جہاں بھونچال بنیادِ فصیل ودر میں رہتے ہیں

سید بابر علی  اتوار 5 مئ 2019
ممکنہ حادثے سے بچنے اور تاریخی عمارات کی بحالی کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ فوٹو:فائل

ممکنہ حادثے سے بچنے اور تاریخی عمارات کی بحالی کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ فوٹو:فائل

برسات کا موسم ہر فرد کے دلی جذبات کی ترجمانی کرتا ہے، ساون کی جھڑی جہاں ٹوٹے دلوں کی ترجمانی کرتی ہے تو کہیں یہ کسی کو خوشی سے سرشار بھی کردیتی ہے۔

زمین پر گرتی بوندوں کی ٹپ ٹپ، کالی گھٹائیں اور آسمان پر بجلی کے کڑکنے کو شعرا زمانہ قدیم سے ہی اپنی شاعری میں استعارے و تشبیہات کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں۔ یہی بارش جب صوتی، بصری اور ہوائی آلودگی سے لبریز شہر قائد میں برستی ہے تو پھر شہر واسیوں کے لیے رحمت کے بجائے زحمت بن جاتی ہے۔

مرکزی شاہراہیں دریا اور ذیلی سڑکیں تالاب کی شکل اختیار کرلیتی ہیں، بارش کا پہلا قطرہ گرتے ہی کے الیکٹرک ’بصری‘ آلودگی کم کرنے کے لیے بجلی منقطع کردیتی ہے، تا کہ شہری مصنوعی روشنیوں کے بجائے آسمان پر کڑکتی بجلی کی چکاچوند سے فطری ماحول میں لطف اندوز ہوسکیں۔ یہ بات اگر یہیں تک محدود رہے تب بھی شہری برسات سے محظوظ ہو ہی جاتے ہیں، لیکن بارش شہر قائد کے مختلف علاقوں خصوصاً اولڈ ایریا میں رہنے والوں کے لیے بعض اوقات موت کا سامان بن جاتی ہے، برستی بارش ان کے تمام سپنوں کو پامال کردیتی ہے، اسی برسات میں کبھی کوئی عورت سہاگن سے چند ہی لمحوں میں بیوہ ہوجاتی ہے تو کسی باپ کے کاندھے جوان بیٹے کی لاش کے بوجھ سے جھکے جاتے ہیں۔

لیکن ان پر ٹوٹنے والی قیامت کسی نیوز چینل کی سرخ پٹی پر نظر آتی ہے اور نہ ہی کسی اخبار کے صفحہ اول پر۔ گذشتہ کئی دہائیوں سے بدترین قتل و غارت گری کا سامنا کرنے والے اس شہر میں کسی حادثے میں ایک یا دو لوگوں کی ہلاکت کی خبر ، خبر نہیں ہوتی، ٹی وی اسکرین پر نیوز چینل پر چلنے والی سُرخ پٹیاں ’بریکنگ نیوز‘ تو دے رہی ہوتی ہیں، لیکن ان میں برسات میں اپنے مال و متاع، اپنی پوری کائنات لٹادینے والوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔ یہ شہر قائد میں تقریباً ہر موسم برسات میں ہونے والا المیہ ہے۔

اگر ہلاکتوں کی تعداد بڑھ جائے تو پھر ان مظلوموں کے ساتھ ’اظہار تعزیت، کے نام پر سیاسی بیانات کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، زخموں پر نمک چھڑکنے کے لیے صحافتی اخلاقیات سے نابلد موسمی رپورٹروں کا جم غفیر متاثرہ فرد کے پاس پہنچ کر ’سب سے پہلے ہم نے خبر بریک کی‘ کے چکر میں بچ جانے والوں کے زخموں کو کرید کرید کر انسانیت کا جنازہ نکال دیتا ہے۔ صحافتی بے حسی اور سیاسی راہ نماؤں کے رٹے رٹائے بیانات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، شہر قائد کو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں صف اول لانے کے بلند و بانگ دعوے کیے جاتے ہیں، متعلقہ اداروں کے افسران کو ’بے پرواہی ‘ کے الزام میں عہدوں سے ہٹا دیا جاتا ہے۔

لیکن حکومتی بے حسی،بے پرواہی اور مخالفین پر الزام تراشیوں کے علاوہ عملی طور پر کچھ نہیں کیا جاتا۔ ماسوائے ایسے ہی ایک اور سانحے کے دوبارہ رونما ہونے کے۔ یہ المیہ کراچی کی مخدوش قرار دی گئی عمارتوں میں رہنے والوں کا ہے، جن کے پاس زندگی اور موت کی اس ایک باریک سی لکیر پر رہنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں، جن سے ہر سانحے کے بعد متعلقہ اداروں کی جانب سے متبادل رہائش فراہم کرنے کے جھوٹے وعدے کیے جاتے ہیں۔ اور ان کی موت کا سامان صرف بارش ہی پیدا نہیں کرتی بلکہ یہ ہر وقت موت و زندگی کی کشمکش میں رہتے ہیں۔ دور پرے گلی کے نکڑ پر کسی مکان کی تعمیر کے لیے ہونے والی کھدائی بھی ان کے دل دہلا دیتی ہے، اس کے باوجود ان کے پاس روز جینے اور روز مرنے کی آس کے سوا کچھ نہیں۔ گذشتہ سال کراچی کے علاقے لیاقت آباد نمبر نو میں ایک مخدوش قرار دی گئی عمارت گرنے سے تیرہ سالہ بچے سمیت پانچ افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔ شہر قائد میں آج بھی ایسی سیکڑوں عمارتیں ہیں جنہیں کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی جانب سے مخدوش قرار دے کر مالکان کو عمارت خالی کرنے کے نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔

ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کرنے والے کراچی خصوصاً اولڈ ایریا میں کچھ عمارتیں تو اپنی صد سالہ سال گرہ بھی منا چکی ہیں۔ اپنی میعاد پوری کردینے والی ان عمارتوں میں ابھی بھی لوگ رہائش پذیر ہیں۔ بارش، آندھی یا زیادہ شدت کا زلزلہ چند ہی لمحوں میں ان عمارتوں کو زمین بوس کر سکتا ہے، لیکن بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نہ ہی ان مخدوش عمارتوں کو خالی کرواسکی ہے اور نہ ہی ان کے رہائشیوں کے رہنے کے لیے کوئی متبادل جگہ فراہم کی گئی ہے۔

نہ ہی متعلقہ اداروں کی جانب سے اس ضمن میں سنجیدگی سے کسی قسم کے عملی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ گذشتہ سال عمارت گرنے سے پانچ قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کے بعد رسمی کارروائی کے طور پر سخت ایکشن لینے، متبادل رہائش فراہم کرنے کے دعوے تو کیے گئے ، لیکن وہ دعوے محض دعوے کی حد تک ہی محدود رہے۔ گذشتہ سال لیاقت آباد میں ہونے والے سانحے کے بعد سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹٰی کراچی کے قائم مقام ڈائریکٹرجنرل ممتاز حیدر نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ شہر بھر کی مخدوش قراردی گئی عمارتیں اس قدر خستہ حال ہوچکی ہیں کہ زلزلے کا ایک معمول جھٹکا بھی انہیں زمین بوس کرکے کسی سانحے کو جنم دے سکتا ہے۔ واضح رہے کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی جانب سے مخدوش قرار دی گئی عمارتوں میں رہنے والوں کو اس خطرے کا ادراک کروانے کے لیے ٹیلی ویژن، اخبارات اور نوٹسز کے ذریعے آگاہ کیا جاتا رہا ہے۔

سندھ بلڈنگ کنٹرو ل اتھارٹی کے اعدادوشمار کے مطابق شہر قائد کے مختلف علاقوں میں واقع 316عمارتوں کو مخدوش قرار دیا گیا ہے، جن میں سے 224 عمارتیں صرف صدر ٹاؤن میں ہیں، جن میں اولڈ ٹاؤن کوارٹر میں پندرہ عمارتیں، سول لائنز کوارٹر میں ایک اور برنس روڈ کوارٹرز میں چھے عمارتیں شامل ہیں، جب کہ اسی ٹاؤن میں پلاٹ نمبر چھے پر واقع شاہانی بلڈنگ کو بھی قومی ورثہ قرار دیا گیا ہے۔ دھومل اودھو رام کوارٹرز میں چار عمارتیں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی مخدوش عمارتوں کی فہرست میں شامل ہیں، جن میں دو عمارتیں جہانگیر کوٹھاری بلڈنگ اور جہانگیر مینشن قومی ورثہ قرار دی گئیں ہیں۔ صدر ٹاؤن میں ہی واقع مارکیٹ کوارٹرز میں اکیس عمارتیں نہایت مخدوش ہوچکی ہیں۔ غلام حسین قاسم کوارٹر کی حدود میں بارہ عمارتیں مخدوش ہوچکی ہیں، جن میں سے دو عمارتوں پانا چند بلڈنگ اور بمبئی بازار کو ہیریٹیج میں شامل کیا گیا ہے۔ نیپیئر کوارٹر ز کی حدود میں سترہ عمارتیں مخدوش عمارتوں کے زمرے میں شامل ہیں۔

جن میں سے پلاٹ نمبر45پر واقع لشمنداس ریشُنوالا کو قومی ورثے کا درجہ دیا گیا ہے۔ رنچھوڑ لائن کے علاقے میں اٹھائیس عمارتیں، ایچ وی کوارٹرز میں چھے، پریڈی کی حدود میں چھے، رام سوامی کی حدود میں 14، لارنس کوارٹر میں تیس، تلہ رام کوارٹر کی حدود میں سات عمارتیں مخدوش ہوچکی ہیں۔ صدر ٹاؤن کے علاقے میں ہی واقع سرائے کوارٹر کی نو مخدوش عمارتوں میں سے دو عمارتوں کو ہیریٹیج کے زمر ے میں شمار کیا گیا ہے۔ لیاری میں دو عمارتیں اور رام باغ میں بارہ عمارتیں مخدوش ہوچکی ہیں ، جن میں سے اولڈ شاہانی بلڈنگ، مل والا مارکیٹ، سیفی الیکٹرک ٹریڈنگ اینڈ کو، سمیع چیمبر، دوست منزل اور بھوجاج بلڈنگ کو قومی ورثے میں شامل کیا گیا ہے۔ پریڈی کوارٹر کی پانچ مخدوش عمارتوں میں سے دو عمارتوں، پہلے رست اور جیہا بلڈنگ کو ہیریٹیج کے زمرے میں رکھا گیا ہے۔

کوئن کوارٹر کی حدود میں واقع احمد حمانی ہاؤس کو بھی ہیریٹیج میں شامل کر لیا گیا ہے۔ صدر بازار کوارٹر میں واقع اکیس عمارتیں مخدوش ہوچکی ہے، جن میں سے کیپٹن ہاؤس، ناجوئے بلڈنگ، حسن علی بلڈنگ، رینبو ہاؤس، کانجی واستی بلڈنگ، نبی منزل، یونائیٹڈ بینک بلڈنگ اور ایمپریس مارکیٹ کو قومی ورثے کا درجہ دیا گیا ہے۔ ریلوے کوارٹر میں دو، آرٹلری میدان میں چار اور کے ڈی اے اسکیم 5کلفٹن کے علاقے میں ایک عمارت کو مخدوش قرار دیا گیا ہے۔ جمشید ٹاؤن کے علاقے گارڈن میں آٹھ اور سولجر بازار میں دو عمارتیں، کیماڑی ٹاؤن میں تین، لیاری میں بیس، ملیر ٹاؤن میں دو، شاہ فیصل ٹاؤن میں دو، لیاقت آباد ٹاؤن میں اٹھارہ، گلشن اقبال ٹاؤن میں ایک، کورنگی ٹاؤن میں ایک، بلدیہ ٹاؤن میں تین گلبرگ ٹاؤن میں ایک، سائٹ ٹاؤن میں ایک اور نارتھ ناظم آباد ٹاؤن بلاک بی میں رینجر ز ہیڈ کوارٹر کی عمارت کو بھی مخدوش قرار دیا گیا ہے۔

سند ثقافتی ورثہ ایکٹ 1994سیکشن6کے تحت کراچی کی  51عمارتوں کو قومی ورثے کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے، جن میں سے بیشتر عمارتوں کے مالکان نے ان قدیم عمارتوں کو اصلی شکل میں بحال کرنے کے بجائے بلڈرز کو فروخت کردیا ہے یا اپنے طور پر نئی عمارتیں تعمیر کرلی ہیں۔ سندھ ہیریٹیج فاؤنڈیشن کے ماہرین کی جانب سے کچھ عرصے قبل کیے گئے ایک سروے کے بعد اس بات کا انکشاف ہوا کہ قومی ورثہ قرار دی گئی کئی عمارتوں کو گرا کر ان کی جگہ نئی عمارت بنا دی گئی ہے۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے اعدادوشمار کے مطابق رام سوامی کوارٹرز میں 68، وادھومل اودھارام (جیل) کوارٹرز کی 12، آرٹلری میدان کوارٹرز کی 37، ریلوے کوارٹرز کی ایک، فریئر ٹاؤن کوارٹرز کی ایک اور گارڈن کوارٹرز کی ایک عمارت شامل ہیں، نئی تعمیرات زیادہ تر رام سوامی کوارٹرز میں کی گئی ہیں۔

رام سوامی کوارٹرز کی جن عمارتوں کو قومی ورثہ قرار دیا گیا تھا ان میں پٹیل بلڈنگ,پراگ جی اسٹریٹ لارنس روڈ‘ راگھو اسٹریٹ رائل بلڈنگ، تسلیم منزل، تالو اسٹریٹ، راگھواسٹریٹ پر واقع مام جی بلڈنگ، دیورام جی بلڈنگ، پتمبر اسٹریٹ پر واقع ارجن بلڈنگ، موتی لال بلڈنگ، موسی جی پراگ جی اسٹریٹ پر واقع بھولا رام بلڈنگ، سلیمان ڈیوڈ روڈ کی پریم راگی منزل، پراگ جی اسٹریٹ کی شانتی نواز بلڈنگ، سندس روڈ پر واقع کشن داس بلڈنگ، فیض علوی ٹرسٹ بلڈنگ، لارنس روڈ کی بدر منزل، پتمبر اسٹریٹ کی ال یوسف بلڈنگ، جیون اسٹریٹ پر واقع ہاشمانی منزل، ستار بلڈنگ، سلمان ڈیوڈ روڑ پر واقع بسم اللہ منزل، ارجن سنگھ بلڈنگ، ٹیکم داس وادھو مل روڈ پر قائم لالو بلڈنگ، ٹیکم داس وادھومل روڈ کی راؤ چند فتح چند رام سوامی بلڈنگ، ٹیکم داس روڈ اور وشن داس روڈ پر واقع لکشمی چند بلڈنگ، میر روڈ کی کلثوم منزل، تالو اسٹریٹ پر قائم مائی دھانی ٹرسٹ بلڈنگ، غلام علی بلڈنگ، امام بخش چندو اسٹریٹ کی رحیم منزل، برنس اسٹریٹ پر واقع چندو بلڈنگ، امام بخش چندو اسٹریٹ پر واقع شاہجہان منزل، گولا جشن اسماعیل جی بلڈنگ، یوسف نبی بخش اسٹریٹ مہاراشٹریا روڈ پر قائم مسجد بابل نور کی عمارت، مشاملی روڈ پر قائم مہاراشٹریا مترا مندر، جہانگیر پتنگی روڈ پر واقع پولیس لائن کمپلیکس، جوبلی چوک، جناح چوک، پراگ جی اسٹریٹ کی حافظ منزل، سندس روڈ پر واقع آصف منزل، درگاداس بی ایڈوانی روڈ کی مدراسی بلڈنگ وادھو مل اودھا رام جیل کوارٹرز کی عمارتوں میں چھپا اسٹریٹ کی ایم کیو ہمراج ولیج بلڈنگ، کشن داس بلڈنگ، وادھو مل اودھا مل نانک واڑہ روڈ پر قائم دودھی بھائی بلڈنگ، فرحان صادق اللہ بلڈنگ، نشتر روڈ کی سکینہ منزل، بمبئی جی روڈ پر واقع حاجیانی فاطمہ بلڈنگ اور ایم اے جناح روڈ کی لئیق منزل شامل ہیں۔

جب کہ آرٹلری میدان کوارٹرز کے ایکورومل کھیلانی روڈ پر واقع پریم نواز جڈھانی بلڈنگ، بی شیو جی ویلجی کوٹھاری روڈ کی مبارک منزل، شیومندر، ایم اے جناح روڈ پر موجود مندرمندر، رام باغ روڈ پر واقع خاروت منزل شامل ہیں، جب کہ اولڈ ٹاؤن کوارٹرزکی دھالجی کارا اسٹریٹ، نواب محبت خان ر وڈ کے چار، لطیف مارکیٹ میٹھادر کی تین عمارات ، کلاتھ مارکیٹ کاغذی بازار اور ریلوے کوارٹرز کے ویلس روڈ پر ویلس پل، عبداللہ ہارون روڈ پر واقع سابق امریکی سفارت خانے کی عمارت گارڈن کوارٹرز میں بزنس ریکارڈر روڈ پر واقع جوفل ہرسٹ اسکول کی عمارت شامل ہے۔

ان مخدوش عمارتوں میں رہنے والے اپنے سر پر منڈلاتے موت کے خطرے سے بخوبی واقف ہونے کے باوجود روز زندگی اور موت کا سامنا کر رہے ہیں، لیکن ان کے پا س کھانے کے دو وقت کی روٹی، پہننے کے لیے اچھے کپڑے اور پینے کے لیے صاف پانی تک نہیں تو ایسے حالات میں ان لوگوں کے پاس موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جینے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ نہ صرف شہر قائد بلکہ پورے پاکستان میں مخدوش قرار دی گئی عمارتوں میں رہائش پذیر افراد کو متبادل رہائش فراہم کرنا اور اس قدیم عمارتوں کو قومی ورثہ قرار دے کر ان کی بحالی اور حفاظت کرنا حکومت وقت کی ذمے داری ہے ، لیکن حکومت سے ان تمام معاملات کی کوئی امید رکھنا سوئی کے ناکے میں سے اونٹ گزارنے کے مترادف ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔