گئے ہیں۔ سندھ میں حکومت کلیم امام سے خوش نہیں ہے۔

وہاں سندھ ہائی کورٹ نے پولیس میں تبادلوں کے حوالہ سے آئی جی کو جتنا با اختیار بنا دیا ہے۔ وہ سندھ حکومت کی پریشانی ہے۔ اسی لیے نہ سندھ حکومت اس سے پہلے اے ڈی خواجہ سے خوش تھی اور نہ ہی اب کلیم امام سے خوش ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کے پی کی مثالی پولیس صرف انتخابات تک ایک انتخابی نعرہ ہی تھا۔ پنجاب میں ناصر درانی جس طرح بولڈ ہوئے ہیں۔ اس نے کے پی کی مثالی پولیس کا پول بھی خوب کھول دیا ہے۔

یہ بات بھی قابل اطمینان ہے کہ اس حکومت نے اب آئی جی کو بار بار بدلنے کے بجائے آئی جی کے ساتھ کام کرنا سیکھ لیا ہے۔ حال ہی میں اسلام آباد میں نئے وزیر داخلہ اعجاز شاہ نے ایک تقریب میں اسلام آباد پولیس کی کارکردگی پر نہ صرف اطمینان کا اظہار کیا ہے بلکہ انھوں نے آئی جی اسلام آباد عامر ذوالفقار کی بہت تعریف بھی کی ہے۔اسلام آباد میں منشیات ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ لیکن گزشتہ چھ ماہ میں اسلام آباد میں منشیات کی روک تھام پر بہت کام ہوا ہے بہت بڑا کریک ڈاؤن کیا گیا ہے۔ سنگین جرائم کی شرح میں 35فیصد کمی ہوئی ہے۔ اسلام آباد پولیس میں آئی ٹی کلچر لایا جا رہا ہے۔ تفتیش کے نظام کو آئی ٹی سے منسلک کیا جارہا ہے۔

پولیس اصلاحات کے لیے جہاں حکومت کا فرض ہے کہ ایک اچھے افسر کو آئی جی لگائے ۔ وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے بعد اس آئی جی کو کام کرنے کی اجازت بھی دی جائے۔ انھیں مینڈیٹ دیا جائے لیکن اس مینڈیٹ کی تکمیل کے لیے فری ہینڈ بھی دیا جائے۔ اگر اسلام آباد جیسے چھوٹے اور ترقی یافتہ شہر میں ہی پولیس اصلاحات پر عمل ہوجاتا ہے تو یہ بھی بہت بڑی کامیابی ہو گی۔ اگر اسلام آباد کا تھانہ کلچر ہی تبدیل ہو جاتا ہے تو پنجاب کے تھانہ کلچر میں تبدیلی کی راہ ہموار ہو جائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔