- گیلپ پاکستان سروے، 84 فیصد عوام ٹیکس دینے کے حامی
- ایکسپورٹ فیسیلی ٹیشن اسکیم کے غلط استعمال پر 10کروڑ روپے جرمانہ
- معیشت2047 تک 3 ٹریلین ڈالر تک بڑھنے کی صلاحیت رکھتی ہے، وزیر خزانہ
- پٹرولیم ایکسپلوریشن اینڈ پروڈکشن کمپنیوں نے سبسڈی مانگ لی
- پاکستان کی سعودی سرمایہ کاروں کو 14 سے 50 فیصد تک منافع کی یقین دہانی
- مشرق وسطیٰ کی بگڑتی صورتحال، عالمی منڈی میں خام تیل 3 ڈالر بیرل تک مہنگا
- انٹرنیشنل کرکٹ میں واپسی پر محمد عامر کے ڈیبیو جیسے احساسات
- کُتا دُم کیوں ہلاتا ہے؟ سائنسدانوں کے نزدیک اب بھی ایک معمہ
- بھیڑوں میں آپس کی لڑائی روکنے کیلئے انوکھا طریقہ متعارف
- خواتین کو پیش آنے والے ماہواری کے عمومی مسائل، وجوہات اور علاج
- وزیر خزانہ کی چینی ہم منصب سے ملاقات، سی پیک کے دوسرے مرحلے میں تیزی لانے پر اتفاق
- پولیس سرپرستی میں اسمگلنگ کی کوشش؛ سندھ کے سابق وزیر کی گاڑی سے اسلحہ برآمد
- ساحل پر گم ہوجانے والی ہیرے کی انگوٹھی معجزانہ طور پر مل گئی
- آئی ایم ایف بورڈ کا شیڈول جاری، پاکستان کا اقتصادی جائزہ شامل نہیں
- رشتہ سے انکار پر تیزاب پھینک کر قتل کرنے کے ملزم کو عمر قید کی سزا
- کراچی؛ دو بچے تالاب میں ڈوب کر جاں بحق
- ججوں کے خط کا معاملہ، اسلام آباد ہائیکورٹ نے تمام ججوں سے تجاویز طلب کرلیں
- خیبرپختونخوا میں بارشوں سے 36 افراد جاں بحق، 46 زخمی ہوئے، پی ڈی ایم اے
- انٹربینک میں ڈالر کی قدر میں تنزلی، اوپن مارکیٹ میں معمولی اضافہ
- سونے کے نرخ بڑھنے کا سلسلہ جاری، بدستور بلند ترین سطح پر
’خواب آور کہانیاں‘ سنیے اور نیند کی آغوش میں چلے جائیں
کیلیفورنیا: اگر آپ بے خوابی کے شکار ہیں تو کرس ایڈوانسن کی کہانیاں آپ کو نیند کی آغوش تک لے جاتی ہیں ان کی کہانی کے اختتام سے پہلے ہی اکثر افراد آنکھیں موند لیتے ہیں۔
39 سالہ کِرس پیشے کے لحاظ سے اسکرین رائٹر بھی ہیں۔ انہوں نے ایسی کہانیاں لکھنا شروع کی ہیں جو بالغ افراد کو ان کی فکروں سے آزاد کرتی ہیں اور انہیں نیند کی جانب راغب کرتی ہیں۔ اپنی کہانیوں میں وہ کوشش کرتے ہیں کہ انہیں سننے والا کہانی میں ملوث نہ ہوجائے لیکن وہ اسے دلچسپ ضرور بناتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ لوگ ان کی کہانیوں کے اختتام تک نہ جائیں بلکہ اس سے پہلے وہ نیند کی آغوش میں کھوجائیں۔
کِرس کہتے ہیں کہ آج کی تیزرفتار زندگی نے ہمیں فکرمند بنادیا ہے۔ دماغ چلتا رہتا ہے اور اس ہنگامہ خیز زندگی کی فکریں نمودار ہوتی رہتی ہیں، ہم تکئے پر سر دھرے پریشان ہوتے رہتے ہیں اور سونا محال ہوجاتا ہے۔
اگرچہ بعض افراد نے ان کی کہانیوں کو اکتاہٹ سے بھرپور قرار دیا ہے لیکن کِرس کا اصرار ہے کہ وہ لوگوں کو ہیجان میں مبتلا نہیں کرنا چاہتے بلکہ ان کے کردار عموماً ایک طویل سفر پر نکلتے ہیں جس میں کئی موڑ آتے ہیں۔ آخر میں جب کہانی سمٹتی ہے تو سننے والا نیند کی آغوش میں چلاجاتا ہے۔
کِرس نے کہا ’میری کہانیوں میں کوئی تنازعہ نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک روایتی کہانی ہوتی ہے جس میں ڈرامہ پیش کیا جاتا ہے، اسی بنا پر نیند لانے والی کہانیوں کا انداز قدرے مختلف رکھا جاتا ہے۔‘
یہ کہانیاں ایک ویب سائٹ calm.com پر موجود ہیں جنہیں دنیا کے مشہور فن کاروں نے پڑھا ہے۔ اب تک 120 کہانیوں کو 10 کروڑ افراد سن چکے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔