دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا…

شیریں حیدر  اتوار 5 مئ 2019
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

سکون کی سانس لی کہ اتنی مشکل اور محنت والی تلاش کے بعد بالآخر ہماری قسمت میں وہ ہیرا آ گیا تھا جو ہماری زندگی میں سکون لانے والا تھا۔ شکل سے معصومیت اور شرافت برس رہی تھی، چالیس کی دہائی کے اولین سالوں میں، اس کا تعلق بھی میرے ننہیال کے گاؤں کی طرف سے نکل آیا تو اور بھی تسلی ہو گئی۔

’’ بچے کتنے ہیں تمہارے؟ ‘‘ میںنے اس سے سوال کیا، ’’ میاں کیا کرتا ہے، تم اس سے پہلے کس کے پاس کام کر رہی تھیں اور اپنے گاؤں سے اتنی دور تم کام کرنے کیسے نکل آئیں؟ ‘‘

’’ جی میرے تین بچے ہیں، اپنی خالہ کے پاس رہتے ہیں راولپنڈی میں ہی میری بہن کا شوہر کسی سرکاری ملازمت پر ہے۔ میرے شوہر کو ٹی بی ہے اور وہ اس کی وجہ سے وہ اپنے گاؤں میں تقریبا معذوری کی زندگی گزار رہا ہے، کچھ کرنے کا اہل ہی نہیں ہے… حال ہی میں میری ساس کا انتقال بھی ہو گیا ہے۔ میں اس سے پہلے ایک مہینے سے… کے گھر کام کر رہی تھی، اس سے چار پانچ سال پہلے سے میں لاہور میں کام کرتی تھی!! ‘‘

’’ اچھا… شناختی کارڈ کہاں ہے تمہارا؟ ‘‘

’’ وہ انھی باجی کے پاس ہے، انہو ں نے میرا سیکیورٹی پاس بنوانا تھا تو اس لیے مجھ سے لے لیا!!‘‘ میںنے اس سے ان باجی کا نمبر لیا اور سوچا کہ ان سے بات کر کے اس کے اس بیان کی تصدیق کروں گی۔

پہلی فرصت میں انھیں کال کیا تو علم ہوا کہ اس کا شناختی کارڈ تو نہیں مگر اس کی رنگین کاپی ان کے پاس تھی جو کہ سیکیورٹی پاس بنانے والوں کے لیے قابل قبول نہ تھی اور انھوں نے اسے کہہ رکھا تھا کہ اصل شناختی کارڈ منگوائے تا کہ اس کا پاس بنوایا جا سکے۔ ان سے یہ پوچھنے پر کہ ان کے ہاں کی ملازمت اس نے کیوں چھوڑی، انھوں نے بتایا کہ وہ اس کے ہر وقت ٹیلی فون پر مصروف رہنے سے بہت تنگ تھیں ۔ کوئی بھی کام کر رہی ہو اس کا فون اس کے کان سے نہیں ہٹتا، اس پر میں نے اس کی کئی بار سرزنش کی تو اسے برا لگا اور وہ چلی گئی۔ میںنے انھیں بتایا کہ اب وہ ہمارے پاس ملازمت کے لیے آئی تھی اور ہم اسے رکھ رہے تھے، انھیں اس پر کوئی اعتراض نہ ہوا۔

میرے پاس اور بھی ملازمین ہیں اور جس کام کے لیے اسے رکھنا تھا اس میں چونکہ اس کی کوئی بڑی اور ہر وقت کی مصروفیت نہیں ہے تو چاہے فون استعمال کرتی رہے ، مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس کے ساتھ کمرے میں ایک اور ملازمہ بھی ہو گی تو دونوں آپس میں بات چیت میں ہی مصروف رہیں گی، کتنا فون استعمال کر لے گی، بے چاری۔ ہم بھی تو ہر وقت اسی پر مصروف رہتے ہیں، وہ بھی انسان ہے۔ یہ سب کچھ سوچنے اور اس کے فون کے بے جا استعمال پر پابندی عائد نہ کرنے کا سوچنے کے باوجود میں نے تہیہ کیا کہ اسے سمجھاؤں گی کہ کسی بھی چیز کی زیادتی ٹھیک نہیں ، مجھے تو کوئی اعتراض نہیں مگر میرے پاس وہ ساری عمر تو نہیں رہے گی، جہاں بھی جائے گی اسے یہی مسئلہ ہو گا۔

’’ باجی یہ عورت ٹھیک نہیں … ‘‘ دوسری ملازمہ نے موقع دیکھ کر اس وقت مجھ سے کہا جب میں اس کمرے میں’’ راؤنڈ‘‘ پر گئی تھی۔

’’ کون سی عورت؟ ‘‘ میںنے سوال کیا ۔

’’ یہ دوسری ملازمہ… ‘‘ اس نے آہستگی سے کہا۔ میںنے اس کے چہرے کو دیکھا، ڈھونڈ رہی تھی کہ اسے اس کے آنے سے حسد محسوس ہوا تھا یا، ’’ اس نے جو کچھ آپ کو بتایا ہے وہ سب جھوٹ کا پلندا ہے، آپ خود بھی نظر رکھیں اور میں بھی آپ کو جلد کوئی ثبوت دے کر بات کروں گی، میں سمجھتی ہوں کہ تب تک میری بات میں کوئی وزن نہیں، لیکن آپ خیال سے رہیں ، یہ عورت رات کو گھر کے اندر سوتی ہے تو!! ‘‘ بتانے والی ملازمہ دن بھر کی ڈیوٹی پر ہوتی ہے اور رات کو گھر لوٹ جاتی ہے، دوسری عورت ہمارے ہاں چوبیس گھنٹے کے لیے ہوتی ہے اور اس سے پہلی ملازمہ کے کسی مجبوری کے باعث چلے جانے سے یہ ویکینسی خالی ہوئی تھی۔

’’ کتنے بچے ہیں تمہارے… ‘‘ دوسراانٹرویو کرتے ہوئے میں نے پوچھا، کتنے عرصے سے اس علاقے میں کام کر رہی ہو اور شوہر کیا کرتا ہے، کب سے بستر پر ہے، ٹی بی کا مریض ہے؟ ‘‘ میرے لہجے اور اس میں چھپے غصے نے اسے سب کچھ سمجھا دیا تھا۔

’’ پانچ بچے ہیں جی، مہینہ ہوا ہے گھر چھوڑ کر آئی ہوں ، شوہر سے لڑ کر… ‘‘

’’ کتنے فون ہیں تمہارے پاس؟ ‘‘

’’ دو…‘‘ اس نے کہا، ’’ ایک فلاں کمپنی کا ہے اور دوسرا فلاں کا!! ‘‘

’’ کس سے ٹیلی فون پر ملنے کا پلان بناتی ہو تم ؟ ‘‘ میںنے سختی سے پوچھا، ’’ … کون ہے؟ ‘‘

’’ وہ میری پھوپھی کا بیٹا ہے، وہ مجھے یہاں لے کر آیا تھا جی!!‘‘

’’ تم اب بھی جھوٹ بول رہی ہو… ‘‘ میں نے اسے کہا، ’’ اپنے شوہرکا نام بتاؤ اور اس کا ٹیلی فون نمبر دو! ‘‘ اس نے جھجک کر نمبر دیا۔ میںنے اپنے فون سے ڈائل کر کے اس سے نام پوچھا، ا س کی بیوی کا نام پوچھا تو اس نے الٹا سوال کیا کہ میں اس کی بیوی کا نام کیوں پوچھ رہی تھی۔ ’’ آپ نام بتاؤ بیٹا، اگلی بات پھر بتاؤں گی! ‘‘ اس نے اس کا نام بتایا تو تصدیق ہو گئی کہ وہ اس کا شوہر ہی تھا۔ ’’ بیٹا آپ کی والدہ کے انتقال کا افسوس ہوا… آپ ٹی بی کا علاج کہا ں سے کروا رہے ہو؟ ‘‘

’’ میری والدہ تو اللہ کے فضل سے حیات ہیں، اللہ انھیں لمبی حیاتی دے اور آپ سے کس نے کہا کہ مجھے ٹی بی ہے!!‘‘

’’ آپ کی بیوی نے!! ‘‘ میںنے انکشاف کیا ۔

’’ میری بیوی …؟ آپ کیسے جانتی ہیں اسے، کہاں ہے وہ؟ ‘‘

’’ وہ اس وقت ہمارے گھر پر ہے، ملازمت کر رہی ہے یہاں تین چار دن سے اور مجھے لگتا ہے کہ وہ اپنے بارے میں غلط بیانی کر رہی تھی اس لیے میں نے آپ سے رابطہ کیا ہے! ‘‘

’’چھوٹی سی بات پر لڑ کر چلی گئی ہے جی گھر سے، میں یہاں پر فلاں ہاؤسنگ سوسائٹی میں مالی کا کام کرتا ہوں ، پانچ بچوںکو چھوڑ کر یہ گھر سے بغیر بتائے نکل گئی اور میںاسے ڈھونڈ ڈھونڈ کر ہلکان ہو چکا ہوں … اللہ کا شکرہے کہ آپ نے مجھے اطلاع دی اور مجھے بتائیں کہ میں اسے لینے کہاں آؤں ؟ ‘‘ اس کی آواز بھرا گئی تھی۔

’’ میںنے نہیں جانا جی اس کے ساتھ وہ میرے ساتھ اچھا نہیں ہے!! ‘‘ اس نے اٹل لہجے میں کہا۔

’’ تو پھر اس آدمی کے ساتھ جانا ہے جس کے ساتھ بھاگی تھیں اور اب مزید بھاگنے کے منصوبے بنا رہی ہو یا تمہیں حوالہء پولیس کیا جائے؟ ‘‘ میںنے سوال کیا، ’’ میرے پاس تمام ثبوت موجود ہیں کہ آپ گھر سے بھاگی ہوئی عورت ہو اور مجھے یہ بھی علم نہیں کہ آپ کسی مجرموں کے گروہ کی رکن بن چکی ہو، اس لیے میں آپ کو یوں ہی جانے نہیں دے سکتی!!‘‘

’’ ٹھیک ہے پھر میں اسی کے ساتھ چلی جاتی ہوں !! ‘‘ اس نے بے دلی سے کہا۔ چند گھنٹوں میں اس کا شوہر پہنچ گیا اور ہم نے اسے اپنے گھر پر نہیں بلایا بلکہ کالونی کے مین گیٹ پر جا کر اس کے حوالے کیا۔ وہ بہت شکر گزار اور یہ بہت مغموم تھی۔ ’’ یہ مارتا ہے جی مجھے!‘‘ اس نے شوہر کی شکایت اس کے سامنے کی۔

’’ اس سے پوچھیں کہ کب مارا ہے میں نے اسے، ڈانٹتا ہوں مگر کس بات پر… ہر وقت ٹیلی فونوں پر رہتی ہے جی۔ میں سو رہا ہوتا ہوں تو یہ غیر مردوں سے باتیں کر رہی ہوتی ہے، میںنے کئی بار اسے رنگے ہاتھوں پکڑا ہے!!‘‘ اس کے شوہر کی شکایت پر میں نے اسے سختی سے کہا کہ وہ اپنی غلط حرکتیں چھوڑ دے ورنہ اس کا انجام براہو گا۔ ایک بار دل میں آیا کہ کہیں اس کا شوہر غصے میں اسے نقصان نہ پہنچا دے لیکن جوکچھ اس کا شوہر بتا رہا تھا، لگ بھگ ایسی ہی باتیں مجھے دوسری ملازمہ نے بتائی تھیں بلکہ اس نے مجھے اس کی کچھ باتیں سنوائیں بھی۔ ایسی عورت کو گھر میں اور وہ بھی گھر کے اندر رہتی ہو اور کسی کے لیے گھر کے اندر آنے والے دروازے بھی کھول سکتی تھی، اپنے پاس رکھنے کا رسک نہیں لیا جا سکتا تھا نہ ہی اسے یوں ہی آزاد چھوڑا جا سکتا تھا کہ وہ کہیں اور جا کر اپنی حرکتیں جاری رکھے۔

ہم لوگ اپنے حالات کی وجہ سے اتنے مجبور ہو جاتے ہیں کہ بسا اوقات اپنی مجبوری کے حل کے لیے نہ صرف اپنی، اپنے گھر کی بلکہ اپنے علاقے کی سکیورٹی کو بھی خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ کسی کو ملازم رکھتے وقت اور کسی کو گھر کرائے پر دیتے وقت، ضرورت ایسی بڑی وجہ ہوتی ہے کہ وہ آنکھوں پر پٹی باندھ دیتی ہے اور ہم کسی ممکنہ حادثے اور دھوکہ دہی کے امکان کو خارج کر دیتے ہیں۔ اسی نوعیت کی کوتاہیوں ماضی میں بڑے بڑے حادثات کا پیش خیمہ بھی ثابت ہو چکی ہیں ۔ ہم سب کو حادثات کی روک تھام کے لیے اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھنے چاہئیں اور گھروں میں ملازمین رکھتے وقت ان کی تمام چھان بین کروانا ایک اہم کام ہے جو بہت بڑے نقصانات سے بچا سکتا ہے۔ اللہ تعالی سب کو ایسے حادثات سے محفوظ رکھے، آمین۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔