احسن اقبال بھُولے ہیں نہ ہم

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 3 مئ 2019
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

سابق وزیر داخلہ اور نارووال حلقے سے ممتاز نون لیگی رکنِ قومی اسمبلی جناب احسن اقبال نے ایک موبائل میسج یوں بھیجا ہے: ’’برادرِ محترم، مئی 6کو مجھ پر قاتلانہ حملہ کو ایک سال ہو جائے گا۔اس موقع پر مَیں سوچ رہا ہُوں کہ نارووال میں ایک قومی سیمینار Countering Violent Extremismپر منعقد کروں جس میں قومی قائدین اور ماہرین کو مدعو کیا جا سکتا ہے۔مَیں یہ بھی سوچتا ہُوں کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے جو نئی زندگی عطا کی ہے، وہ ایک خاص انعام ہے۔ اس کا شکر ادا کرنے کے لیے مجھے کسی کارِ خیر میں حصہ لینا چاہیے ۔

مثال کے طور پر یتیم اور نادار بچوں کا بورڈنگ اسکول یا کچھ اور بھی ہو سکتا ہے ۔ میری اس حوالے سے رہنمائی فرمائیے ۔‘‘ شنید ہے اب وہ International Islamic Institute for Peace نامی ادارے کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔احسن اقبال صاحب نے ایک لرزہ خیز سانحہ کی یاد دلا دی ہے۔ پچھلے سال اِسی ماہ کی چھ تاریخ کو اُن پر قاتلانہ حملہ ہُوا تھا ۔ حملہ آور کی گولی اُن کا بازو چیرتی ہُوئی نکل گئی تھی۔ اس واقعہ کی باز گشت سارے ملک میں سنائی دی گئی تھی ۔ احسن اقبال کو اللہ کریم نے محفوظ رکھا تھا۔ بازو شدید زخمی ہُوا لیکن زندگی محفوظ رہی تھی ۔ اس سانحہ کو نہ وہ بھولے ہیں ، نہ قوم بھُولی ہے اور نہ احسن اقبال کے انتخابی حلقے (نارووال) کے وہ عوام جنھوں نے انھیں محبت سے بار بار منتخب کرکے اقتدار کے ایوانوں میں بھیجا ہے۔اُن پر حملہ آور اب عدالت سے سزا پاچکے ہیں۔

اس قاتلانہ حملے سے ڈھائی ماہ قبل بھی احسن اقبال کو ایک صدمے سے گزرنا پڑا تھا۔ یہ سانحہ بھی وہ فراموش نہیں کر پائے ہیں۔ انتخابات کا طبل بج چکا تھا اوریوں لگتا تھا جیسے کچھ قوتیں انھیں اپنے راستے سے ہٹانے کے درپے ہو چکی ہیں ۔24 فروری2018 کو جناب احسن اقبال کے ساتھ جو افسوسناک واقعہ پیش آیا، اُس نے ہر شخص کو پریشان کر دیاتھا۔ اُس روز نارووال میں احسن اقبال صاحب کا ورکرز کنونشن تھا۔ اُن کی قیادت میں یہ کنونشن نارووال شہر سے متصل ایک مشہور قصبے، جسّڑ، میں ہورہا تھا (اس قصبے کے ساتھ ہی ’’کالا قادر‘‘ نامی وہ گاؤں آباد ہے جہاں ہمارے عہد کے مشہورترین شاعر جناب فیض احمد فیضؔ پیدا ہُوئے تھے) شام سات بجے کے قریب احسن اقبال نون لیگ کے پُر جوش کارکنوںسے خطاب کررہے تھے۔

تقریر تقریباً ختم ہو چکی تھی کہ اچانک سامعین میں سے کسی نے اُن کی جانب جوتا اچھال دیا۔ جوتا وزیر داخلہ کے بازو کو چھُوتا ہُوا گزر گیا۔ جذبات میں بپھرے لوگوں نے جوتا پھینکنے والے نوجوان کو پکڑ لیا۔ اُس کی پٹائی بھی کی ہوگی لیکن موقع پر موجود بھاری پولیس نے اُسے حراست میں لے لیا۔ وہ ایک سیاسی پارٹی کا مقامی کارکن تھا۔اِس ہنگامے میں احسن اقبال پُرسکون رہے۔ وہ اسٹیج سے نیچے اُترے ، بیہودہ حرکت کرنے والے کے پاس گئے اور مسکراتے ہُوئے کہا : ’’اِسے چھوڑ دیں۔ مَیں اسے معاف کرتا ہُوں۔‘‘ انھوں نے پولیس کو یہ بھی ہدایت کی کہ نوجوان کے خلاف کوئی کیس بھی درج نہ کیا جائے۔ یقینا اللہ بھی خطاؤں کو معاف کرنے والوں کو اپنا دوست رکھتا ہے۔احسن اقبال کے صابرانہ اور شریفانہ کردار نے ایک مثبت مثال قائم کی تھی۔

جوتا اچھالنے کی اِس گندی حرکت کے بعدجناب احسن اقبال نے فوری طور پر یہ ٹویٹ کی تھی : ’’ یہ مخالفین کی شرارت تھی مگر تقریب پُرسکون جاری رہی۔ کوئی رخنہ نہیں پڑا۔مَیں نے بھی تقریر مکمل کرلی تھی۔‘‘ جوتا اچھالنے والے کے اس اقدام کی سب نے مذمت کی تھی ۔ پی ٹی آئی کے اندر بھی اسے ناپسند کیا گیا۔ پی ٹی آئی کے معروف سیاستدان جناب علی محمد خان نے اِسی پس منظر میں ملزم کی مذمت کرتے ہُوئے یوں ٹویٹ کیاتھا:’’ احسن اقبال کے ساتھ نارووال میں جوتا پھینکنے والے واقعہ کی شدید مذمت کرتا ہُوں۔ اگر جرم ثابت ہوجائے تو بے شک ملزم کو سزا دیں۔ سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن کسی کو کسی کی بے عزتی کا کوئی حق نہیں۔ یہ کوئی مناسب روایت نہیں۔ نہ ہی ہمارا مذہب اور نہ ہی ہماری تہذیب اور کلچر اس کی اجازت دیتا ہے۔‘‘

احسن اقبال فیوڈل لارڈ ہیں نہ جاگیردارانہ ذہنیت رکھتے ہیں۔اس لیے ملزم کو کھلے دل سے معاف کردیا تھا۔اگر متعصب اور منتقم ذہنیت رکھنے والا کوئی مقتدر سیاستدان ہوتاتو ملزم کے ساتھ جو ممکنہ سلوک ہو سکتاتھا،ہم سب اس کا تصور کرسکتے ہیں۔ ایشو مگر یہ تھا کہ احسن اقبال ایسے نیک خُو سیاستدان اور وزیر کے ہوتے ہُوئے نارووال کے شہریوں میں سے کسی ایک شہری نے اس حرکت کا ارتکاب کیوں کیا تھا؟احسن اقبال نے تو اپنے شہر اور حلقے میں ریکارڈ ترقیاتی کام کروائے تھے۔

نئی ملازمتوں کے نئے دروازے کھولے۔ نئے کالج، نئی یونیورسٹی، نیا بڑا اسپتال، نیا اسپورٹس اسٹیڈیم، نیا اور جدید ریلوے اسٹیشن ، نئے گیس کنکشنز، نئی گلیاںاور نئی سڑکیں تعمیر کرکے اپنے شہریوں کے حوالے کر دی تھیں۔ اس بارے میں اپنوں اور غیروں کی کوئی تخصیص برتی نہ کوئی امتیا ز روا رکھا تھا۔ نارووال کے مستحق طلبا میںمفت لیپ ٹاپ بھی تقسیم کیے۔ پھر اُن سے ناراضی اور غصہ کیوں تھا؟ یہ درحقیقت انھیں دھمکانے اور انتخابی میدان سے بھگانے کی ایک حکمت تھی لیکن ان گندے ہتھکنڈوں کے باوجود وہ پی ٹی آئی کے اُمیدوار کے مقابلے میں بھاری اکثریت سے جیتے۔

احسن اقبال پر نارووال میں جوتا اچھالنے کے تقریباً دو ہفتے بعد، 11مارچ2018 کو وزیر خارجہ خواجہ آصف کے منہ پر بھی کسی نے کالی سیاہی پھینک دی تھی۔ وہ سیالکوٹ میں اپنے حلقے میں نون لیگ کے ورکرزکنونشن سے خطاب کررہے تھے کہ اچانک ایک نوجوان نے پیچھے سے آکر اُن کے چہرے پر سیاہی پھینک دی۔ لوگوں نے اُسے پکڑ لیا تھا اور زدو کوب بھی کیا لیکن خواجہ صاحب نے کہا :’’اسے چھوڑ دو۔اِس بیچارے کو کسی نے کچھ پیسے دیے ہوں گے اور اس نے یہ کام کر دکھایا لیکن میری اس سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔ اس وقت جب اس نے مجھ پر سیاہی پھینکی ہے، میرے حلقے میں لاتعداد لوگ ایسے ہیں جو میرے لیے دعا کررہے ہیں۔اس کے عمل سے میری سیاست کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔‘‘ پولیس نے خواجہ آصف صاحب کے کہنے پر ملزم کو چھوڑ دیا تھا۔واضح رہے کہ ضلع نارووال اور ضلع سیالکوٹ میں پی ٹی آئی مکمل انتخابی شکست کھا گئی تھی ۔

عجب لہر چل پڑی تھی ۔جناب نواز شریف کی طرف بھی جوتا اچھال دیا گیا تھا لیکن ضبط اور صبر دیکھیے کہ نواز شریف کی زبان سے حملہ آور کے خلاف ایک لفظ تک ادا نہ ہُوا۔ وہ پریشان تو یقیناً ہُوئے لیکن صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ ٹی وی پر یہ منظر دیکھ کر ہر شخص ششدر رہ گیا تھا۔ تین بار وزیر اعظم رہنے والے شخص کے ساتھ ایسا گھناؤنا اور گھٹیا سلوک کیا گیا تھا۔ دُنیا ہم پر ہنسی ۔ گڑھی شاہو (لاہور)کے ایک معروف دینی مدرسے کی حدود میں جناب نواز شریف سے یہ بدتمیزی کی گئی تو بہت سے دل بہت دلگرفتہ ہُوئے تھے ۔حملے کے بعد جناب نواز شریف نے بجا کہا تھا کہ یہ وہ مدرسہ ہے جہاں ہمارے خاندان کے درجنوں افراد نے قرآن شریف کی تعلیم حاصل کی اور وہ بھی مفتی محمد حسین نعیمی صاحب علیہ رحمہ کے قدموں میں بیٹھ کر۔میاں نواز شریف صاحب نے حملے کے بعد بھی بیہودہ حرکت کرنے والے کے بارے شکوے میں ایک لفظ بھی ادا نہ کیا تھا۔

شدت پسندی کی ہر شکل وطنِ عزیز کے لیے نقصان دِہ ہے ۔جلد یا بدیر اس کا احساس ضرور جاگتا ہے ۔ لاہور اور اسلام آباد میں جن شدت پسندوں نے اپنے دھرنوں میںہمارے اداروںکے خلاف سخت اور قابلِ گرفت زبان استعمال کی تھی ، اُن کے لیڈر بھی اب ویڈیو پیغامات کے ذریعے تائب ہو رہے ہیں۔ یہ احساس پہلے کرلیا جاتا تو ملک وقوم کو بھاری نقصان نہ اُٹھانا پڑتا۔ ان کی وجہ سے بھی شائد پاکستان کو ایف اے ٹی ایف میں سختیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ہمارے مٹھی بھر شدت پسندوں کی وجہ سے مطلب پرست عالمی برادری نے ہمارے خلاف ایکا کرلیا ہے۔ خدا کرے شدت پسندی کے یہ مظاہر ہمارے ہاں دوبارہ کبھی سر نہ اُٹھائیں۔یہ بھی دعا ہے کہ احسن اقبال صاحب قیامِ امن کے لیے جس انسٹی ٹیوٹ کی اساس رکھنے جارہے ہیں،اللہ کریم اُس میں برکت عطا فرمائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔