نئے صوبوں کی سیاست

مزمل سہروردی  پير 6 مئ 2019
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

ایم کو ایم نے سندھ کی تقسیم کا مطالبہ کر دیا ہے لیکن شاید ایم کیو ایم اس ضمن میں سیاسی ساکھ کھو چکی ہے۔ اس کی بات میں وہ وزن نہیں ہے۔ یہ تاثر بھی عام ہے کہ وہ یہ مطالبہ سیاسی مقاصد کے لیے کر رہی ہے  ورنہ انھیںکراچی حیدر آباد کو الگ صوبہ بنانے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔ ایم کیو ایم سندھ کی تقسیم کا نعرہ اپنی ضرورت کے مطابق لگاتی ہے ۔

پنجاب کی تقسیم کا نعرہ اب مزید تیز ہورہا ہے۔ پنجاب اسمبلی تین صوبوں کی قرارداد پہلے ہی منظو رکر چکی ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے خو د جنوبی پنجاب اور بہاولپور صوبہ کے قیام کا بل قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا۔ عجیب بات ہے کہ ن لیگ کو تو پنجاب کی تقسیم کے خلاف ہونا چاہیے تھا لیکن اب ن لیگ ہی پنجاب کی تقسیم کے لیے کوشاں ہے۔ ویسے بھی ن لیگ کے دور میں ہی پنجاب اسمبلی نے پنجاب کی تقسیم کے لیے قرار داد منظور کی تھی۔ جس کے بعد اب قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اس ضمن میں قانون سازی ہو سکتی ہے۔ اگر ن لیگ اس ضمن میں پنجاب اسمبلی میں قرارداد پاس نہ کرتی تو قومی اسمبلی اور سینیٹ کو اس ضمن میں قانون سازی کا حق ہی حاصل نہ ہوتا۔ آج جب ن لیگ کی پنجاب میں حکومت نہیں ہے تب بھی ایسی قراداد کو دو تہائی اکثریت سے پاس کرانے کے لیے ن لیگ کی حمایت ناگزیر ہے۔

تا ہم میں ایم کیو ایم کی بات کر رہا تھا۔ پیپلزپارٹی سندھ کی تقسیم اور کراچی کو الگ صوبہ کا درجہ دینے کے سخت خلاف ہے۔ وہ اس کو دھرتی ماں کی تقسیم کہتے ہیں۔ ان کے خیال میں سندھ کی تقسیم اور سندھ کے مزید صوبے بنانے کی بات کرنا سندھ دھرتی سے غداری ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ د وسری طرف یہی پیپلزپارٹی پنجاب کی تقسیم کی بات بہت زور سے کرتی ہے۔ کیا پنجاب کی تقسیم پنجاب کی دھرتی سے غداری نہیں ہے۔ کیا پنجاب کی دھرتی لاوارث ہے۔ اس لیے پنجاب کی تقسیم کی بات کرنا جائز ہے۔ کیا اس کی یہ وجہ ہے کہ پنجاب میں پی پی پی کا ووٹ بینک ختم ہو گیا ہے۔ا س لیے پنجاب کی تقسیم کی بات کرنا جائز ہے۔ سندھ میں ووٹ بینک ابھی قائم ہے۔ اس لیے سندھ کی تقسیم گناہ عظیم ہے۔

جہاں تک ایم کیو ایم کی بات ہے ۔ ایم کیو ایم نے اپنی سیاست سے واضح کیا ہے کہ انھیں سندھ کی تقسیم اور کراچی کو الگ صوبہ بنانے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ انھوں نے کراچی کو الگ صوبہ بنانے کا مطالبہ سیاسی بلیک میلنگ کے لیے رکھا ہوا ہے۔ اس لیے جب ایم کیو ایم شریک اقتدار نہ ہو۔ جب ایم کیو ایم کے لیے سیاسی مشکلات پیدا ہو جائیں۔ جب سندھ میں اقتدار کی شراکت ختم ہو جائے۔ جب سیاست کمزور ہو جائے تو ایم کیو ایم الگ صوبہ بنانے کا نعرہ لگا دیتی ہے۔

عام آدمی بھی سمجھتا ہے کہ بس سیاسی مفاد کی خاطر یہ نعرہ لگایا جا تا ہے۔ ماضی گواہ ہے کہ ایم کیو ایم کے پاس ایسے کئی سنہرے مو اقع تھے جب الگ صوبے کا ایجنڈا آگے بڑھا سکتی تھی۔ ایک وقت تھا جب ایم کیو ایم کا پورے ملک میںطوطی بولتا تھا۔ ملک میں ہر فیصلہ ایم کیو ایم کی مرضی سے ہی ہوتا تھا، تب کبھی ایم کیو ایم کو الگ صوبہ بنانے کا خیال نہیں آیا۔ یہ وہ وقت تھا جب ایم کیو ایم سندھ میں نہ صرف شریک اقتدار تھی بلکہ سندھ کی حکومت ایم کیو ایم کے بغیر بن ہی نہیں سکتی تھی۔ تب بھی کبھی ایم کیو ایم نے الگ صوبہ بنانے کی شرط نہیں رکھی۔

آج بھی ایم کیو ایم شریک اقتدار ہے۔ مرکز میں ایم کیو ایم کے پاس وزارتیں ہیں۔ لیکن انھوں نے مرکزی حکومت کی حمایت کے وقت تو یہ شرط نہیں رکھی تھی کہ اگر تحریک انصاف کراچی کو الگ صوبہ بنانے کی حمایت کرے گی تو ہم تحریک انصاف کی مرکزی حکومت کی حمایت کریں گے۔ اس وقت تو وزارتوں پر سب قربان کر دیا ہے۔ کل بھی ایم کیو ایم نے مفادات کے تحت فیصلے کیے تھے اور آج بھی ایسا ہی کر رہی ہے۔

آج کراچی جس حالت میں اس میں ایم کیو ایم بڑی قصور وار ہے۔ ایم کیو ایم خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتی۔ ایم کیو ایم نے کبھی دل سے کراچی کے لیے کام نہیں کیا۔ ورنہ کراچی کی یہ حالت ہوتی اور نہ ہی ایم کیو ایم اس حالت میں ہوتی۔ ایم کیو ایم یہ نہیں کہہ سکتی کہ اسے کراچی میں کام کرنے کا موقع نہیں ملا ۔ ایم کیو ایم کا کراچی میں طوطی بولتا رہا ہے۔ کراچی کی حکومت بلا شرکت غیر ایم کیو ایم کے پاس رہی ہے۔ وسائل بھی ایم کیو ایم کی دسترس میں رہے ہیں۔ لیکن تب ایم کیو ایم کو یہ خیال ہی نہیں تھا کہ کراچی ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ ایم کیو ایم کا خیال تھا جیسے ماضی میں برے سے برے حالات میں بھی ان کی کراچی میں حاکمیت برقرار رہی ہے۔ ویسے ہی آیندہ بھی رہے گی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا ہے۔

کراچی کی ترقی پاکستان کی ترقی ہے۔ کراچی کی صفائی پاکستان کی صفائی ہے۔ کراچی نہ صرف پاکستان کا دروازہ ہے بلکہ پاکستان کا چہرہ بھی ہے۔ کراچی کو  صوبہ بننا چاہیے یا نہیں اس بحث میں پڑے بغیر یہ ضرور کہوں گا کہ پی پی پی کو سمجھنا چاہیے کہ وہ اب زیادہ دیر کراچی پر اپنی حاکمیت برقرار نہیں رکھ سکتی ۔ انھوں نے پنجاب کی تقسیم کا نعرہ لگا کر جو تحریک شروع کی ہے۔ اب وہ سندھ میں بھی پہنچے گی، نئے صوبوں کی جو بات شروع ہو گئی ہے وہ صرف پنجاب تک کیسے محدود رہ سکتی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ صرف پنجاب کے ہی ٹکرے ہو جائیں لیکن سندھ، بلوچستان اور  خیبر پختونخوا اپنی اپنی حیثیت میں برقرار رہ جائیں۔ ہندکو ہزارہ کو الگ صوبہ بنانے کی بات تو پہلے ہی جاری ہے، قبائلی علاقے بھی اپنی الگ شناخت مانگیں گے۔ اب جب چھوٹے صوبے بنانے کی رسم چل ہی نکلی تو اس کی روشی ہر طرف پھیلے گی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ روشنی صرف پنجاب تک محدود رہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔