خواجہ سرا بھی انسان ہیں

یمنیٰ آصف  ہفتہ 4 مئ 2019
خواجہ سرا اپنے حقوق کےلیے کوشاں ہیں۔ (فوٹو: فائل)

خواجہ سرا اپنے حقوق کےلیے کوشاں ہیں۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان، دنیا کا دوسرا بڑا مسلم ملک ہے، جس کا معاشرہ اسلامی طرز پر عمل پیرا ہے۔ اسلام نے تمام انسانوں کو، خواہ امیر ہو یا غریب، کالا ہو یا گورا، مرد ہو یا عورت یا کوئی تیسری جنس، سب کو برابر حقوق دیئے ہیں۔ یہ سبق شاید ہمیں ابتدائی تعلیم سے دیا جارہا ہوتا ہے مگر عمل عمر کے آخری حصے تک بھی نہیں ہوتا۔ اگر غور کیا جائے تو ہم نے یہاں تیسری جنس کو بھی زیرغور لیا ہے، جنہیں شاید کسی گنتی میں نہیں لیا جاتا۔ تیسری جنس یعنی خواجہ سرا۔ خواجہ سرا خدا کی وہ مظلوم مخلوق ہیں، جنہیں معاشرے میں کوئی تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔

افسوس تو اس بات کا ہے کہ خدا کی اس مظلوم مخلوق کو معاشرہ تو بعد کی بات ہے، ان کو تو ان کے اپنے ہی قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ بلکہ ان کی پیدائش کے وقت ماتم کا سماں بن جاتا ہے۔ مارپیٹ اور جنسی تشدد بچپن سے ہی ان کا مقدر بن جاتا ہے۔ ہمارا مہذب معاشرہ انہیں عزت دینا تو دور کی بات، انہیں ڈھنگ کے نام تک سے پکارنے کا روادار نہیں۔ زنانہ، چھکا، ہیجڑا اور انہی جیسے دل آزاری والے الفاظ سے ان کو پکارا جاتا ہے۔

سڑک پر تشدد کا شکار ہونے والا یا کسی مضر بیماری سے تڑپ کر مرنے والا خواجہ سرا معاشرے کی بے حسی کی ایک بھیانک تصویر ہے۔ وہ معاشرہ جو بظاہر تو بہت مہذب اور اخلاقیات سے بھرپور ہے مگر اندر سے اتنا ہی کھوکھلا ہے۔

پاکستان کا شمار ان چند مما لک میں شمار ہوتا ہے جہاں خواجہ سرا کمیونٹی کو قومی شناختی کارڈ مہیا کرنے کا حکم جاری کیا گیا۔ امریکا اور یورپ جیسے ممالک میں ان لوگوں کو عام شہریوں کے مقابلے میں زیادہ حقوق حاصل ہیں، لیکن پاکستان میں یہ بہت عبرت ناک صورتحال کا شکار ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق، پاکستان میں لاکھوں خواجہ سراؤں میں سے صرف چند ہزار کے پاس قومی شناختی کارڈ موجود ہیں۔ اور اس وجہ سے انہیں بے روزگاری کا سامنا ہے۔ انہیں پیٹ پالنے کےلیے اکثر اوقات بداخلاقی کی اس حد تک جانا پڑتا ہے جس کے تصور سے ہی گھن آنے لگتی ہے۔ شاید اسی وجہ سے فی زمانہ انہیں فحاشی پھیلانے کا بڑا ذریعہ سمجھتا ہے۔ لیکن کیا کبھی یہ سوچا ہے کہ ان کو اس کام کےلیے مجبور کرنے والے بھی یہی لوگ اور یہی معاشرہ ہے، جو نہ انہیں درسگاہوں میں تعلیم حاصل کرنے دیتے ہیں اور نہ کسی ادارے میں روزگار فراہم کرتے ہیں۔

پاکستان میں خواجہ سراؤں نے اپنے حقوق کےلیے بہت کوششیں کیں لیکن ہر بار ناکام رہے اور ساتھ ساتھ تشدد کا بھی شکار ہوئے۔ گزشتہ سال 300 سے زائد خواجہ سراؤں پر تشدد کے واقعات سامنے آئے، جن میں سے 47 کی اموات واقع ہوئیں۔

تشدد کے بڑھتے واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے خیبرپختونخوا حکومت نے اس کمزور طبقے کی فلاح و بہبود کےلیے 20 کروڑ روپے کا بجٹ پیش کیا ہے جس میں انہیں سلائی اور کڑھائی جیسے روزگار فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ لیکن خواجہ سرا برادری کے کارکنان حکومت کے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہیں کیونکہ یہ لوگ بھی مردوں اور خواتین کی طرح اپنی مرضی کے شعبہ جات کو اپنا روزگار بنانا چاہتے ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ حکومت، خواجہ سراؤں کو معاشرے پر بوجھ کے طور پر دیکھ رہی ہے، اس لیے انہیں ایک مخصوص شعبے کی حد تک محدود رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے۔

اس حوالے سے ہم نے نادرا آفس کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ضیا صاحب کی رائے لی۔ ان کا کہنا تھا کہ انسانی حقوق اور قانونی لحاظ سے بھی یہ ان کا حق ہے کہ انہیں روزگار فراہم کیا جائے، لیکن انہیں چھوٹی پوسٹ پر تو رکھ سکتے ہیں مگر کسی بڑی پوسٹ پر نہیں رکھا جاسکتا کیونکہ و ہ اتنے اہل نہیں ہوتے۔ یہ رائے صرف ایک ضیا کی نہیں، بلکہ اس معاشرے میں موجود 90 فیصد لوگوں کی بھی ہے جو انہیں نااہل اور کمزور سمجھتے ہیں؛ اور بقیہ 10 فیصد لوگ وہ ہیں جو امید کی کرن ہیں ان کےلیے، جو ان کے حقوق کےلیے آواز اٹھاتے ہیں اور ان کی فلاح کےلیے کام کرتے ہیں۔

حکومت اب تک ان کےلیے کوئی بہتر فیصلہ نہیں کر پارہی ہے جس کی وجہ سے عوام اور حکومت دونوں ہی مجرم نظر آتے ہیں۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ ان کےلیے بہتر تعلیم اور روزگار فراہم کرے اور جس طرح لڑکیوں اور لڑکوں کےلیے علیحدہ تعلیمی مراکز بنائے جاتے ہیں، ان کےلیے بھی بنائے جائیں تاکہ یہ بھی باقاعدہ طور پر تعلیم حاصل کرسکیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

یمنیٰ آصف

یمنیٰ آصف

بلاگر نے سیاسیات میں جامعہ کراچی سے ماسٹرز کیا ہے، سماجی مسائل پر لکھنے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔