ٹوٹتی پھوٹتی پارلیمینٹ

جاوید قاضی  اتوار 5 مئ 2019
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

صدارتی نظام ہو یا پارلیمانی نظام، دونوں کے تجربے ہمارے پاس ہیں، دونوں چل نہیں پائے۔ پارلیمانی نظام اس کے لیے جو جز تھے اس کو مستحکم کرنے کے لیے وہ اپنی ماہیت میں صحیح طرح سے پراسزکی بھٹی سے ابھی پک کر نہیں نکلے تھے۔ سیاسی پارٹیاں کمزور ان کے ووٹرزکمزور تر ۔ ملک کے اکثریتی نشستوں سے جیتنے والے جدی پشتی یہی کام کرتے رہے، ان کے اپنے مزارعے تھے، ڈیرے تھے ۔

ایک مضبوط مڈل کلاس بن نہ پائی ۔کراچی سے لاہور اور بڑے بڑے شہروں میں جہاں جاگیرداری مضبوط نہ تھی ، مڈل کلاس تو تھی مگر آمریتوں کے بیانیہ سے ان کی علیک سلیک تھی۔ جمہوریت کے لیے اگر اس ملک میں سب سے بڑی تحریک چلی تو وہ دیہی پاکستان تھا اور وہ فقط سندھ سے ابھر کر نکلی۔ صحیح کہتے ہیں آئی ایس پی آر کے ترجمان ، 71ء کے سانحہ کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس وقت میڈیا متحرک نہ تھا ، جیسا کہ اب ہے۔ اس وقت پورا پنجاب ایک بیانیہ کی چھتری کے نیچے کھڑا تھا اور ووٹنگ ٹرن آئوٹ 69% تھا اور ذوالفقارعلی بھٹو اسٹیبلشمنٹ کے پسندیدہ تھے۔

ایسٹ پاکستان میں بھرپور مڈل کلاس تھی ۔ جاگیردار و نواب نہ تھے۔ پھرکیا ہوا ویسٹ پاکستان نے ایسٹ پاکستان سے جان چھڑوانا چاہی ۔ بنگلا دیش کسی اور نے نہیں ایوب کے صدارتی نظام نے بنایا اور اس سے پہلے کی اقتداری کشمکش نے ۔ صدر ایوب کون تھے، صدرجنرل یحیی کون تھے، صدر پاکستان جنرل ضیا الحق کون تھے اور پھر صدر جنرل پرویز مشرف کون تھے۔ جب نظریہ ضرورت سے آمریت نے سرٹیفیکٹ لیا تو پھر آٹھویں ترمیم اور پھر سترھویں ترمیم سے یہ ٹھپے پارلیمنٹ سے بھی لگوائے گئے۔ پھر اٹھارویں ترمیم نے یہ ٹھپے مسترد کردیے اور اب پھر یہ ٹھپے لگنے کے زمانے آئے اس لیے کہ پارلیمانی جمہوریت چل نہیں پائی۔

’’جس کی بہار یہ ہو اس کی خزاں نہ پوچھ‘‘

جس جمہوریت کے پارلیمانی نظام کے رہبر نواز شریف یا زرداری ہوں یا خود وہ الیکٹیبلز ہوں جوکہ مجبور ہیں الیکشن میں پارٹی ٹکٹ دینے کے لیے تو پھر صدارتی نظام کی بازگشت کیوں نہیں سننے کو ملے گی اور پھر شہباز شریف بلآخر لندن میں ہی قیام پذیر ہوگئے۔’’ اک شمع ہے دلیل سحر سو خموش ہے‘ پوری مسلم لیگ نون کا بٹھہ بیٹھ گیا ۔ یقینا جو شعلہ بیانیاں تھیں بلاول بھٹو کی اس پر بھی یہ اپنا گرہن چھوڑیں گی۔

آخر شب کے ہمسفر فیضؔ نہ جانے کیا ہوئے

رہ گئی کس جگہ صبا، صبح کدھر نکل گئی

نیب کا ہارن بجتا رہا ۔ معیشت سکڑتی رہی ۔ بھوک اور افلاس نے اپنے پنجے گاڑھ دیے۔ دور تک آئی ایم ایف آتا نظر نہیں آتا، نہ کوئی ہماری ایکسپورٹ بڑھنے کی کوئی امید ہے۔ایک طویل دورانیے کی ابتری ہے جواس مملکت خدا داد کی دہلیز پر کھڑی ہے۔اور ہم پر ہنس رہی ہے۔

خان صاحب سمجھتے ہیں کہ وہ اور ان کے فیصل واوڈا سب کچھ ٹھیک کردیں گے یہ ان کی غلط فہمی ہوگی ۔ تاریخ ان کو محمد خان جونیجو، ظفراللہ جمالی اور شوکت عزیزکے صف میں کھڑی کرے گی کہ یہ خود وزیر اعظم ہیں اور صدارتی نظام کی باز گشت ہے ۔ فیصلے کہاں ہو رہے ہیں ، یہ سب کو پتہ ہے۔

پیام بر نہ میسر ہوا تو خوب ہوا

زبانِ غیر سے کیا شرح آرزو کرتے

ہماری عدالتیں صدارتی نظام سے نہیں پارلیمانی نظام سے مضبوط ہوتی ہیں ۔ بھرپور اور مضبوط پارلیمینٹ ، وزیراعظم اور اس کی کابینہ کو جواب دہ بناتی ہے۔ آزاد عدلیہ اس امر کو یقینی بناتی ہے کہ آئین میں اس حد تک ترمیم نہ ہو ،جس سے کوئی آمر پیدا ہوجائے۔ جس طرح ہندوستان کی سپریم کورٹ نے اندرا گاندھی کا راستہ روک دیا تھا ۔اس طرح ہماری عدلیہ کی آزادی کی جدوجہد نے جنرل مشرف کو رخصت کیا کیونکہ سیاسی پارٹیاں ان کے سربراہ جلاوطن تھے۔ سیاست اتنی متحرک نہیں تھی جتنی جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں تھی مگرگئے وہ بھی C130 میں تھے، کسی تحریک سے نہیں۔

ہم ایک مخصوص بیانیہ کے بھنور میں پھنس گئے ہیں۔ ہمارے ا قتداری کشمکش ہمارے کلاس سٹرکچر کی عکاس ہے۔ ابھی کروڑوں ہیں جو دیہی روایات میں جکڑے ہوئے ہیں اور جو شہر ی ہیں ان کی اکثریت دائیں بازو کی سیاست کو پسند کرتی ہے اور پھر لیجیے یہ پارلیمنٹ جو دم توڑ رہی ہے۔ یہ تو ٹھیک ہے کہ اس سے پہلے جو بھی صدارتی نظام آئے وہ جمہوریت کو پٹڑی سے اتار کر آئے پھر نظریہ ضرورت سے سرٹیفکیٹ لیا پھر پارلیمنٹ سے بھی مگر اس بار اس طرح نہیں اس بار آئین میں ترمیم کے ذریعے آئیگا اور اگر دوتہائی اکثریت بھی مل جاتی ہے توکیا صدارتی نظام آسکتا ہے؟

اگر ہمارے آئین کے بنیادی ڈھانچے کی کوئی تھیوری ہے تو پارلیمنٹ اس حد تک ترمیم نہیں کرسکتی جس سے اس کا بنیادی ڈھانچہ ہل جائے۔ ہندوستان کی سپریم کورٹ نے کیشوندا کیس میں اپنے آئین کے چار بنیادی نقاط وضع کیے اور اس طرح پارلیمینٹ کی ترمیم کے اختیارکو محدود کیا، وہ بنیادی نقاط تھے، سیکیولر ازم ، وفاقیت، پارلیمانی نظام اور آزاد عدلیہ ۔ ہماری سپریم کورٹ نے بھی ہمارے آئین کے بنیادی ڈھانچے کو وضع کیا ہے۔ اس میں ماسوائے سیکیولرازم باقی عنصر وہی ہیں جو ہندوستان کے سپریم کورٹ نے اپنے آئین کے لیے وضع کیے ہیں، مگر ہمارے ہاں ابھی تک یہ طے نہیں ہوسکا کہ اقتدار کا سرچشمہ عوام ہیں یا کوئی اور۔ اور جہاں نظریہ ضرورت ابھی دفن نہیں ہوسکا ۔ اور اب اگر صدارتی نظام آہی گیا تو پھر یہ بھی پتہ نہیں کہ صدر پاکستان کون ہوگا ؟ جس کے پاس حکومت کے اختیار بھی ہوں گے اور ریاست کا سربراہ بھی وہی ہوگا۔

اس ملک میں جب بھی صدارتی نظام آیا ہے توسب سے بڑی چوٹ وفاقیت کو لگی ہے وہ شاید کسی اورکو لگی ہوگی۔

ہم سادہ ہی ایسے تھے کہ یوں ہی پذیرائی

جس بار خزاں آئی سمجھے کہ بہار آئی

ہم تو سمجھتے تھے کہ تبدیلی آگئی،آئی تبدیلی تو تبدیلی کے اس حال نے دل توڑ دیا۔ خان صاحب بیچارے خود ہی یہ بحث کروا رہے ہیں کہ صدارتی نظام آئے اور بھلے چھین لے جائے مجھ سے میری حیثیت کہ جس حکومت کا سربراہ ہوں اور بھلے پہنا دیجیے یہ تاج اس کو جو پارلیمینٹ کا حصہ نہیں عوام سے ووٹ لے کے آیا نہیں ۔

شہباز شریف نے جوکام کیا ہے شاید ہی کسی اور نے ایسا کیا ہوکہ خود اسی پارلیمنٹ کو کمزورکیا، جو اس وقت اس ملک کے لیے امید کی کرن تھی اور حکومت حزب اختلاف کے سامنے کھڑی نہیں ہو پا رہی تھی۔

میرے دوست آئین کے فلسفے کے شاگرد نہیں ، فقط آئین کے شاگرد ہیں،جب کہ آج یہ جو صورتحال بنی ہے کہ اس کے جواب آئین میں نہیں آئین کے فلسفے میں ہیں ۔

جس جمہوریت میں سندھ کے ہزاروں ارب روپے جو این ایف سی کی مد میں لوٹ لیے گئے ہوں ، جس طرح سے میاں صاحب کے میگا پروجیکٹ ترقی کے پیمانوں کے عین عکاس نہیں تھے ۔ وہ تو صرف شو پیس تھے ۔ یہ جمہوریت جن کے ہاتھ میں ہے وہ خود بھی اس جمہوریت کے اپنے اعمال کی وجہ سے اس کے قاتل بنے ہیں اور باقی کسر جو تھی وہ ہماری اسٹیبلشمنٹ نے پوری کردی۔

دل تو روتا رہے اور آنکھ سے آنسو نہ بہیں

عشق کی کچھ ایسی روایات نے دل توڑ دیا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔