ہمیں اندرونی اسباب کا حل ڈھونڈنا ہوگا

نصرت جاوید  جمعرات 22 اگست 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

اپنی جماعت میں موجود بڑے نام والے سرداروں کی طرف سے شدید مزاحمت کے باوجود نواز شریف نے جب ڈاکٹر مالک کو بلوچستان کا وزیر اعلیٰ بنانے کا فیصلہ کیا تو بہت سارے صحافیوں کی طرح میں بھی بہت خوش ہوا۔ اُمید بنی کہ پاکستان سے ناراض ہوئے بلوچ تربت کے اس فرزند کے انتخاب میں چھپے پیغام کا خیر مقدم کریں گے۔ مذاکرات کے ذریعے زخموں کو مندمل کرنے کے راستے بنیں گے اور ہم دُنیا کو بتا سکیں گے کہ اگر ارادہ نیک ہو تو ریاستیں وحشیانہ طاقت کے استعمال کے بغیر بھی اپنے سے ناراض ہوئے عناصر کو آئین اور جمہوریت کے طے شدہ اصولوں پر عمل کے ذریعے اپنے قریب لاسکتی ہیں۔

چند دنوں سے مگر بلوچستان کے حوالے سے مسلسل ایسی خبریں آ رہی ہیں جو واضح طور پر یہ بتا رہی ہیں کہ معاملہ اتنا سادہ نہیں جتنا میں تصور کیے بیٹھا تھا۔ ڈاکٹر مالک کے وزیر اعلیٰ بن جانے پر میرے جیسے لوگ تو بہت شاداں ہیں مگر جن عناصر تک پہنچنے کے لیے ان کا انتخاب کیا گیا تھا وہ اس ’’علامتی چالبازی‘‘ کی وجہ سے پہلے سے کہیں زیادہ چراغ پا ہیں۔ ان کے غصے کو برحق ٹھہرانے کے لیے کسی نہ کسی جگہ سے اچانک گم شدہ نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہو جاتی ہیں۔ یہ وہ نوجوان ہیں جن کی تلاش میں ہمارا بہت ہی آزاد اور بڑا طاقتور مانے جانے والا سپریم کورٹ بھی گزشتہ کئی مہینوں سے بے چینی کے ساتھ متحرک رہا ہے۔

ہمارے ہر وقت چیختے چنگھاڑتے اور سکندر جیسے جنونی افراد کے رچائے ڈراموں کو لائیو کیمروں کے ذریعے دکھانے والا میڈیا بلوچستان کے بارے میں کافی بے حس رہا ہے۔ بلوچی زبان بولنے والے اشیائے صرف کا کوئی بہت بڑا Chunk نہیں بناتے جس کی توجہ حاصل کرنے کے لیے کاروباری اداروں کو اشتہار بازی کرنا ہوتی ہے۔ بلوچستان کے مسائل کا سنجیدگی سے جائزہ لینے کی کوشش ہو تو Ratings نہیں آتی۔ کئی اینکر دل سے چاہتے ہوئے بھی بلوچستان کو نظرانداز کرتے ہوئے ’’چسکے دار‘‘ موضوعات پر توجہ دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ میڈیا کی لاتعلقی سے وہ ساری قوتیں بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہیں جنھیں مسائل کا حل نہیں اپنے اپنے مخالفین کو طاقت کے بے دریغ استعمال کے ذریعے نیچا دکھانا مقصود ہے۔ ڈاکٹر مالک ان تمام قوتوں کے سامنے قطعی بے بس نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ کسی وقت بھی اپنی شکست مان کر میدان چھوڑ سکتے ہیں۔ انھیں شاید روکا ہوا ہے تو وزیر اعظم نواز شریف کی نیک نیتی نے جو اب چند دنوں سے اپنی پوری توجہ دہشت گردی کے عذاب کو ریاست کے دوسرے اداروں کے ساتھ طویل بات چیت اور غور و خوض کے بعد پوری طرح سمجھ کر حل کرنا چاہ رہے ہیں۔

دہشت گردی کے سدباب کے لیے کسی ٹھوس پالیسی کا بطور رپورٹر میں بھی کئی دنوں سے انتظار کر رہا ہوں۔ بہت سارے مستند ذرایع سے مگر ٹھوس اشارے مل رہے ہیں جو اس امر کا پتہ دیتے ہیں کہ 11 مئی 2013ء کو منتخب ہونے والی سیاسی قیادت اور پاکستانی ریاست کے چند دائمی اداروں کی سوچ بہت سارے معاملات کے بارے میں ایک دوسرے سے قطعاً کوئی واسطہ نہیں رکھتی۔ میں تفصیلات میں اُلجھ کر مسائل کو مزید گمبھیر نہیں بنانا چاہتا۔ مگر چوہدری نثار علی خان کے اس بیان پر آپ کی توجہ ضرور چاہتا ہوں جس کے ذریعے انھوں نے قومی اسمبلی کو مطلع کیا ہے کہ دہشت گردی کے مسئلے کو دو حوالوں سے دیکھا جا رہا ہے۔ مقامی اور بیرونی۔ سادہ الفاظ میں ان کا خیال تھا ایک دہشت گردی خالصتاً اندرونی نوعیت کی ہے جس کا تدارک وہ اپنے ماتحت اداروں کو چوکس اور متحرک کرنے کی بدولت کر سکتے ہیں۔ دہشت گردی کی دوسری قسم کا تعلق پاکستان کی خارجہ پالیسی سے ہے جسے بنانے میں قومی سلامتی سے متعلق اداروں کی ایک ٹھوس رائے بھی طلب کی جاتی ہے۔ اس دہشت گردی کا علاج چوہدری نثار علی خان نہیں وزیراعظم کے قومی سلامتی کے امور کے بارے میں بنائے گئے مشیر سرتاج عزیز ڈھونڈ رہے ہیں۔

سچی بات ہے ایک عام شہری کی حیثیت میں جسے ریاست اور اس کی سلامتی کے متعلق امور کی بابت کوئی زیادہ علم نہیں چوہدری نثار علی خان کی بتائی یہ تفریق مجھے بہت عجیب لگی۔ اس سے کہیں زیادہ دھڑکا اس بات کا لگا کہ کہیں بلوچستان کو بھی ’’بیرونی‘‘ والے خانے میں نہ ڈال دیا جائے۔ اپنے اس خدشے کی وضاحت کے لیے ضروری ہے کہ میں آپ کو ہمارے ٹیلی وژن اسکرینوں پر اپنے تئیں قومی سلامتی کے امور کے ماہر بنے ان کلاکاروں کے ارشادات یاد دلائوں جن کے ذریعے ہمیں مسلسل یہ سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ بلوچستان میں کوئی ناراضگی سرے سے موجود ہی نہیں۔ ہمارا ایک ازلی دشمن بھارت ہے۔ اس کے جاسوسی ادارے ہیں۔ انھوں نے چند گمراہ نوجوانوں کو بہکا کر خرید لیا ہے۔ یہ نوجوان اب پاکستان کے ریاستی اداروں کو بلوچستان میں تباہ و ناکام ہوتے دکھانا چاہ رہے ہیں۔

میں بھارت کے ساتھ اچھے ہمسائیوں والے تعلقات قائم کرنے کا دل سے حامی ہوں۔ اس خواہش کے باوجود ہرگز اتنا سادہ نہیں کہ یہ باور کر بیٹھوں کہ ہمارے اتنے بڑے ہمسایے کے جسے اب عالمی طور پر ایک بڑی طاقت منوائے جانے کا شوق بھی شدت سے لاحق ہو رہا ہے اپنے مفادات کے حصول کے لیے ہماری مشکلات میں بڑے دل کے ساتھ اضافہ نہیں کرنا چاہ رہا ہو گا۔ بھارت کے جاسوسی ادارے بھی اس ضمن میں اپنا روایتی کردار بڑے جنون کے ساتھ ادا کر رہے ہوں گے۔ اس سب کے باوجود بلوچستان کے حوالے سے اپنی ساری مشکلات کو بھارت کے کھاتے میں ڈال دینا بھی تو مسئلے کا کوئی حل نہیں۔ جب بھی کسی خطے میں موجود افراد کے نسلی اور ثقافتی بنیادوں پر قائم گروہ اپنی ریاست سے ناراض ہوتے ہیں تو اس کی وجوہات بنیادی طور پر ’’اندرونی‘‘ہوتی ہیں۔ بیرونی عناصر ان ’’اندرونی‘‘ اسباب کی بنیاد پر اپنے کھیل کا آغاز کرتے ہیں۔ ہمیں از خود آگے بڑھ کر پہلے ’’اندرونی‘‘ اسباب کا حل ڈھونڈنا ہو گا اور یہ کام صرف جمہوری طور پر منتخب حکمران ہی کر سکتے ہیں۔ کسی دوسرے کے بس کی بات ہی نہیں۔ پہلے اپنا کام کیجیے پھر دوسروں کو دوش دیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔