کرکٹرز ہی کرکٹ کے دشمن ہیں

سلیم خالق  اتوار 5 مئ 2019
اب بورڈ میں ایم ڈی کی نئی پوسٹ تخلیق کی گئی، وسیم خان بھی ایسا لگتا ہے پاکستان کے رنگ میں رنگ گئے ہیں۔ فوٹو: فائل

اب بورڈ میں ایم ڈی کی نئی پوسٹ تخلیق کی گئی، وسیم خان بھی ایسا لگتا ہے پاکستان کے رنگ میں رنگ گئے ہیں۔ فوٹو: فائل

ایک بات پوچھوں آپ بْرا تو نہیں مانیں گے، گذشتہ دنوں ایک سابق ٹیسٹ کرکٹر سے جب میں نے یہ کہا تو وہ چونک گئے، انھوں نے چائے کا کپ ٹیبل پر رکھا اور بڑی سنجیدگی سے میری طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا کہ ’’میچ فکسنگ کے حوالے سے کچھ نہ پوچھنا باقی پوچھ لو، ویسے مجھے یہ یاد دلانے کی ضرورت نہیں کہ تمہاری مجھ سے یہ ملاقات بطور صحافی نہیں بلکہ دوست ہو رہی ہے‘‘۔

میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا جی بھائی بالکل ایسی ہی بات ہے،میں صرف یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آپ کے پاس اب اتنا زیادہ پیسہ ہے، جائیدادیں ہیں، پھر بھی آپ کے بارے میں مشہور ہے کہ۔۔۔، میں کچھ کہتے کہتے رک گیا اور ان کے چہرے کے تاثرات دیکھنے لگا، پھر وہ خود ہی بول پڑے’’ہاں یہی نہ کہ میں پیسے کے پیچھے بھاگتا ہوں ہا ہا ہا، دیکھو سلیم یہ بات بالکل ٹھیک ہے، میرے پاس بہت دولت ہے مگر میں اب بھی چاہتا ہوں کہ اسے مسلسل بڑھاتا جاؤں، میں نے بچپن میں بہت غربت دیکھی ہے، میں اب نہیں چاہتا کہ دوبارہ ایسا وقت آئے اور میرے بچوں کو کسی چیز کی کمی کا سامنا ہو، بس اسی ڈر سے دو کو چار اور چار کو آٹھ کرنے میں لگا رہتا ہوں، بس اب کچھ اور نہیں پوچھنا اور ویسے بھی اب وقت کافی ہوگیا ہے، باقی باتیں پھر کسی اور ملاقات میں کریں گے‘‘۔

میں سمجھ گیا تھا کہ انھیں میرا بے باک انداز پسند نہیں آیا لہذا وہاں سے چلا گیا لیکن مجھے میرے سوال کا جواب نہیں مل سکا تھا، ایک پی ایس ایل فرنچائز اونربھی اکثر یہی بات کرتے ہیں کہ ’’سابق کرکٹرز کے فون آتے رہتے ہیں، کوئی کہتا ہے فلاں کو ہٹا کر مجھے کوچ بنا دو، کسی کی خواہش ہوتی ہے مشیر کا عہدہ مل جائے، ساتھ میں سب کروڑوں کی ڈیمانڈ بھی سامنے رکھ دیتے ہیں، انھیں لگتا ہے ہم فرنچائز والوں کے پاس ایسے درخت ہیں جن میں نوٹ اگتے ہیں‘‘۔

ایسا کیوں ہوتا ہے یہ بات سمجھ سے باہر ہے،امریکا کے مشہور ڈاکٹر کاشف انصاری ہر چند دن بعد ہزاروں میل کا سفر کر کے ہیوسٹن سے کراچی آ جاتے ہیں، میں نے وجہ پوچھی تو بتایا کہ ’’اس مٹی کا مجھ پر قرض ہے، میں یہاں ڈاؤ میڈیکل کالج سے پڑھا، اب میری کوشش ہوتی ہے کہ ایسے کام کروں جس سے لوگوں کا بھلا ہو جائے، عمیر ثنا فاؤنڈیشن تو آپ کے سامنے ہے باقی اور بھی کچھ کرتا ہوں مگر کیا یہ نہ پوچھے گا تشہیر سے نیکی کا مقصد ختم ہو جاتا ہے‘‘۔

انھوں نے مجھے کئی اور ڈاکٹرز کا بھی بتایا جو بغیر کسی صلے کے نوجوانوں کو ڈاکٹر بننے میں مدد فراہم کر رہے ہیں، پروفیسر اعجاز فاروقی کراچی کرکٹ کی ایک بڑی شخصیت ہیں، وہ کراچی یونیورسٹی سے پڑھے اور وہاں کروڑوں روپے خرچ کر کے شعبہ کیمسٹری کی نئی عمارت بنوا دی، اس طرح کئی اور لوگ بھی ہیں، مگر کیوں ہمارے سابق کرکٹرز ایسا نہیں کرتے، انھیں کیوں ہر وقت پیسہ چاہیے جس کے بغیر وہ بیٹ کو ہاتھ لگانے کو تیار نہیں ہوتے؟

یہاں کرکٹ کی ’’خدمت‘‘ کیلیے تنخواہ دار سلیکٹر یا کوچ ہی بننا ہے، یا پھر بورڈ میں کوئی علامتی سا عہدہ مل جائے مگر ہر ماہ تنخواہ کا چیک ضرور موصول ہونا چاہیے، کبھی کوئی اعزازی خدمات دینے کیلیے تیار نہیں ہوتا،آج تک کبھی آپ نے سنا کہ کسی کھلاڑی نے اپنے طور پر ٹیلنٹ ہنٹ کیمپ لگایا یا نوجوان کھلاڑیوں کی رہنمائی کیلیے کوئی سنجیدہ کام کیا، شاذونادر ہی ایسی مثالیں دیکھنے کو ملیں گی،یہ آج جو وسیم اکرم آپ کو اکثرپاکستان میں مختلف مقامات پر نظر آ جاتے ہیں، ابھی آپ بھارت میں ان کی انٹری کھلوا دیں، پھر تصاویر میں ہی دکھائی دیں گے، وہ تو کوئی مشروب ساز ادارہ اسپانسر کرے تو ہی ٹیلنٹ تلاش کرنے جاتے تھے۔

رمیز راجہ اور شعیب اختر کے ساتھ بھی ایسا ہی ہے، بس بھارت سے لفٹ ملنے کی دیر ہے پھر آپ ڈھونڈھتے ہی رہ جائیں گے،انضمام الحق ایک فرنچائز کیلیے ٹیلنٹ کی تلاش کیلیے نکلے،پلیئرتو کوئی نہیں ملا ہاں مگر 50 لاکھ روپے سے زائد رقم ضرور مل گئی، شعیب اختر نے کس ایکسپریس پیسر کا ملک کو تحفہ دیا؟

اسی طرح مجھے صرف یہ بتا دیں کہ جاوید میانداد نے کیا ہمیں کوئی اچھا بیٹسمین تیار کر کے دیا،وسیم اکرم نے کتنے لیفٹ آرم سیمرز بنائے، وقار یونس نے کس اسپیڈ اسٹار کو متعارف کرایا، انضمام الحق نے ملک کو کون سا بیٹسمین دیا؟ باسط علی، محسن خان جیسے سابق کرکٹرز میڈیا میں آ کر تندوتیز باتیں کرتے ہی اسے لیے تھے کہ حکام ڈر کر انھیں کوئی عہدہ سونپیں، چیک دیکھ کرزبان پر تالے خودبخودلگ جاتے ہیں، سابق کرکٹرز کا مسئلہ ہی یہی ہے انھیں جب تک ملازمت یا کوئی اور فائدہ نہ ملے سب کچھ برا لگتا ہے، جیسے ہی کوئی ذمہ داری مل جائے پی سی بی دنیا کا سب سے اچھا ادارہ بن جاتا ہے۔

جب تک ایسا ہو گا کچھ بہتر نہیں ہو سکتا، ملکی کرکٹ میں خامیاں نکالنے سے پہلے سابق کرکٹرز کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے کہ انھوں نے ملک کو کیا لوٹایا، جب کبھی مجھے کرکٹ بورڈ میں تبدیلی کا گمان ہوتا ہے گوگل پر ذاکر خان کی تصویر تلاش کر کے دیکھ لیتا ہوں، وہ ہمارے ناکام سسٹم کا منہ بولتا ثبوت ہیں،اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آصف زرداری، نواز شریف یا عمران خان کوئی بھی ہوں اپنوں کو نوازنے کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا، سب جانتے ہیں کہ ذاکر کو صرف عمران خان سے قربت کی وجہ سے کئی برس نجم سیٹھی نے بغیر کام کیے تنخواہ دی۔

انھیں ڈر تھا کہ اگر دوست کو برطرف کیا تو سابق کپتان مزید مخالف ہو جائیں گے، پھر حکومت میں تبدیلی آتے ہی سابق چیئرمین نے اپنی کرسی پکی کرنے کیلیے ذاکرخان کو منہ مانگی پوسٹ دینے کی پیشکش کی،بعد میں احسان مانی سے پہلے ہی ذاکر کی بطور ڈائریکٹر ہی واپسی ہوئی اور اب ان کی چال میں پہلے سے زیادہ شان آ گئی ہے۔ اسی طرح جاوید میانداد کو آج نوجوان کرکٹرز کے بے روزگار ہونے کا ’’غم‘‘ ستا رہا ہے، مگر جب قریبی دوست سابق صدر آصف زرداری نے اعجاز بٹ سے کہہ کر ان کیلیے پی سی بی میں ڈائریکٹر جنرل کی علامتی پوسٹ تخلیق کرائی تو کئی برس کیا کام کیا؟

اس وقت تو 5 لاکھ روپے ماہانہ بھی بڑی رقم ہوتی تھی، اگر انھیں کام نہیں کرنے دیا جا رہا ہے تو عہدہ چھوڑا کیوں نہیں؟ وہ تو جاتے جاتے اپنے زیراستعمال بورڈ کی قیمتی گاڑی بھی کوڑیوں کے دام لے گئے تھے۔

اب بورڈ میں ایم ڈی کی نئی پوسٹ تخلیق کی گئی، وسیم خان بھی ایسا لگتا ہے پاکستان کے رنگ میں رنگ گئے ہیں، انھیں چھٹیاں لے کر اپنے ملک برطانیہ جانے کی کوئی ضرورت ہی نہیں، بس کوئی سرکاری کام نکال لیا اور مفت کا دورہ ہو گیا، جیسے ان دنوں وہ کاؤنٹی ٹیموں سے ’’مذاکرات‘‘ کرنے گئے ہوئے ہیں، آفیشل طورپر وہ کام سے گئے لہذا آنے جانے کے اخراجات، الاؤنسز، رہائش وغیرہ بھی یقیناً مفت ہو گی، ساتھ گھر والوں سے ملاقات بھی ہو جائے گی، چیئرمین احسان مانی بھی ان دنوں انگلینڈ میں ہی ہیں، سنا ہے بعض دیگر اعلیٰ آفیشلز بھی ان دنوں بیرون ملک ہیں، یوں عملاً پی سی بی ان دنوں خالی پڑا ہوا ہے۔ خیر ہم تو صرف نشاندہی ہی کر سکتے ہیں، دیکھتے ہیں معاملات کب ٹھیک ہوتے ہیں فی الحال تو ایسی کوئی امید نظر نہیں آتی۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔