ایک نسخہ غم شفاء غم افزا

سعد اللہ جان برق  اتوار 5 مئ 2019
barq@email.com

[email protected]

ویسے تو یہ ’’غم‘‘ کم بخت ہمارا جدی پشتی ’’کھیت کھلیان‘‘ ہے اور اب ہم اس کے ساتھ کسی ’’ان چاہی‘‘ بیوی کی طرح نبھا کرنا بھی سیکھ گئے ہیں کیونکہ ہم جس ملک کے باسی ہیں اس میں ’’گنگا‘‘ صرف ’’اوپر ہی اوپر‘‘ بہتی ہے، نیچے اس کی بوند بھی نہیں گرتی۔

یوں کہیے کہ ’’چیونٹی کا گھر‘‘ جہاں روز ماتم کا عالم ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی ’’چیونٹی‘‘ تو مر چکی ہوتی ہے اور چار چیونٹیاں اس کا جنازہ اٹھائے ہوئے چلے آ رہی ہوتی ہیں لیکن کبھی کبھی جی چاہتا ہے کہ اس کم بخت ’’پاسبان‘‘ سے رسہ تڑوا کر دو چار سانسیں بے غمی کی بھی لے لیں۔

ویسے تو اس کے لیے ہمارے پاس ایک آزمودہ نسخہ زیر استعمال ہے کہ کسی ’’غم‘‘ کو بھلانے کے لیے اس سے بھی ’’بڑے غم‘‘ کی گود میں پناہ لے لی جائے جسے بخار سے چھٹکارا پانے کے لیے موت سے زیادہ اچھا نسخہ اور کوئی نہیں ہوتا لیکن کبھی کبھی واقعی ’’آزادی‘‘ کے لیے بھی ہاتھ پاؤں مارنا پڑتے ہیں لیکن اس کے لیے بزرگوں کی کتابوں میں ایک تیر بہدف نسخہ ملا۔ وہ ’’غم‘‘ سے بھی زیادہ غم ناک نکلا۔ یعنی درد سر کے واسطے صندل لگانا ہے لیکن اس کا کوٹنا اور گھسنا بھی تو بہت بڑا ’’سر درد‘‘ ہوتا ہے یا کسی کا یہ قول زرین کہ عورت سو بیماریوں کا علاج ہے لیکن خود بھی سوا دو سو بیماریوں کی جڑ ہے۔ یہ نسخہ غم علاج ملاحظہ فرمایے:

چہار چیز زدل غم برد، کدام چہار

شراب و سبزہ و آب رواں و روئے نگار

یعنی چار چیزیں دل سے ’’غم‘‘ کو دور کرتی ہیں، شراب، سبزہ، بہتا ہوا پانی اور محبوب کا چہرہ۔ گویا وہی بات ہوئی جس کا ہم رونا رو رہے ہیں، اب پہلا جو آئٹم ہے ’’شراب‘‘ اس کی تو آج تک ہم نے شکل تک نہیں دیکھی ہے صرف کباڑیوں کی دکانوں پر آنیوالی خالی بوتلوں سے اتنا اندازہ ہوتا ہے کہ ’’ہے‘‘ تو سہی لیکن ہم جیسوں کے لیے ’’ہے نہیں ہے‘‘۔ مطلب یہ کہ یہ وہ ’’رادھا‘‘ ہے جسے نچانے کے لیے ’’نو من‘‘ تیل در کار ہوتا ہے اور ہمارے پاس ’’نوقطرے‘‘ تیل بھی نہیں ہے کہ نہ تو ’’تیلستانوں‘‘ کے کسی شہزادے سے تعلق ہے اور نہ ولی عہدوں وغیرہ سے۔ گویا

نے سبحہ سے علاقہ نہ ساغر سے واسطہ

میں معرض مثال میں دست بریدہ ہوں

نومن تیل صرف ’’نو مین لینڈز‘‘ اور نو مین بنگلوں میں بہتا رہتا ہے چنانچہ اس آئٹم کو ہم نے نسخے سے ہی نکال دیا کہ چلو باقی اجزاء سے کام چلالیں گے۔ دوسرے نمبر پر ’’سبزہ‘‘ تھا جو بظاہر آسان لگا لیکن تلاش میں نکلے تو لوہے سمینٹ شیشے اور فولادی تاروں کی جنگل میں اس کا وجود تک نہیں تھا کہ زمین آج کل فصلوں کی بجائے ’’فصیل‘‘ بوئے جانے لگے ہیں۔ فاصلے فاصلے پر کالونیاں، ٹاون شپ اور انکلیو آگ رہے ہیں بلکہ اب تو حکومت نے بھی ایک کروڑ گھروں کا ٹھیکہ انصاف دارو کو دے دیا ہے۔

کبھی کبھی ہم ان ایک کروڑ گھروں کے لیے سوچتے ہیں تو یہ فکر ہوتی ہے کہ ان ایک کروڑ گھروں کے لیے رہائشی کہاں سے لائے جائیں گے کیونکہ بیس کروڑ لوگ تو اب بھی خیموں میں نہیں گھروں میں رہ رہے ہیں اگر اکا دکا بے گھر ہیں بھی تو ان کے لیے شہروں میں یہ بڑے بڑے پل تعمیر کیے گئے جنکے نیچے رہائش کا نہایت ہی بہترین انتظام ہے کہ نہ بجلی پانی گیس وغیرہ کے بل ہیں نہ چوری چکاری کا خطرہ ہے نہ چھت ٹپکنے کا خدشہ۔ خیر وہ حکومت کا مسئلہ ہے جہاں اتنا کچھ دساور سے منگوایا جاتا ہے وہاں ان گھروں کے لیے رہائشی لانا کونسا مشکل ہے کہ قرض اور مانگنے میں بھی اسے یدطولیٰ حاصل ہے:

تم شہر میں ہو تو کیا غم جب اٹھیں گے

لے آئیں گے بازار سے جا کر دل و جاں اور

سبزہ کے سلسلے میں ہم یہ بھول گئے کہ یہ ملک بنا ہی سبزے کی بنیاد پر ہے۔ جانیوالوں نے اپنی آنکھوں کا رنگ تو یہاں ہی چھوڑا ہوا ہے۔ موسم لیگ جسکا سب کچھ سبز ہے یہاں تک کہ قدم بھی اور پھر اس سے جو شاخیں پھوٹتی ہیں یعنی اسی پنیری سے جو ’’کھیت‘‘ بھرے جاتے ہیں ان میں بھی سبزہ ہی سبزہ ہوتا ہے یعنی سبز رنگ ہر ایک کے جھنڈے میں ہوتا ہے اور سب جھنڈوں کے نیچے ’’ڈنڈا‘‘ بھی وہی سبز ہی ہوتا ہے۔ پشتو میں کہاوت ہے کہ کسی میں سو ’’گن‘‘ اور ہونگے مگر ایک ’’گن‘‘ ماں کا ضرور ہو گا۔ جھنڈوں میں چاہے کتنے رنگ اور ہوں سبز رنگ ضرور ہوتا ہے

رنگیلارے ترے رنگ میں

یوں رنگا ہے میرا من

گویا غم دور کرنے کا دوسرا آئٹم بھی ہاتھ سے گیا کیونکہ اس ’’سبز‘‘ رنگ سے ہمیں اتنی الرجی ہے کہ نام سن کر ہی سر تا پا ’’سبز‘‘ ہو جاتے ہیں۔ یہاں ایک حقیقہ دمُ ہلا رہا ہے، پرانا ہے لیکن حسب حال ہے، ہوا یوں کہ پاکستان کی ابتدا میں جب مرد آہن ڈبل بیرل خان عبدالقیوم خان کی حکومت آ گئی یا صوبے کو وہ لاحق ہو گیا تو اس نے مقابلوں کے ساتھ ساتھ اپنے مسلم لیگیوں کا بھی بینڈ بجا دیا لیکن ایک پیر آف مانکی شریف امین الحسنات مقابلے میں ڈٹے رہے انھی دنوں پبی کے ایک صاحب ذوق مولانا جن کا تعلق خدائی خدمتگاروں سے تھا، ایک لطیفہ تصنیف کر کے اڑا دیا کہ روز ازل جب میں نے فرشتوں سے گزارش کی کہ دنیا بڑی خراب جگہ ہے، مجھے پیدا کر کے مت بھیجئے لیکن انھوں فرمایا کہ یہ تو ممکن نہیں تمہیں ضرور جانا ہو گا۔

اس پر میں نے عرض کیا کہ ٹھیک ہے آپکا حکم سر آنکھوں پر لیکن اتنی مہربانی کریں کہ ایک تو مجھے ’’مسلم لیگی‘‘ بنا کر مت بھیجئے اور دوسرے کسی پیر کا مرید بنا کر نہ بھیجئے، مجھے یہ دونوں پسند نہیں ہیں۔ رب ذولجلال نے فرمایا ٹھیک ہے کیونکہ یہ دونوں مجھے بھی پسند نہیں ہیں ۔ یہ لطیفہ اڑتے اڑتے پیر صاحب تک پہنچا، پیر صاحب بڑے دل اور ذوق والے تھے چنانچہ ایک دن گزرتے ہوئے انھوں نے پبی میں گاڑی رکوائی اور سیدھے اس مولانا کی مسجد جا پہنچے۔

عصر کا وقت تھا، مولانا نماز پڑھا کر فارغ ہو چکے تھے کہ پیر صاحب نے جا پکڑا اور کہا وہ لطیفہ مجھے اپنی زبان سے سنا دیجیے۔ کچھ جھجک اور پس و پیش کے بعد مولانا راضی ہوئے اور لطیفہ سنانا شروع کیا، جب اس مقام پر پہنچے کہ خدا نے فرمایا کہ یہ دونوں یعنی مسلم لیگی اور پیر صاحب کے مرید مجھے بھی پسند نہیں ہیں تو پیر صاحب نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کان میں چپکے سے کہا۔ مولانا پسند یہ دونوں مجھے بھی نہیں لیکن کیا کروں پھنس چکا ہوں۔

اب سبزے کے بعد جو دو آئٹم ’’آب رواں‘‘ اور ’’روئے نگار‘‘ بچے ہیں تو آب رواں تو صرف گٹروں اور نلکوں میں دستیاب ہے اور ’’روئے نگار‘‘ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ’’نگاروں‘‘ کا چہرہ میک اپ تلے دکھائی ہی نہیں دیتا جب کہ اوپر سے یہ ’’ہراسانی‘‘ کی تلوار بھی لٹکی ہوئی ہے گویا یہ نسخہ بھی کم از کم ہمارے کام کا نہیں ہے اس لیے کوئی اور نسخہ ڈھونڈینگے لیکن ہمارے خیال میں اس نسخے سے بہتر اور کوئی نسخہ نہیں کہ ایک ’’غم‘‘ کو دوسرے بڑے غم کے نیچے دبایا جائے اور اس کے لیے کسی تردد کی ضرورت ہی نہیں کہ حکومت نے یہ ذمے داری اپنے اوپر لے رکھی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔