ڈائنوسار کا خاتمہ کرنے والے شہابِ ثاقب کے زمین سے ٹکرانے کے بعد کیا ہوا تھا؟

جوناتھن آموس  جمعرات 2 مئ 2019
جن پر وہ چٹانی اور شیشے کے ذرات موجود ہیں جو آسمان سے برسے تھے۔ فوٹو: فائل

جن پر وہ چٹانی اور شیشے کے ذرات موجود ہیں جو آسمان سے برسے تھے۔ فوٹو: فائل

سائنسدانوں کو چھ کروڑ ساٹھ لاکھ برس قبل زمین سے شہابِ ثاقب کے ٹکراؤ کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کے ثبوت ملے ہیں۔

خیال کیا جاتا ہے کہ اس ٹکراؤ کی وجہ سے ہی دنیا سے ڈائنوسارز ختم ہو گئے تھے۔ امریکی ریاست شمالی ڈکوٹا میں کھدائی کے دوران مچھلیوں اور درختوں کے فوسل دریافت کیے گئے ہیں جن پر وہ چٹانی اور شیشے کے ذرات موجود ہیں جو آسمان سے برسے تھے۔ ان باقیات کے پانی میں غرقاب ہونے کے بھی ثبوت سامنے آئے ہیں جو کہ شہابِ ثاقب گرنے کے بعد اٹھنے والی دیوقامت لہروں کا نتیجہ ہو سکتے ہیں۔ یہ تحقیق پی این اے ایس جرنل میں شائع کی گئی ہے۔

یونیورسٹی آف کنساس سے تعلق رکھنے والے رابرٹ ڈیپاما اور ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ کھدائی کا مقام تانس نامی جگہ پر ہے اور اس سے ان واقعات کی شاندار جھلک ملتی ہے جو شہابِ ثاقب کے زمین سے ٹکراؤ کے اندازاً دس منٹ سے چند گھنٹوں کے دوران رونما ہوئے ہوں گے۔ان کے مطابق جب 12 کلومیٹر چوڑا شہابیہ اس مقام پر گرا جہاں آج خلیج میکسیکو ہے تو اس سے اربوں ٹن پگھلی ہوئی چٹانیں ہر سمت میں اڑی ہوں گی اور یہ ملبہ ہزاروں کلومیٹر کے فاصلے تک گیا ہو گا۔

تانس کے مقام پر موجود فوسل اس وقت کی نشانی ہے جب یہ ملبہ اچھلنے کے بعد دوبارہ گرا اور اپنی راہ میں آنے والی ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لیتا گیا۔مچھلیوں کے فوسل میں یہ ملبہ ان کے گلپھڑوں میں ملا جو ممکنہ طور پر سانس لینے کے عمل کے دوران ان کے جسم میں آیا ہو گا۔اس کے علاوہ درختوں کے رکاز میں بھی اس ملبے کے ذرات ملے ہیں۔

ارضیاتی کیمیا کے ماہرین نے ان ذرات کا تعلق خلیج میکسیکو میں چکسولب کہے جانے والے مقام سے جوڑا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ یہ ملبہ چھ کروڑ 57 لاکھ 60 ہزار برس قدیم ہے۔ یہ وہی وقت ہے جب شہابِ ثاقب زمین سے ٹکرایا تھا اور اس کے ثبوت دنیا کے دیگر مقامات سے بھی مل چکے ہیں۔

تانس میں جو باقیات دریافت ہوئی ہیں سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ان سے لگتا ہے کہ وہ پانی کی ایک بہت بڑی لہر میں بہہ کر آئی ہیں۔ اگرچہ یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ شہابِ ثاقب ٹکرانے سے ایک بہت بڑی سونامی نے جنم لیا تھا لیکن اس لہر کو خلیج میکسیکو سے شمالی ڈکوٹا پہنچنے میں کئی گھنٹے لگے ہوں گے۔

تاہم محققین کا خیال ہے کہ دس یا گیارہ درجے کے زلزلے سے ملتی جلتی شاک ویو نے اس سونامی کے آنے سے کہیں پہلے علاقے کے سمندر میں تلاطم برپا کیا ہوگا اور یہی پانی بڑی لہر کی شکل میں زمین پر آیا ہو گا۔ یہ لہر اپنے راستے میں آنے والی پر چیز کو بہا کر لے گئی ہو گی اور ان چیزوں کو اس مقام پر جا پھینکا ہوگا جہاں وہ اب دریافت ہوئی ہیں۔ ڈاکٹر ڈیپالما کا کہنا ہے کہ ’زمین پر چڑھ دوڑنے والی لہر نے تازہ پانی کی مچھلیوں، فقاریہ جانوروں، درختوں، شاخوں، تنوں سمیت بہت سی چیزوں کو یہاں تہہ در تہہ بچھا دیا۔‘ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’سونامی کو اس مقام پر پہنچنے میں کم از کم 17 گھنٹے لگے ہوں گے لیکن سیسمک لہریں اور پھر سمندری لہر یہاں چند منٹوں میں ہی پہنچ گئی ہوگی۔‘

پی این اے ایس جرنل کی یہ تحقیق جو آن لائن شائع ہو رہی ہے اس میں اس تحقیق کی مصنف، والٹر آلوارز جو کیلیفورنیا کے ماہر ارضیات ہیں اور جنھوں نے اپنے والد لوئز آلوارز کے ساتھ اس نظریئے پر کام کیا ہے ڈائنوسار کیسے ختم ہوئے کو سراہا گیا ہے۔ ان ارضیاتی ماہرین نے اس بات کی نشاندہی کی کہ زمین کے قدیم جغرافیائی ادوار میں چونے کی تہہ میں اریڈیئم دھات کثرت سے موجود ہے جو شہاب ثاقب اور شہابی پتھروں میں پایا جانے والا جزوی عنصر ہے۔اریڈیئم دھات کے ذرات تانس میں موجود باقیات سے بھی ملے تھے۔

پروفیسر آلوارز کا کہنا ہے کہ ’جب ہم شہاب ثاقب کے زمین پر گرنے سے ڈائنو سارز کے دنیا سے ختم ہونے کے مفروضے کی بات کرتے تھے تو یہ اریڈیئم دھات کی موجودگی کی بنا پر کہتے تھے جو کسی شہاب ثاقب یا دم دار ستارے میں پائی جاتی ہے۔ تب سے ہم اس کے ثبوت بتدریج اکھٹے کر رہے تھے لیکن مجھے کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ ہم اس طرح کی جگہ تک رسائی حاصل کر سکیں گے جہاں اس وقت کے جانوروں کے فوسل بڑی تعداد میں موجود ہوں۔‘

یونیورسٹی آف مانچسٹر سے تعلق رکھنے والے فل ماننگ نے، جو اس تحقیقی مقالے میں واحد برطانوی مصنف ہیں، بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ دنیا کی اہم جگہوں میں سے ایک جگہ ہے، آپ جانتے ہیں کہ اگر آپ کو ڈائنوسارز کے دنیا میں آخری دن کے بارے میں واقعی جاننا ہے تو اس کے لیے یہ ہی جگہ ہے۔‘

چکزولوب کا آتش فشائی عمل

ایک 12 کلومیٹر چوڑے پتھر نے 100 کلومیٹر تک زمین پر گڑھا بنا دیا جو 30 کلومیٹر گہرا ہے۔

یہ گڑھا پھر منہدم ہوگیا اور آتش فشاں کے دہانے کو 200 کلومیٹر تک پھیلایا اور چند کلومیٹر گہرائی تک محدود کیا۔

آج اس آتش فشاں کا زیادہ تر حصہ ساحل میں 600 میٹر زمین کی تہہ میں دفن ہو گیا ہے۔

زمین پر اس کو چونے کی چٹانوں نے ڈھانپ لیا ہے۔

سائنسدانوں نے حال ہی میں یہاں کھدائی کی ہے تاکہ وہ اس آتش فشاں کی ساخت اور اس کے بننے کی وجوہات جان سکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔