جہاں گشت؛ اور ہاں! وہ نوجوان بھی تو اس راہ کا مسافر ہے لیکن ۔۔۔

عبداللطیف ابو شامل  اتوار 5 مئ 2019

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

قسط نمبر 42

بہت ہی بُرا اور انتہائی مُہلک مرض ہے تنگ دلی۔ انسان کو خندہ جبیں، کشادہ دل اور اعلیٰ ظرف تو ہونا ہی چاہیے کہ یہ تو شرف انسانی کی ابتدائی شرط ہے، اور اگر ساتھ میں وہ ایثار کیش، ملن سَار، دِل دار، ہم درد، بااخلاق، بلند کردار، بے ریا و بے نیاز اور ہر ایک کے لیے گُل و گُل زار بھی ہو تو جی واہ! کیا کہنے، کہ یہ جوہرِ انساں ہے۔

اس سے آگے بھی ہے جیسے اُس کی آنکھیں نم ہوں، اپنے ذاتی مسائل کی وجہ سے نہیں، قطعاً نہیں، بل کہ خالق کی ہر مخلوق کے دُکھوں اور درد کو دیکھتے ہوئے، اور صرف نم ہی نہ ہوں، وہ مخلوق کے دُکھ کو سُکھ، درد کو راحت، رونے کو ہنسی اور افلاس کو تونگری میں بدلنے کی عملی کوشش بھی کرے۔ وہ زہر کا تریاق، رِستے ہوئے زخموں کا مرہم، بے آسروں کا آسرا، ناداروں کا پشتی بان اور ہر ایک کے لیے نعمت اور رحمت ہو۔ مجھے میرے زیرک و دانا بابوں نے جن کی چشم بینا، قلب بیدار، سینہ روشن اور سماعت ہوشیار ہے، نے ایسا ہی بتایا ہے۔

میں نے کہیں پڑھا بھی تھا کہ انسان کو برسات کی طرح ہونا چاہیے، جو پھولوں پر ہی نہیں کانٹوں پر بھی برستی ہے۔ صحرا کو بھی گُل زار بناتی اور مُردہ زمین کو نیا جیون دان کرتی ہے۔ انسان اور تنگ دل …! نہیں بہت بُری اور مہلک بیماری ہے تنگ دلی۔ مجھے بتایا گیا ہے اور یہ تو عام مشاہدہ بھی ہے کہ ہر شخص اچھائی اور برائی کا پیکر ہوتا ہے۔ مکمل اور اکمل کوئی انسان ہوگا! مُشکل ہے یہ تو، بس وہی اکمل و کامل ہوگا جسے خدا بنائے اور وہ تو بس کوئی منتخب ہی ہوسکتا ہے۔

ہوتا یہ ہے کہ کسی میں اچھائی زیادہ ہوتی ہیں اور کوئی برائی منتخب کر بیٹھتا ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے ۔۔۔؟ دور جدید کے نفسیات داں فرماتے ہیں کہ ہر مجرم کے ساتھ ایک ایسی محرومی ہوتی ہے جو اسے جرائم کی دلدل میں اتار دیتی ہے۔ بہت لمبی بحث ہے اسے کسی اور وقت پر رکھتے ہیں۔ جہاں سے بھی اچھی بات ملے اسے اپنا لیا جائے۔ بالکل بجا کہا ہے جناب باب العلمؓ نے کہ یہ مت دیکھو کون کہہ رہا ہے، بس یہ سنو کہ کیا کہہ رہا ہے۔ اچھی بات ہے تو اپنائو اور بُری بات ہے تو خاموش ہوجائو اور اپنی راہ لگو۔

میں روشن ضمیر و خیال ہی نہیں، جو مجھے ہی نہیں ہر انسان کو ہونا ہی چاہیے کہ اس کے بنا انسان اپنے شرف انسانیت کو کھو بیٹھتا ہے۔ میں نے بس فیشن میں روشن خیالی کو اپنا لیا ہے۔ مجھے جدید دور سے ضرور ہم آہنگ ہونا چاہیے کہ اس کے بنا کوئی بھی سماج ترقی کی منازل طے نہیں کرسکتا، میں نے بس بغیر اس کے معنی و مفہوم سمجھے جدیدیت کو اوڑھ لیا ہے۔ مجھے تو سلامتی کا پیام بَر بنایا گیا ہے اور انسانیت کو روشن راستہ دکھانے کا کار عظیم سونپا گیا ہے لیکن میں ہوں کہ بس ۔۔۔۔۔۔! اگر کوئی مجھے آئینہ دکھائے تو بہ جائے اس کے کہ میں اس کا شُکر گزر بنوں کہ اس نے مجھے میری خامیوں سے آگاہ کیا، میں بہ جائے اس کے کہ اپنی خامیوں کو سنواروں اور راہ راست پر آئوں، میں آئینہ ہی توڑ ڈالتا اور جس نے مجھے آئینہ دکھایا ہے اس کی جان کے درپے ہوجاتا ہوں، عجیب ہوں ناں میں!

ہم سب کو دن منانے کا بہت شوق ہے۔ ماں کا دن، باپ کا دن، محبت کا دن، یہ دن، وہ دن، ابھی پچھلے دنوں تاریخ تو مجھے یاد نہیں رہی لیکن ہم نے ہاتھ دھونے کا عالمی دن منایا تھا۔ بہت اچّھی بات ہے، دھونے چاہییں ہاتھ۔ ہاں گندے ہاتھوں سے کھانا پینا بیماریوں کو دعوت دینا ہے۔ احتیاط علاج سے بہتر ہے، بہت اچّھی بات ہے اور اس پر ضرور عمل کرنا چاہیے۔ اس دن میں نے اخبارات میں اور رنگ بہ رنگ چینلز پر بھی بہت اشتہارات دیکھے۔ ہاتھ دھونے کا محلول لیجیے۔ صابن لیجیے، ہر کمپنی کا ایک سے بڑھ کر ایک دعویٰ! اس صابن سے ہاتھ دھو لیجیے، جراثیم سے حفاظت کے لیے اس سے بہتر صابن ہو ہی نہیں سکتا۔ اب تو لوگ بچوں کو بھی پیار نہیں کرنے دیتے کہ اس سے بھی بیماریاں پھوٹ پڑیں گی۔

میرے بچپن میں تو ایسا نہیں تھا اور شُکر رب اعلٰی کا اب بھی نہیں، میری بیٹی جیسی بہو زرمینہ سے کوئی اگر میری چہیتی پوتی گُل مینہ جو اب دو سال کی ہے، کی صحت کا راز پوچھے تو بلا جھجک کہتی ہے: جی گُل مینہ کی صحت کا راز اس کی دادی کے چبائے ہوئے کھانے میں ہے۔ اور زرمینہ میری طرح بے علم و بے خبر اور اجڈ گنوار بھی نہیں اور نہ ہی دیہاتی، اس نے فلاسفی میں ماسٹر ہی نہیں کیا بل کہ پہلی پوزیشن بھی حاصل کی ہے۔

میرے آبا و اجداد دیہاتی ہی نہیں ہیں بل کہ کہساروں کے مکین بھی ہیں تو ہمارے گھر میں آج بھی جب شوربے والا سالن بنتا ہے تو اس میں گُل مینہ کی دادی مریم اپنے ہاتھ سے روٹی کے ٹکڑے چُورتی اور سب کو اپنے ہاتھ سے کھلاتی ہے، اک میں ہی اس سعادت سے محروم ہوں۔ میں پھر کہیں اور چلا گیا ناں، واپس آتے ہیں تو میں کہہ رہا تھا کہ اب تو لوگ بچوں کو بھی پیار نہیں کرنے دیتے کہ اس سے بھی بیماریاں پھوٹ پڑیں گی، چلیے چھوڑیے دقیانوسی دور تھا ناں وہ، اب ہم سب ماڈرن ایرا میں داخل ہوگئے ہیں۔ دنیا سمٹ کر ایک بستی میں ڈھل گئی ہے۔ ہم دوسروں کی عادات و اطوار اپنا رہے ہیں۔ ہمیں اچھی بات کہیں سے بھی ملے ضرور اپنانا چاہیے۔ اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

ہم صرف اپنے جسم کی نگہہ داشت کررہے ہیں۔ ہاتھ دھوتے ہیں، بار بار دانتوں کو برش سے صاف کرتے ہیں، نت نئے ٹوتھ پیسٹ۔ نہانے کے لیے خوش بُو دار محلول، پھر اسکن کیئر، ہاتھوں کو نرم رکھنے کے لیے لوشن اور سردی میں تو کولڈ کریم، گرمی میں ہم نے دھوپ سے بچنے کے لیے سن بلاک خرید لیا ہے ناں، تو ہر موسم کے لیے نت نئی کریمیں، لوشن اور محلول، مجھے اچّھا نظر آنا ہے بس۔ اسی لیے بالوں کے لیے شیمپو اور پھر کنڈیشنر، آنکھوں کے لیے آئی کیئر لوشن، جسم کی نگہہ داشت کے لیے نت نئے پروگرام، رات سوتے وقت کریم لگائو، پھر تھوڑی دیر بعد ٹشو پیپر سے صاف کرو، اس سے بند مسام کُھل جاتے ہیں۔

مجھے میرے بابوں نے کہا ہے کہ صرف اُس وقت پانی پیو جب پیاس لگے اور اگر وہ نہ بھی بتاتے تو یہ فطرت ہے کہ انسان کو جب پیاس لگے تو وہ پانی پیتا ہے۔ لیکن اب مجھ جیسے گائودی کو بھی یہ بتایا جاتا ہے کہ پیاس لگے نہ لگے، میں پانی اس لیے پیوں کہ اس سے چہرہ تر و تازہ نظر آتا ہے۔ میں بس اپنے جسم کی آئو بھگت کررہا ہوں۔ میرے محلے کے نوجوان روزانہ ورزش کرنے جاتے ہیں، میرے دونوں بیٹے بھی اور جانا بھی چاہیے۔ لوگ واک کرتے اور مسکراتے ہیں، اچھا ہے کرنا چاہیے۔ میری ایک رضاعی ماں بھی روزانہ جِم جاتی ہیں، لاہور میں رہتی ہیں۔ واک کرنے کے لیے صبح سویرے گاڑی میں جاتی ہیں اور پھر جاگنگ ٹریک پر دوڑتی ہیں۔

مجھ پر اکثر خفا رہتی ہیں۔ میں اب یہ سب کچھ نہیں کرسکتا تو کیا کروں، خیر ہم سب کا یہی حال ہے۔ مجھے اس پر ذرا سا بھی اعتراض نہیں ہے، جسم خدا کی دی ہوئی عظیم نعمت ہے اس کی حفاظت اور نگہہ داشت فرائض میں شامل ہے کہ یہ ہمارے پاس خدا کی امانت ہے۔ بس مجھے اتنا سا احساس ستاتا ہے کہ ہم صرف نگہہ داشتِ جسم کے لیے پریشان ہیں۔ ہمارے گھر کے باہر پپیتے کے بہت درخت لگے ہوئے ہیں۔ اہل محلہ اس سے مستفید ہوتے رہتے ہیں۔ پچھلے ہفتے میں باہر نکلا تو ایک بچہ کھڑا تھا، مجھے دیکھتے ہی اس نے کہا انکل! ایک پپیتا توڑ دیں۔ میں نے پوچھا، تم کیا کروگے اس کا؟ تو بہت معصومیت سے بولا، میری امی روزانہ اپنے منہ پر لگاتی ہیں ناں … بہت اچّھی بات ہے جسم کی نگہہ داشت ضرور کرنا چاہیے۔

میں بچپن سے ہی بابا لوگ کے ہتھے چڑھ گیا تھا۔ انہوں نے مجھے کہیں کا رہنے نہیں دیا۔ عجیب عجیب سی باتیں انہوں نے میری گھٹّی میں اتار دیں۔ اب بتائیے میں کیا کروں، کہاں جائوں، رہنا تو مجھے انسانوں میں ہی ہے، اب میں گریباں چاک کرکے جنگل کی راہ تو لینے سے رہا ناں، کہ اس سے بھی منع کیا گیا ہے، تو بس میں اسی طرح سوچتا ہوں۔ اسی طرح دیکھتا ہوں اور جب بات کرتا ہوں تو مُشکل میں پڑ جاتا ہوں۔ میں نے کبھی یہ مطالبہ نہیں کیا کہ میری بات مانو، صرف میری بات سنو، نہیں کبھی نہیں۔ مجھے تو اپنی کم علمی کا اعتراف ہے کہ میں کچھ جانتا ہی نہیں۔ سیکھتا رہتا ہوں۔ معصوم بچوں سے بھی سیکھتا ہوں۔

اب میں سوچ رہا تھا کہ جسم کی نگہہ داشت کے لیے تو بہت ساری چیزیں بن گئی ہیں۔ لیکن وہ دن کب آئے گا کہ میں سُنوں گا کہ یہ محلول دل کی صفائی کرتا ہے۔ دل کے زنگ کو اتارتا ہے، کینے سے نجات دیتا اور اسے پتّھر سے موم بناتا ہے۔ یہ محلول نفرت کو دھو ڈالتا ہے اور یہ صابن کدورت کو صاف کرتا ہے۔ بغض و عداوت کو دھونے کا محلول کب بنے گا ؟ سفاکی کو ختم کرنے کی کریم کب آئے گی؟ خودغرضی کو ختم کرنے کا لوشن کب دست یاب ہوگا؟ محبّت کی دوا کب تیار ہوگی؟ اخلاق کا شربت کب ایجاد ہوگا؟ اور ایثار، قربانی اور اخلاص پیدا کرنے کا معجون کون بنائے گا اور کب ؟

میں اپنی انَا کو جو اتنی موٹی تازی ہوگئی ہے کہ اب اس کے بوجھ سے میں جُھک گیا ہوں اور اسے Slim کرنا چاہتا ہوں، ختم تو بہت مُشکل سے ہوتی ہے یہ کب آئے گی وہ گولی؟ اور وہ جو گم راہ ہوگئے ہیں، انہیں بتایا گیا ہے کہ ہر اس انسان کو قتل کرنا کارِ ثواب ہے جو ہم سے مختلف سوچ رکھتا ہو، ایسے انسانوں کو قتل کرنے سے جنّت ملے گی، کب بنے گا وہ کیپسول جسے گم راہوں کو کھلا کر ان کے اذہان میں سے یہ غلیظ سوچ نکالی جاسکے۔ جُھوٹ سے چھٹکارے کے لیے اور مکر و فریب سے حفاظت کے لیے ویکسین کب تیار ہوگی؟ وہ اسپرے کب بنے گا جس کے چھڑکنے سے میں اپنے ناپاک اور فرسودہ خیالات سے چھٹکارا پاسکوں۔۔۔ ؟

میں باہر سے عطر، پرفیوم، کولون اور نہ جانے کیا الّم غلّم چھڑک کر گھوم رہا ہوں اور میرے اندر سے بدبُو کے بھبکے اٹھ رہے ہیں۔ ایسا عطر اور پرفیوم کب بنے گا جسے لگانے سے میں اپنے اندر کی بدبُو سے نجات پاجائوں؟ میں صرف اپنے لیے ہی سوچتا رہتا ہوں کہ میں سُکھ پائوں، میرے بچے سُکھی رہیں، میں جیون بھر عیش کروں، میرے لیے ہر طرف آسانیاں ہی آسانیاں ہوں، زندگی میں چار سُو خوشیاں ہی خوشیاں ہوں، غم کا، دُکھ کا، اضطراب کا شائبہ بھی نہ ہو، لیکن ایسی گھٹّی کب بنے گی جس سے میں خلق خدا کا بھی سوچوں، اور ان سب کے لیے بھی اپنے جیسی زندگی کا خواب دیکھوں اور ان کے لیے بھی جدوجہد کروں۔

میں ان بے کس و لاچار، مفلس و مدقوق لوگوں کی آواز بنوں جن کی آواز کو دبا ہی نہیں دیا گیا بل کہ اسے فنا کردیا گیا ہے۔ کچھ سال پہلے کا واقعہ ہے کہ ملتان میں ایک نام وَر صوفی کے عرس کے موقعے پر وہاں کے گدی نشین نے ذرایع ابلاغ کی موجودگی میں ایک سادہ لوح عقیدت مند کے چہرے کو تھپّڑوں سے سرخ کردیا اور وہ مرید اس کے پائوں میں گر کر گڑگڑاتا رہا۔ اس مرید کو یہ کون بتائے گا کہ انسان خدا نہیں ہوتا، چاہے وہ مرشد ہی کیوں نہ ہو، کیا یہ توہین انسانیت نہیں ہے۔۔۔۔۔ ؟ کیا صوفیاء کی یہی تعلیمات تھیں۔ ایک انسان کی توہین ساری انسانیت کی توہین نہیں ہے کیا۔۔۔۔۔۔۔

کب بنیں گی یہ ساری چیزیں، مجھے اس دن کا بہت شدت سے انتظار ہے۔ مجھے بہت سی بیماریوں نے گھیر رکھا ہے۔ جو نظر بھی نہیں آرہی ہیں۔ میں کب ان سے شفا پائوں گا اور انسان کہلائوں گا، کیا موت سے پہلے میں انسان بن سکوں گا ؟ کچھ بھی تو نہیں رہے گا ناں یہاں۔ ہاں جسم بھی فنا ہونے کو ہے جس کی پُوجا میں کیے جارہا ہوں، یہ بھی تو رزق خاک ہوجائے گا۔ کتنی محنت سے میں نے اسے پروان چڑھایا ہے، یہ بھی مٹی میں مل جائے گا، افسوس! ۔ کچھ بھی تو نہیں رہے گا، کچھ بھی تو نہیں کہ فنا ہی کائنات کا نصیبا ہے۔ بس نام رہے گا اﷲ کا۔

کوئی اس دور میں وہ آئینے تقسیم کرے
جن میں باطن بھی نظر آتا ہو ظاہر کی طرح
ایک اور بھی تو ہے:
حدوں سے بڑھنے لگی ہے ہماری بے تابی
یہ دل ہی ایسا ہے، اس کو ہزار سمجھایا

میں نہ جانے کیا کچھ آپ سے کہنے بیٹھ گیا، آپ کی سمع خراشی پر میں معافی کا طلب گار ہوں۔

عید کے بعد معمولات پھر وہی ہوگئے تھے۔ لیکن میں اور بابا اِدھر اُدھر گھومنے پھرنے بھی نکل جاتے تھے۔ ایک دن بابا مجھے لے کر قریب ہی ایک گائوں گئے۔ چھوٹا سا گائوں بس، بل کہ بستی۔ جب ہم گائوں میں داخل ہوئے تو کچھ لوگوں نے بابا جی کو بہت ادب سے سلام کیا، بل کہ کچھ نے تو جُھک کر پائوں چُھونے کی کوشش بھی کی، بابا نے انہیں سختی سے منع کیا اور ہم آگے بڑھ گئے۔ میں حیران تھا کہ بابا کو تو کوئی جانتا ہی نہیں تھا تو پھر یہ لوگ کون تھے۔ لیکن میں نے خاموشی اختیار کی۔

بابا ایک پختہ مکان کے سامنے جاکر رک گئے اور پکارا: بیٹا جی! فقیر در پر کھڑا ہے۔ فوراً ہی در کھلا اور وہی نوجوان جو مجھے راجا بازار میں ملا تھا، وہی جس نے مجھ سے کمبل کے پیسے لینے سے انکار کردیا تھا، باہر نکلا اور بابا جی سے لپٹ گیا۔ پھر اس نے میری طرف توجہ کی۔ وہ ہمیں لے کر گھر میں داخل ہوا، کوئی نہیں تھا گھر میں۔ کیا وہ تنہا رہتا ہے، میرے اندر سوال نے سر اٹھایا۔ پھر اس نے ہمارے سامنے تازہ پھل لا کر رکھے اور خاموش بیٹھ گیا۔ سب کچھ ٹھیک ہے ناں! بابا نے اس سے پوچھا۔ جی کرم سب ٹھیک ہے، آپ کے احکامات پر عمل کرنا میری سعادت ہے بابا، کہہ کر وہ پھر خاموش ہوگیا۔ ایسی ہی مختصر گُفت گُو بس۔ مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا لیکن میں نے خاموشی میں عافیت سمجھی۔ پھر یک لخت بابا اٹھ کھڑے ہوئے اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا: حاضری قبول، اب اجازت بیٹا، ہم رخصت ہوئے۔

ہمیں وہاں سے رخصت ہوئے بس کچھ دیر ہی ہوئی تھی کہ بابا نے مجھے خاموش دیکھتے ہوئے کہا: اب تم اس میں اٹک گئے کہ وہ کون ہے؟ جی بابا کہہ کر میں خاموش ہوگیا۔ تو تم باز نہیں آئو گے، بابا نے میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ میں ہمیشہ کا منہ پھٹ ہوں تو میں نے کہا: مُشکل، بہت ہی مُشکل ہے بابا! مجبوری ہے میری سوال کرنا۔ بابا مسکرائے اور کہا: یہ جانتے ہوئے بھی کہ جو جان جاتا ہے وہ تو اور مُشکل میں گِھر جاتا ہے، جو آگاہ ہو تو اس پر بازپُرس بھی ویسی ہی ہے، جو جانتا ہو اور پھر بھی کچھ نہ کرتا ہو تو اس پر انتباہ ہی نہیں مواخذہ بھی سخت ہے تو عافیت اسی میں ہے سادگی سے جیون گزارو اور امان میں رہو، ہاں اگر تم نے طلب نہیں کیا تھا اور پھر وہ تمہیں دے دیا گیا تو وہ خود اس کے ساتھ ہوجاتا ہے لیکن کسی نے تجسس میں طلب کیا اور بس تو وہ دے تو دیتا ہے خود ساتھ نہیں آتا تو بیٹا عافیت تو بس تسلیم میں ہے، نامعلوم، معلوم ہوجائے تو ٹھیک کہ وہ خود ساتھ آیا ہے اور اگر تجسس سے معلوم کرلیا تو معلوم تو ہوجائے گا پر وہ تنہا ہی ہوگا۔ مجھے کچھ بھی تو سمجھ میں نہیں آرہا تھا تو میں نے کہا: مجھے تو کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا۔ بابا مسکرائے اور کہا: چلو میں مان لیتا ہوں، کسی اور وقت کھولیں گے اس راز کو بھی اور ہاں وہ نوجوان بھی تو اس راہ کا مسافر ہے لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔