ترقی کے لیے ضروری ہے...

نعمان خان  پير 6 مئ 2019
ملائیشیا نے کم دورانیے میں بہت زیادہ ترقی کی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ملائیشیا نے کم دورانیے میں بہت زیادہ ترقی کی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

میرے ایک دوست نے حال ہی میں ملائیشیا کا مختصر دورہ کیا۔ ملائیشیا وہ ملک ہے جس نے بہت ہی کم دورانیے میں مہاتیر محمد کی قیادت میں بہت زیادہ ترقی کی۔ دوست سے واپسی پر ملائیشیا کی ترقی پر بحث ہوئی تو انہوں نے ایک دلچسپ واقعہ سنایا، جس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قومیں کیسے ترقی کرتی ہیں۔

دوست نے بتایا کہ ایک دن وہاں ہم سیر کی غرض سے باہر نکلے۔ سڑک کے اس پار بھی ایک پٹرول پمپ تھا اور دوسری طرف بھی۔ لیکن ایک پٹرول پمپ پر گاڑیوں کی قطار در قطار اور دوسری طرف کے پٹرول پمپ پر گاڑیاں نہ ہونے کی برابر تھیں۔ میرے دوست نے سوچا یہ کتنے بیوقوف لوگ ہیں۔ نظر بھی آرہا ہے کہ کتنا رش ہے اس پٹرول پمپ پر مگر پھر بھی اپنا وقت برباد کرکے یہاں خوار ہورہے ہیں۔ نجانے ان احمقوں نے کیسے ترقی کی۔ جب تجسس بڑھنے لگا تو میزبانوں سے پوچھ ہی لیا کہ یہ لوگ ایک ہی پٹرول پمپ پر کیوں جمع ہورہے ہیں؟ دوسرے پر کیوں نہیں جارہے؟ وہ تو بالکل خالی ہے۔ میزبانوں نے انہیں جواب دیا کہ جس پٹرول پمپ پر آپ کو رش دکھائی دے رہا ہے، وہ دراصل سرکاری پٹرول پمپ ہے؛ اور جو پٹرول پمپ آپ کو سنسان دکھائی دے رہا ہے، وہ پرائیویٹ ہے۔ یہ لوگ ملک کا بھلا جانتے ہیں۔

میرا دوست کہتا ہے کہ جب میں نے یہ سب کچھ سنا تو میں شرم کے مارے ڈوب رہا تھا۔ دراصل ہم خود بے شعور ہیں لہٰذا دوسروں کو ہم احمق سمجھتے ہیں۔ یہ سننے میں صرف ایک واقعہ تھا لیکن اس واقعے کے پیچھے مجھے ترقی پذیر ملائیشیا سے ترقی یافتہ ملائیشیا کا سفر صاف دکھائی دینے لگا۔ صرف یہی نہیں، وہاں کے لوگ جتنا قانون کا احترام کرتے ہیں، اگر اس کا نصف بھی یہاں پر کیا جائے تو ہم ان سے آگے بڑھ سکتے۔ چاہے کوئی ٹریفک وارڈن ہو یا نہ ہو، بتی اگر سرخ ہو تو کسی کی مجال نہیں کہ وہ سڑک پار کرے۔ میرے دوست کا کہنا ہے کہ وہ ایک ماہ وہاں رہ کر آیا اور اس نے ایک ماہ میں گاڑی کے ہارن کی آواز تک نہیں سنی۔ ہمارے یہاں ہر چوک و چوراہے میں ہر عمر کے سیاستدان آپ کو نظر آئیں گے جو فضول بحث میں اپنا وقت برباد کرتے ہیں۔ لیکن وہاں میں نے ایک ملائیشین سے پوچھا کہ آپ نے ووٹ کس کو دیا؟ تو کہنے لگا کہ میری امانت تھی میں نے دے دی، آپ کون ہوتے ہیں پوچھنے والے؟

اب آئیے پاکستان کی طرف! یہاں اول تو کم ہی لوگوں کو معلوم ہوگا کہ سرکاری پٹرول پمپ کون سا ہے۔ دوسری بات جہاں موقع ملے، دوسروں سے آگے بڑھنے کی کوشش میں مگن رہتے ہیں، حتیٰ کہ جب حکومت نے بغیر ہیلمٹ کے پٹرول دینے پر پابندی عائد کردی تو لوگوں نے پٹرول پمپ کو ہی بھیک کا اڈہ بنادیا۔ یعنی پٹرول ڈلوانے کےلیے دوسروں سے ہیلمٹ کی بھیک مانگتے ہیں۔ آپ خود سوچیے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک میں ہمیشہ ایک چیز آپ کو یکساں دکھائی دے گی، وہ قانون کے پابند اور اخلاق کے اعلیٰ ہوں گے۔

ہمارے ہاں اگر چوک پر ٹریفک وارڈن نہ ہو تو سرخ بتی کی پرواہ کیے بغیر ہم بے جھجک سڑک پار کرتے ہیں۔ یہاں یوٹرن اگر ایک منٹ کی دوری پر ہو تو ہم جانوروں کی طرح فٹ پاتھ پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ یہاں آپ کو ہر گلی محلے میں سیاسی تجزیہ نگار ملے گا، جو سیاسی بحث میں اپنا پورا وقت برباد کرتا ہوا دکھائی دے گا۔ عدم برداشت اور گالم گلوچ تو ہر دوسرے منٹ کے فاصلے پر آپ کو سنائی دے گی۔

کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ ہم نے ہر چیز کی بنیاد دو نمبری پر رکھی ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر کسی کام کی غرض سے سرکاری دفتر جانے سے پہلے تگڑی سفارش کا بندوبست پہلے سے کرتے ہیں۔ کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ یہاں سفارش اور رشوت خوری ہر ادارے کی نس نس میں پائی جاتی ہے۔ یہاں ہم روز قانون کو نہ توڑیں تو ہمیں بے چینی سی ہوتی ہے۔ یہاں ہم حکومت پر تنقید کو اپنا حق سمجھتے ہیں مگر حکومتی احکامات پر عمل کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ ایسے میں بھلا کون ترقی کرسکتا ہے۔

ووٹ جو انتہائی اہم ہتھیار ہے، ہم اس میں بھی بے ضمیری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ صرف چند سکوں اور محض ایک پلیٹ بریانی پر ہی اپنے ضمیر کا سودا کرتے ہیں۔ لہٰذا ترقی کے لیے اچھے حکمرانوں کے ساتھ ساتھ ہمیں خود کو بھی بدلنا ہوگا۔ تبدیلی کسی ایک شخص کا کام نہیں، ہم سب کو تبدیل ہونا پڑے گا۔ اپنے حصے کا دیا روشن کرنا ہوگا۔ قانون کا احترام کرنا پڑے گا۔ اخلاق کو اعلیٰ اور کردار کو باوقار بنانا ہوگا۔ یقیناً پھر بنے گا ترقی یافتہ پاکستان۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

نعمان خان

نعمان خان

بلاگر ضلع باجوڑ سے تعلق رکھتے ہیں، نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز سے ابلاغیات میں ماسٹرز کررہے ہیں۔ فنِ مباحثہ و مذاکرہ میں اپنی کامیابی کا لوہا منوا چکے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔