اسنوکر کو شاید کھیلوں میں شمار ہی نہیں کیا جاتا، محمد آصف

میاں اصغر سلیمی  اتوار 5 مئ 2019
سابق عالمی چیمپئن محمد آصف کا ایکسپریس کو خصوصی انٹرویو۔ فوٹو: فائل

سابق عالمی چیمپئن محمد آصف کا ایکسپریس کو خصوصی انٹرویو۔ فوٹو: فائل

اسنوکران چارملکی کھیلوں میں شامل ہے جس نے پاکستان کو عالمی چیمپیئن بنایا ہے لیکن دکھ اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس کھیل کے پاس کرکٹ جیسا گلیمر نہیں کہ سپانسرز خود چل کر آئیں ، ہاکی جیسے عہدیدار بھی نہیں کہ گرانٹ کا تانتا بندھا رہے اور نہ سکواش جیسا حال ہے کہ جس کی اب اڑان نہیں ہے لیکن مالی آسودگی اب بھی ہے۔

اسنوکر کے کھلاڑی چند ہزار روپے کی ملازمت کے لیے اب بھی پریشان پھرتے رہتے ہیں کیونکہ پاکستان بلیئرڈز اینڈ اسنوکر ایسوسی ایشن کے پاس سونے کی کان نہیں کہ لاکھوں کے سینٹرل کنٹریکٹ دے سکے۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان کے پہلے عالمی چیمپئن محمد یوسف اسی معاشی گردش میں پھنسے رہے۔ ان کے بعد عالمی ایونٹ کا فائنل کھیلنے والے صالح محمد کو جب یہاں اپنا مستقبل نظر نہیں آیا تو وہ اپنے وطن افغانستان لوٹ گئے۔ صرف یہی دو نہیں بلکہ اسنوکر کے ہر پاکستانی کھلاڑی کی کہانی ایک جیسی ہی ہے۔

محمد آصف کو حکومت پاکستان نے یا کھیلوں کے وفاقی یا صوبائی وزیر اور پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن نے عالمی چیمپیئن نہیں بنایا اور نہ ہی پاکستانی سپورٹس بورڈ کو اس کا کریڈٹ جاتا ہے۔ اگر پاکستان بلییئرڈ اینڈ اسنوکر ایسوسی ایشن کے صدر عالمگیر شیخ مخیر حضرات کی مدد سے محمد آصف کو بلغاریہ نہ بجھواتے تو پاکستان دوبارہ اسنوکر کا عالمی چیمپئن نہیں بن سکتا تھا۔

بلغاریہ کے شہر صوفیہ میں اسنوکر کی عالمی چیمپیئن شپ 2012کے فائنل میں پاکستان کے محمد آصف نے انگلینڈ کے گیری ولسن کو شکست دے کر دوسری بار پاکستان کو عالمی چیمپئن بنوایا۔ٹائٹل مقابلے کے لئے محمد آصف اور گیر ولسن کے درمیان سخت مقابلہ ہوا۔ فائنل میں محمد آصف نے 8-10 فریم سے کامیاب ہو گئے۔اس سے پہلے جاری عالمی اسنوکر چیمپیئن شپ میں محمد آصف نے سنیچر کو سیمی فائنل میں مالٹا کے ایلکس بورگ کو شکست دی۔

2003کے بعد محمد آصف اسنوکر کے عالمی کپ کے فائنل میں پہنچنے والے پہلے جبکہ دوسرے پاکستانی ہیں جو اسنوکر کے عالمی چیمپیئین بننے میں کامیاب رہے۔ان سے قبل پاکستان کے محمد یوسف1994 میں اسنوکر کا عالمی کپ جیت چکے ہیں جبکہ 2003 میں صالح محمد فائنل میں بھارت کے پنکج ایڈوانی کے مقابلے میں ہار گئے تھے۔محمد آصف کے عالمی چیمپئن بن جانے کے بعد مبارک باد کا پہلے سے تیار کردہ سرکاری بیان خالی جگہ پر ان کا نام درج کرکے ذرائع ابلاغ کی زینت بنادیا گیا تاکہ دنیا کو یہ بتایا جاسکے کہ سرکار کو کھیلوں سے کتنی محبت ہے۔ لیکن تصویر کا دوسرا رخ رنگ برنگی گیندوں کے اس کھیل کا بلیک اینڈ وہائٹ المیہ بیان کرتا ہے۔

یہ پاکستان سپورٹس بورڈ اور بین الصوبائی رابطے کی وزارت ہی ہے جس نے کروڑوں کے اپنے بجٹ میں سے صرف8 لاکھ روپے پاکستان بلیئرڈ اینڈ اسنوکر ایسوسی ایشن کو دینے سے انکار کردیا کہ وہ اپنے 2کھلاڑیوں کو بلغاریہ میں اسنوکر کی عالمی چیمپئن شپ میں حصہ لینے کے لیے بھیجتی۔ بلکہ کئی ماہ کی خط و کتابت اور کوششوں کے بعد یہ ٹکا سا جواب دے دیا گیا کہ ایسوسی ایشن اپنے خرچ پر کھلاڑیوں کو عالمی ایونٹ میں بھیجے۔محمد آصف نے جب اسنوکر کا عالمی اعزاز جیتا تھا تو سرکاری سطح پر انہیں نقد انعامات دینے کے اعلانات کیے گئے تھے۔ حکومتیں آتی جاتی رہیں لیکن محمد آصف کے ساتھ کئے گئے حکومتی وعدے وفا نہ ہو سکے۔

ایکسپریس کو دیئے گئے خصوصی انٹرویو میں سابق عالمی چیمپئن محمد آصف کا کہنا تھا کہ2012 میں عالمی چیمپئن بنا، اب تک چھ عالمی اور ایشین ٹائٹلز اپنے نام کر کے دنیا بھر میں سبز ہلالی پرچم لہرا چکا ہوں،ان کامیابیوں کے بعد قوم سے مجھے جتنی محبت اور پزیرائی ملی، وہ میری زندگی کا اثاثہ ہیں، میں اپنے چاہنے والوں کا مشکور ہوں کہ جو میرے لئے نیک تمنائیں رکھتے ہیں اور میری کامیابیوں کے لئے دعاگو رہتے ہیں۔

محمد آصف کے مطابق عالمی سطح پر کامیابیوں کے بعد حکومت کی طرف سے صرف اعلانات اور وعدے ہی کئے گئے،حکومتی سپورٹس پالیسی کے مطابق ورلڈ چیمپئن شپ جیتنے پر ایک کروڑ روپے کی انعامی رقم تھی، میں تین ورلڈ اور تین ایشین ٹائٹل جیت چکا ہوں، ان بڑی کامیابیوں کے باوجود بینک سے ملنے والی تنخواہ سے بس گزارہ ہو رہا ہے، والدین کے ساتھ انہیں کے گھر میں رہ رہا ہوں، میرا اپنا ذاتی کچھ نہیں ہے۔حکومت کی طرف سے اب تک جو ملا، وہ بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔

محمد آصف کی رائے میں کرکٹرز ہوں یا کوئی اور گیم کے کھلاڑی سب کا ایک ہی مقصد اپنے کھیل سے ملک وقوم کا نام روشن کرنا ہوتا ہے، اسنوکر پلیئرز کی بھی یہی کوشش ہوتی ہے کہ دنیا بھر میں سبز ہلالی پرچم سب سے اوپر رہے اور اللہ کا شکر ہے کہ ہم عالمی سطح پر یہ کارنامے متعدد بار انجام دینے میں کامیاب رہے ہیں۔لیکن حکومتی نظر میں کرکٹ ہی صرف گیم ہے اور ہماری گیم کو شاید گیم ہی نہیں سمجھا جاتا۔جتنی بھی گیمز ہیں، ان میں کھلاڑی چیمپئن بنتے ہیں،پہلے ادوار میں پلیئرز کو پلاٹ بھی ملتے تھے۔ اب تو کچھ بھی نہیں ہے، میں گزشتہ چھ سات سال سے انتظار کر رہا ہوں کہ شاید اسنوکر کے حوالے سے بھی حکومت اپنی پالیسی پر کوئی نظر ثانی ہو سکے۔

ایک سوال پر محمد آصف کا کہنا تھا کہ میرا خواب تھا کہ اپنے کھیل سے دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کروں اور میں اپنے مقصد میں کامیاب بھی رہا،حکومتی بے رخی کے باوجود مستقبل میں بھی سبز ہلالی پرچم کے لئے مزید کوششوں کا سلسلہ جاری رکھوں گا۔محمد آصف نے کہا کہ جب کوئی آپ کو خواب دکھائے اور اسے پورا نہ کرے تو بہت تکلیف ہوتی ہے، انہیں امید تھی کہ عالمی اعزاز ان کی قسمت بدل دے گا۔

محمد آصف کے خیال میں اسنوکر کی حالت بدلنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ وہ کھیل ہے جس میں پاکستان دو بار عالمی چیمپئن بنا ہے لیکن سپانسرشپ نہ ہونے کے سبب کھلاڑی مالی مشکلات کا شکار رہتے ہیں، اسنوکر میں دو بار عالمی چیمپئن بننا کوئی معمولی بات نہیں اور ان کامیابیوں نے یہ ثابت کردیا ہے کہ پاکستان میں ایسے کھلاڑی موجود ہیں جو عالمی اور ایشیائی ٹائٹلز جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

محمد آصف کے مطابق اگر نیا ٹیلنٹ پروموٹ کرنا ہے تو اس کے لئے کھلاڑیوں کو مالی طور پر مضبوط کرنا بہت ضروری ہے، اگر کرکٹرز کو سنٹرل کنٹریکٹ اور دیگر مالی مراعات مل سکتی ہیں تو اسنوکر کے کھلاڑیوں کو کیوں نہیں۔ جب کھلاڑیوں کو مراعات ملیں گی توانہیں بھی اندازہ ہوگا کہ اگر وہ بڑا کارنامہ انجام دیں گے تو انہیں بھی معاشرے میں عزت ووقار ،ملنے کے ساتھ حکومت کی طرف سے انعام ملے گا تو وہ زیادہ محنت اور لگن کے ساتھ اپنی گیم پر توجہ دے سکیں گے، میرا پہلے بھی اور اب بھی موقف یہی ہے کہ جب تک پلیئرز کوحکومت کی طرف سے مراعات اور ریوارڈز نہیں ملیں گی تو مزید کھلاڑیوں کا اوپر آنا بھی مشکل ہو جائے گا۔اس لئے حکومت کو چاہیے کہ کرکٹ کی طرح ہر گیم کی باقاعدہ سرپرستی کی جائے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔