مشکل انگلش کنڈیشنز میں عمدہ بیٹنگ نیک شگون

عباس رضا  اتوار 5 مئ 2019
ورلڈ کپ میں قومی ٹیم سے بہتر کارکردگی کی امیدیں۔ فوٹو: فائل

ورلڈ کپ میں قومی ٹیم سے بہتر کارکردگی کی امیدیں۔ فوٹو: فائل

انگلینڈ کی کنڈیشنز پاکستان کیلئے ہمیشہ سازگار رہی ہیں، کئی یادگار لمحات یہاں کے میدانوں پر دیکھنے کو ملے۔

ورلڈ کپ 1999 میں گرین شرٹس نے مسلسل فتوحات سمیٹیں، بنگلہ دیش کے ہاتھوں شکست جیسی انہونی بھی ہوئی، فائنل میں آسٹریلیا نے مات دے کر ٹائٹل کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہونے دیا، مصباح الحق کی قیادت میں پاکستان ٹیسٹ ٹیم نے 2016 میں سیریز برابر کرتے ہوئے عالمی رینکنگ میں اپنی پوزیشن بہتر بنائی جس کے نتیجے میں گرین کیپس اپنی تاریخ میں پہلی بار عالمی نمبر ون ٹیم کا اعزاز پانے میں کامیاب ہوئے۔

چیمپئنز ٹرافی 2017 میں پاکستان کا شمار کمزور ترین ٹیموں میں کیا جا رہا تھا، گرین شرٹس نے بڑی مشکل سے ایونٹ کیلئے کوالیفائی کیا تھا، آغاز بھی زیادہ اچھا نہیں ہوا لیکن اس کے بعد تسلسل کے ساتھ کامیابیاں سمیٹتے ہوئے فائنل میں بھارت کو شکست دے کر پہلی بار ٹائٹل پر قبضہ جمایا، یاد رہے کہ کسی آئی سی سی ایونٹ میں بھارت کے خلاف پاکستان کی یہ پہلی فتح بھی تھی۔

2018 میں سرفراز احمد کی قیادت میں پاکستان ٹیم انگلینڈ کے خلاف سیریز برابر کی،روایتی طور پر انگلش میدانوں پر پاکستان کے تجربہ کار کھلاڑیوں کے ساتھ چند ایک نئے سٹارز بھی خوب چمکتے ہیں، چیمپئنز ٹرافی سے قبل فخرزمان کی پی ایس ایل میں کارکردگی کی بنیاد پر ہی تھوڑی بہت پہچان تھی لیکن اس ایونٹ کے بعد وہ دنیا بھر میں جانے اور مانے گئے اور آج پاکستان کے سپر سٹارز میں شامل ہوتے ہیں۔

شاداب خان نے کم عمری میں ہی اپنی دھاک بٹھاتے ہوئے خود کو بہترین آل راؤنڈر ثابت کی، فہیم اشرف نے مواقع ملے تو اپنی صلاحیتیں ثابت کیں، نوجوان کھلاڑیوں کی آمد سے پاکستان کی فٹنس اور فیلڈنگ کے معیار میں بھی نمایاں بہتری دیکھنے میں آئی۔

اس بار میگا ایونٹ سے قبل پاکستان نے کینگروز کے خلاف سیریز میں اہم کھلاڑیوں کو آرام دینے کا انوکھا فیصلہ کیا، گرچہ ’’بی‘‘ ٹیم پانچوں میچز ہارگئی لیکن حارث سہیل، عابد علی اور محمد رضوان نے اپنی صلاحیتوں کی جھلک دکھلائی،یواے ای میں کھیلی جانے والی تجرباتی سیریز تو ماضی کا قصہ بن چکی، ورلڈکپ میں سرفراز احمد کو سینئرز اور جونیئرز کے امتزاج سے تشکیل دیئے جانے والا سکواڈ میسر ہے۔

ٹاپ آرڈر میں فخر زمان اور امام الحق کے ساتھ ڈومیسٹک کرکٹ میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے عابد علی کو بھی شامل کیا گیا ہے، اوپنر ناصرف کہ ڈیبیو میچ میں کینگروز کے خلاف سنچری سکور کر کے روشن مستقبل کی نوید سنا چکے ہیں بلکہ وکٹ کیپنگ کی اضافی خوبی کی وجہ سے سرفراز احمد کا بیک اپ بھی ہیں، ون ڈے رینکنگ میں پاکستان کے سب سے کامیاب بیٹسمین بابر اعظم کیلئے انگلش کنڈیشنز سازگار اور ان کی فارم بھی اچھی ہے۔

حارث سہیل فٹنس مسائل سے نجات پانے کے بعد چند پر اعتماد اننگز کھیل چکے ہیں، پاکستان نے ایک نوجوان کھلاڑی محمد حسنین کو ناتجربہ کار ہونے کے باوجود سپیڈ کی بنا پر سکواڈ میں شامل کیا ہے،پی ایس ایل میں دھوم مچانے والے دراز قامت قامت پیسر 150 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گیند کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، انگلینڈ کے خلاف ون سیریز کے دوران ردھم میں آگئے تو پاکستان کیلئے ’’ایکس فیکٹر‘‘ ثابت ہوسکتے ہیں، شائقین کرکٹ فخرزمان اور شاداب خان کے بعد انگلش سرزمین پر ایک نئے سٹارز کے ابھرنے کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔

ورلڈکپ کی تیاریوں کیلئے قبل ازوقت انگلینڈ پہنچنے والی پاکستان ٹیم کو گرچہ آغاز میں ہر بڑا دھچکا لگا ہے، شاداب خان خطرناک وائرس کا شکار ہونے کی وجہ سے زیر علاج ہیں،ذرائع کے مطابق ان کو ہیپاٹائٹس سی کی شکایت ہے،اس مرض میں علاج مکمل ہونے پر مریض بڑی نقاہت کا شکار ہوجاتا ہے، شاداب خان کا علاج ہوبھی کیا تب بھی ورلڈکپ میں شرکت کے قابل ہوں گے یا نہیں کچھ نہیں کہا جاسکتا، مینجمنٹ اور کپتان سرفراز احمد ان کی دستیابی کیلئے پر امید ہیں۔

شاداب خان انگلش کنڈیشنز میں گگلی کا بہتر استعمال کرنے میں مہارت رکھتے، بہترین فیلڈر اور کارآمد بیٹسمین ہیں، ان کا خلا پر کرنے کی کوشش بھی ناکام نظر آتی ہے، یاسر شاہ محدود اوورز کی کرکٹ میں اپنی افادیت ثابت نہیں کرسکے، محمد حفیظ ہاتھ کے کامیاب آپریشن کے بعد بحالی کیلئے کوشاں ہیں، امید ہے کہ انگلینڈ کے خلاف ون ڈے سیریز کے تیسرے میچ کیلئے دستیاب ہوجائیں گے، ان کی فارم اور فٹنس پاکستان ٹیم کیلئے بڑی اہمیت کی حامل ہے، شاداب خان کی غیر موجودگی میں بطور بولر بھی ان کا کردار اہم ہوجائے گا۔

شعیب ملک پہلا پریکٹس میچ کھیلنے کے بعد نجی مسائل کی وجہ سے 10دن کی رخصت پر چلے گئے تھے، ان کی واپسی انگلینڈ کے خلاف دوسرے میچ سے قبل متوقع ہے۔ چند کھلاڑیوں کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال کے باوجود پاکستان ٹیم نے کاؤنٹیز کے خلاف تینوں پریکٹس میچز میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کامیابی حاصل کی ہے، فخرزمان نے کینٹ کے خلاف 76رنز بنانے کے بعد نارتھمپٹن شائر کے خلاف سنچری بنائی، دونوں ایک روزہ میچز کے بعد لیسٹر شائر کے ساتھ ٹی ٹوئنٹی میں بھی انہوں نے 30گیندوں پر52کی اننگز کھیلی، چیمپئنز ٹرافی کی فتح کے ہیرو کا انگلینڈ میں تسلسل کے ساتھ رنز بنانا پاکستان ٹیم کیلئے نیک شگون ہے۔

بابر اعظم پہلے میچ میں جلد آؤٹ ہوگئے تھے، دوسرے میں 68پر ناقابل شکست رہے،ٹی ٹوئنٹی میں صرف 63گیندوں پر 101کی اننگز تراش کر بھرپور فارم میں واپسی کا اعلان کردیا،مشکوک فٹنس کے ساتھ انگلینڈ روانہ کئے جانے والے عماد وسیم نے پہلے ون ڈے میں جارحانہ 117رنز بناکر ٹیم کا ٹوٹل 7وکٹ پر 358تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا، ساتھ ہی یہ بھی ثابت ہوا کہ گھٹنے کی انجری کے مسائل ان کی پرفارمنس کی راہ میں حائل نہیں ہیں، اسی میچ میں حارث سہیل نے بھی 75کی اننگز کھیلی،نارتھمپٹن شائر کے خلاف امام الحق71رنز بنانے میں کامیاب ہوئے،حیران کن طور پر ٹی ٹوئنٹی میچ میں بھی ان کو شامل کیا گیا لیکن بیٹنگ کی نوبت نہیں آئی۔

دوسری جانب عابد علی کوانگلش کنڈیشز میں بیٹنگ کا موقع نہیں دیا گیا،آصف علی تیسرے میچ میں موقع ملنے پر 22کی اننگز کھیل سکے،مجموعی طور پر بیٹنگ لائن کی کارکردگی حوصلہ افزا ہے، تاہم دیکھنا یہ ہوگا کہ اگر کسی میچ میں فخرزمان کا بیٹ نہیں چلتا تو دیگر بیٹسمین اس دباؤ کا سامنا کرتے ہوئے ٹیم کو کس طرح بہتر ٹوٹل کی جانب گامزن رکھتے ہیں، بولرز میں حسن علی،فہیم اشرف، شاہین شاہ آفریدی،محمد عامر اور محمد حسنین پیس اور باؤنس کا فائدہ اٹھاتے نظر آئے، عثمان شنواری پر ترجیح پانے والے جیند خان نے کاؤنٹی ایک میچ کھیلا اور 79رنز دیکر ایک شکار کیا، انگلش کنڈیشز کا تجربہ ہونے کے باوجود ان کی کارکردگی شایان شان نہیں۔

یاسر شاہ نے ایک میچ میں 90اور دوسرے میں61رنز دیئے، ٹی ٹوئنٹی میچ کیلئے ٹیم میں جگہ نہیں بناسکے، تاحال لیگ سپنر خود کو محدود اوورز کی کرکٹ کا اہل ثابت نہیں کرسکے، عماد وسیم نے تسلسل کے ساتھ وکٹیں بھی لیں اور رنز بھی کم دیئے ہیں، محمد حفیظ انگلینڈ کے خلاف واحد ٹی ٹوئنٹی کے بعد 2ون ڈے میچز کیلئے بھی دستیاب نہیں، شعیب ملک پہلے ایک روزہ میچ سے قبل ٹیم کو جوائن نہیں کرسکیں گے، اس صورت میں پاکستان کو یا تو یاسر شاہ کا جوا کھیلنے ہوگا یا پھر حارث سہیل اور فخرزمان جیسے پارٹ ٹائم بولرز کا سہارا لینا ہوگا۔

پاکستان ورلڈکپ سے قبل آخری انٹرنیشنل مصروفیات کا سلسلہ اتوار کو کارڈف میں کھیلے جانے والے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچ سے کررہا ہے،عالمی نمبر ون ٹیم کو میزبانوں کی ان فارم بیٹنگ لائن کا کوئی خوف نہیں ہونا چاہیے لیکن اس فارمیٹ میں ایک اچھی اننگز کھیل کا پانسہ پلٹ دیتی ہے،اس کے بعد انگلینڈ کے خلاف 5ون ڈے مقابلے محمد عامر کیلئے بھی کڑی آزمائش ہیں،ورلڈکپ سکواڈ سے ڈراپ کئے جانے والے پیسر کیلئے یہ سیریز لائف لائن کا درجہ رکھتی ہے، محمد عامر کی غیر معمولی کارکردگی جنید خان کو رخصتی کا پروانہ تھما سکتی ہے،بہرحال 5 مختلف وینیوز پر ہونے والے ون ڈے میچز نہ صرف محمد عامر بلکہ پاکستان ٹیم کیلئے بھی ورلڈکپ کی تیاریاں جانچنے کا پیمانہ ہوں گے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔