جبری شادیوں کے خلاف برطانوی قانون ساز متحرک

غلام محی الدین  اتوار 25 اگست 2013
’’فورسڈ میرج پروٹیکشن آرڈرکے تحت برطانوی والدین یا کوئی اور(مرد یا عورت) کسی برطانوی لڑکے یا لڑکی کی جبری شادی نہیں کر سکتا۔ فوٹو : فائل

’’فورسڈ میرج پروٹیکشن آرڈرکے تحت برطانوی والدین یا کوئی اور(مرد یا عورت) کسی برطانوی لڑکے یا لڑکی کی جبری شادی نہیں کر سکتا۔ فوٹو : فائل

اسلام آ باد:  ایک علاقائی کہاوت ہے کہ ’’شوق کی کوئی قیمت نہیں ہوتی‘‘ کہا جاتا ہے کہ کہاوت صدیوں کا نچوڑ ہوتی ہے، جو غلط نہیں ہوتی، اگر ہم اِس تناظر میں مندرجہ بالا کہاوت کو درست تسلیم کر لیں تو پھر اس بات کا کیا کیا جائے؟ یہ بھی آج تک غلط ثابت نہیں ہوئی کہ ’’شوق کوئی بھی ہو، اُس کی ایک نہ ایک دن قیمت ضرور چکاتی پڑتی ہے، یہ قیمت چاہے آپ کی اولاد ہی کیوں نہ چکائے‘‘ دونوں باتیں سچ ہیں مگر ہیں دونوں ایک دوسرے کے برعکس ، ایسا کیوں ہے؟ یہ ایک الگ موضوع ہے لیکن ہے ایسا ہی، اگراِس تناظر میں ہم یہاں برطانوی حکومت کے زیرغور اُس قانون کاجائزہ لیں، جس کی زد میں عن قریب سیکڑوں پاکستانی نژاد مسلمان خاندان آنے والے ہیںتو شوق اور نیتوں کے بہت سے معاملات کھل کر سامنے آ سکتے ہیں۔

یاد رہے برطانیہ میں مستقل مقیم یہ خاندان اکہری یا دوہری شہریت بھی رکھتے ہیں۔برطانیہ میں آج کل جس قانون پر غور و خوض جاری ہے اُس کو ’’فورسڈ میرج پروٹیکشن آرڈر‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے، جس کے تحت برطانوی والدین یا کوئی اور(مرد یا عورت) کسی برطانوی لڑکے یا لڑکی کی جبری شادی نہیں کر سکتا اور نہ ہی لڑکے یا لڑکی کو شادی کے مقصد سے کسی دوسرے ملک میں بہانے سے یا جبری طور پر لے جا سکتا ہے۔ اِس قانون کے تحت جو شہری یاوالدین اس قانون کی خلاف ورزی کریں گے، پولیس ان کے خلاف کارروائی کر سکے گی اور عدالت فوری طور پر میرج پروٹیکشن آرڈر جاری کر دے گی، جرم ثابت ہونے پر دو سال قید اور جرمانہ بھی ہو گا۔

برطانیہ میں جبری شادیوں پر شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کی بڑی وجہ دراصل وہ ہزاروں شکایات تھیں، جو گزشتہ چند سالوں کے دوران وہاں کے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں نے پولیس کو رجسٹرڈ کرائیں جن کا لب و لباب یہ تھا کہ ’’ والدین اور رشتے دار اُن کی شادیاں ایسے مردوں یا عورتوں سے جبری طور پر کرانے کی کوشش کرتے یا ان کو مجبور کرتے ہیں، جس سے وہ شادی نہیں کرنا چاہتے‘‘۔ شادی نہ کرنے کی سب سے بڑی اِن نوجوانوں نے یہ ظاہر کی کہ ’’جن کو ہم نے زندگی میں دیکھا تک نہیں ہم اُن سے شادی کیسے کر لیں؟

اِس حوالے سے جب لندن ہائی کورٹ کے ایک جج، مسٹر جسٹس ہول مین نے حال میں ایک زیر سماعت مقدمے کا فیصلہ سنایا تو معلوم ہوا کہ جج صاحب نے برطانوی حکومت کو پابند کردیا ہے کہ ’’پارلیمنٹ جلد از جلد جبری شادیوں کے قانون میں ترمیم لا کر اسے موثر بنائے تاکہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والے سزاؤں سے بچ نہ سکیں‘‘۔ زیر سماعت مقدمے میں دو پاکستانی ملزم خواتین کو عدالت نے بری تو کر دیا مگر ساتھ ہی یہ ریمارکس بھی دیے کہ ’’اگر قانون کے دانت ہی نہیں ہوں گے، تو وہ ملزموں کو کیسے کاٹ سکے گا‘‘۔ عدالت نے میرج پروٹیکشن آرڈر پر عمل درآمد کے طریقہ کار کو تبدیل کرنے کی بھی سفارش کر دی۔ یاد رہے یہ قانون برطانوی حکومت نے 2008 میں بنایا تھا تاکہ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا، عرب ممالک، افریقی اور مشرقی یورپ کے دیگر ممالک میں برطانوی شہریوں کو لے جا کر جبری شادیوں کے رجحان کی حوصلہ شکنی ہو سکے۔ آئر لینڈ حکومت نے اس ضمن میں قانون کو اپنی پارلیمنٹ سے منظور کرا لیا ہے جب کہ برطانیہ میں عدالتی فیصلے کے بعد پارلیمنٹ نے اس پر غور وخوض شروع کر دیا گیا ہے توقع ہے کہ یہ قانون اسی سال منظور ہو جائے گا۔

برطانوی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق جبری شادیوں میں سب سے سرفہرست ملک پاکستان ہے، جبری شادیوں کے اب تک جوکیس سامنے آئے ان میں سے 60 فی صد کا تعلق پاکستانی نژاد خاندانوں سے تھا، میڈیا رپورٹس کے مطابق جبری شادیوں کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کی جاتی ہے اور موسم گرما کی چھٹیوں میں جبری شادیوں کے واقعات عروج پر پہنچ جاتے ہیں۔ برطانوی حکومت نے جبری شادی کے خلاف حکومتی اقدامات کے تحت اساتذہ، ڈاکٹرز اور ائیر پورٹ کے عملے کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ وہ تعلیمی اداروں کی موسم گرما کی تعطیلات کے دوران ممکنہ جبری شادیوں کے حوالے سے ہوشیار رہیں۔ اس سرکاری رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا تھاکہ جب اسکولوں میں موسم گرما کی چھٹیاں ہوتی ہیں تو اس دوران نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو چھٹیوں میں گھومانے پھرانے کے بہانے برطانیہ سے باہر لے جایا جاتا ہے اور انھیں اصل مقصد سے بالکل لاعلم رکھا جاتا ہے۔

لہذا اساتذہ اور ڈاکٹرز کو اس معاملے میں زیادہ احتیاط کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ ممکنہ شادی کا نشانہ بننے والے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو مکمل رازداری کے ساتھ اپنے تعاون کا یقین انہی لوگوں نے دلانا ہوتا ہے۔ گذشتہ برس برطانوی ہائی کمیشن کی ایک رپورٹ میں بھی بتایا گیا تھا کہ جنوری سے مئی کے دوران جبری شادیوں کے سب سے زیادہ واقعات برطانوی نژاد پاکستانی لڑکیوں کے ساتھ پیش آئے جو کل واقعات کا 46 فی صد تھے۔ دفتر ِخارجہ اور وزارت ِداخلہ کے ماتحت ادارے کی اس رپورٹ کے مطابق گذشتہ برس جون اور اگست کے مہینوں میں400 جبری شادیوں کے واقعات کی اطلاع ملی۔

جب کہ ایک اندازے کے مطابق ہر سال برطانیہ میں پانچ ہزار سے آٹھ ہزار کے لگ بھگ خواتین کو جبری شادی کرنا پڑتی ہے جن میں سے ایک تہائی لڑکیوں کی عمریں صرف سولہ برس یا اس سے کم تھی۔ حکومت کی جانب سے آج کل ممکنہ جبری شادی کے حوالے سے نوجوانوں کو آگاہ رکھنے کے لیے ایک مددگار ٹیلی فون لائن کی تشہیر بھی کی جارہی ہے ۔ اس کے علاوہ ’’شادی : یہ آپ کا انتخاب ہے‘‘ کے نام سے ایک معلوماتی کارڈ تقسیم کیا جا رہا ہے جس میں نوجوانوں کو رازدارانہ مشورے دیے گئے ہیں۔ اس ضمن میں حکومتی وزیر برائے انسداد جرائم جریمی براؤن کا کہنا ہے ’’جس وقت نوجوان اسکولوں کی چھٹیاں گزار رہے ہوتے ہیں اور انھیں اپنے میٹرک کے نتائج کا انتظار ہوتا ہے اوروہ مستقبل کی نئی راہ پر گامزن ہونے والے ہوتے ہیں ان کو کسی ایسے شخص کے پلے باندھ دیا جاتا ہے جس سے وہ شادی کرنا نہیں چاہتے ، یہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے اور اسی لیے ہم اسے غیر قانونی بنانے کے لیے قانون سازی کر رہے ہیں‘‘۔

گذشتہ برس حکومت کی جانب سے جبری شادیوں کے بڑھتے ہوئے واقعات کے سدباب کے لیے ایسے مقدمات کو فوجداری قوانین کے تحت دئیے جانے کا فیصلہ کیا تھا جس کے لیے ان دنوں برطانوی دارالعلوم میں قانون سازی کی جارہی ہے، برطانیہ میں اب تک جبری شادیوں کے مقدمات کا فیصلہ دیوانی عدالتوں کے تحت سنایا جاتا ہے،ترمیم کے بعد یہ فوج داری قانون بن جائے گا۔ اس سلسلے میں اسکاٹ لینڈ میں گذشتہ برس جبری شادی کے خلاف قانون سازی مکمل کر لی گئی ہے جس کے تحت اس جرم میں والدین کے لیے دو سال قید کی سزا رکھی گئی ہے۔

اگر برطانیہ میں بھی نیا قانون منظور کر لیا جاتا ہے تو ایسے والدین جو اپنے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو جبراً شادی کرنے پر مجبور کرتے ہیں انھیں دوسال قید اور جرمانے کی سزا کا سامنا کرنا پڑ ے گا۔ تاہم جبری شادیوں کے خلاف مہم چلانے والوں کی جانب سے اس خدشے کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے کہ جبری شادیوں کے واقعات کو جرم کے زمرے میں ڈالنے سے ان معاملات کو رپورٹ کرنے کے واقعات میں کمی ہوسکتی ہے کیوں کہ جبری شادی کا شکار بننے والے بچے اور بچیاں شاید اپنے پیاروں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجنے کی ہمت نہ کر سکیں گے۔

اِس ضمن میں برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں اور برطانیہ جانے والوں کے عزیز و اقارب سے جو گفت گو ہوئی اُس پر پہلے سے کوئی جانب دار رائے قائم کرنے کی بجائے یہ دیکھنا چاہیے کہ اصل محرکات ہیں کیا؟ بہتر یہ ہے کہ پڑھنے والے خود ایک غیر جانب دار رائے قائم کریں کہ آخر برطانوی حکومت اس قانون کو موثر بنانے پر کیوں مجبور ہوئی؟ بحث طویل ہوجائے گی اس لیے بہتر ہے کہ ہم وہ گفت گو پڑھیں جو ہم سے برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں اور ان کے یہاں مقیم رشتہ داروں نے جبری شادیوں کے حوالے سے کی۔
ارشاد احمد ۔ برطانیہ (لندن)

’’میں 13 سال قبل اپنی قسمت سنوارنے کے شوق میں برطانیہ گیا تھا،خوش شکل ہونے کی وجہ سے برطانیہ میں مقیم درجنوں پاکستانی خاندانوں نے مجھے شادی کی پیش کش کی،جب میں نے بتایا کہ میں پہلے سے شادی شدہ ہوں اور میرے بچے بھی ہیں تو ان میں سے متعدد نے سلام دعا ہی ختم کر دی جب کہ کچھ خاندانوں نے دبے دبے لفظوں میں پہلی بیوی کو طلاق اور برطانیہ میں مستقل رہائش میں مدد کا عندیہ بھی دیا مگر وہاں جاکر میں پاکستانیوں کی بہت سی خباثتوں کو سمجھ چکا تھا، بہت سوچ بچار کے بعد میں نے ایک انگریز لڑکی سے شادی کر لی جو میرے ساتھ مزدوری کیا کرتی تھی گو کہ ابھی تک مجھے برطانوی شہریت نہیں ملی لیکن میری برطانوی بیوی ایک بہترین ساتھی ثابت ہوئی۔ برطانیہ جانے کا شوق میں نے پورا کر لیا مگر پاکستان میں میری غیر موجودگی نے میرے بچوں کی زندگیوں پر جو منفی اثرات مرتب کیے وہ میرے لیے خاصے اذیت ناک ہو چکے ہیں، چند سال مزید دیکھوں گا اگر شہریت نہ ملی تو پھر واپس یہاں آ کر محنت کرنے کا ارادہ کر لیا ہے‘‘۔

چوہدری کاظم حسین، برطانیہ (برمنگھم)
’’ میں1952 میں ہی ولایت جانے کے شوق اور عیش و عشرت کی زندگی گزارنے کے لیے برطانیہ چلا گیا تھا، دو سال بعد مجھے شہریت مل گئی، جنرل اسٹور کا کاروبار خوب چلا اور میں دنوں میں خوش حال ہو گیا، شادی واپس آکر پاکستان میں کی اور پھر بیوی کو بھی وہاں لے گیا، دو بیٹوں اور تین بیٹیوں کا باپ بنا، مگر جب بچے جوان ہوئے تو ہوش آیا کہ ان کی شادیاں پاکستان میں ہی ہونی چاہئیں، مگر سارے بچے نافرمان ثابت ہوئے اور میں ان کے سامنے مجبور ہو گیا، اب میں پڑدادا اور پڑنانا ہوں، بیوی وفات پا گئی ہے مگر تمام تر خوش حالی کے باوجود ہر وقت اداس رہتا ہوں، ولایت آنے کے شوق کی قیمت یہ ہے کہ ایسے لگتا ہے ساری دنیا ہی مطلب پرست ہے مگر کیا کروں اب وقت کو واپس نہیں لا سکتا۔ اگر ایسا ہو جائے تو میں اپنی زندگی سے برطانیہ جانے کا باب ہی نکال دوں‘‘۔

مسزبتول، برطانیہ(ایڈنبرا)
’’برطانوی حکومت جو کر رہی ہے وہ ٹھیک ہی ہو گا، دھوکہ دہی اور جبری شادیوں کی میں زندہ مثال ہوں، میں خود تین بچوں کی ماں ہوں اور بڑے وثوق سے یہ کہ رہی ہو کہ ہمارے والدین کی مجبوریاں۸۰ فی صد جھوٹی انا اور خودساختہ جواز پر مبنی ہوتی ہیں، والدین ہماری جبری شادیاں کر کے دراصل اپنی ان غلطیوں کا کفارہ ادا کرنا چاہتے ہیں جو انہوں نے خود کی ہوتی ہیں۔ قریباً تیس سال پہلے جب میری عمر صرف چودہ سال تھی اور میں سکول پڑھتی تھی، میرے خوش حال والدین نے میری قسمت سنوارنے کے لیے میری مرضی پوچھے بغیر نہایت خاموشی کے ساتھ پچاس سال سے زائد عمر کے ایک ولایت پلٹ شخص سے میرا نکاح پڑھا دیا، شادی کے موقع پر میرے چار جوان بھائی اس لیے خاموش رہے کہ ان کو برطانوی ویزوں کا لالچ دیا گیا تھا، چند ماہ بعد میں پیاء گھر چلی گئی، برطانیہ آکر مجھ پر عقدہ کھلا کہ میرے شوہر کو بیوی کی بجائے ایک نرس کم سیلز وویمن کی ضرورت تھی، برطانیہ آکر شروع دنوں میں زندگی اجیرن ہوگئی تھی، شوہر اور اس کے کاروبار کے ساتھ بچوں کی دیکھ بھال نے ہر شے بھلادی تھی۔ اب میرے شوہر کی خواہش ہے کہ جوائی اور بہو پاکستان سے امپورٹ کیے جائیں مگر میں اپنے بچوں کو اس آگ میں نہیں جلنے دوں گی جس میں مجھے میرے والدین نے جھونک دیا تھا‘‘۔

اطہر علی خواجہ، فیصل آباد ۔
’’پچیس سال پہلے میرے دور کے رشتے دار برطانیہ سے آئے تو ان میںایک خوبصورت،نوجوان لڑکی بھی شامل تھی،اس کو دیکھتے ہی میں اس کے حسن میں کھوگیا، وہ لوگ بھی اپنی بیٹی اور بیٹے کی شادی کے لیے پاکستان آئے ہوئے تھے، رشتہ مانگنے کے بعد جھٹ منگنی پٹ بیاہ ہوا اور میں تیسرے دن ہنی مون منانے کے لیے پہاڑی علاقوںمیں پہنچ گیا، میں ابھی وہیں تھا کہ میرے بڑوں نے میری بہن کا نکاح میرے سالے سے کر دیا۔ ایک ماہ بعد وہ لوگ چلے گئے، میری بہن ابھی پاکستان میں ہی تھی۔

میری بیوی چھے ماہ بعد بچے کی ڈلیوری کے لیے برطانیہ چلی گئی۔ ان چھے مہینوں میں مزاجوں میں ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے میرے سر سے عشق اور لالچ کا بھوت اتر چکا تھا، بہت سی تلخ حقیقتیں سامنے آ چکی تھیں، تمام تر کوششوں کے باوجود میری بیوی پاکستان واپس آنے پر راضی نہ ہوئی تو دوسرا گھر بچانے کے لیے بہن کو برطانیہ روانہ کر دیا گیا مگر وہ بھی چند ماہ بعد حاملہ ہونے کے بعد زبردستی پاکستان روانہ کر دی گئی۔ دراصل دونوں طرف اپنی دولت کا غرور ہمیں چین سے رہنے نہیں دے رہا تھا۔ ان بے جوڑ اور جبری شادیوں کا نتیجہ آخر کار طلاق نکلا اور دو بیٹے اپنے اپنے والد کی شفقت سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو گئے، لوگ دولت کے لالچ میں ولایت جاتے ہیں ہم دولت کے باوجود ولایت والوں سے نباہ نہ کر سکے‘‘۔

پروفیسر(ر) محمد علیم(سیال کوٹ)۔
’’ جبری شادیاں پاکستان،بھارت،بنگلہ دیش، سمیت دیگر عرب اور افریقی ممالک میں عام ہیں۔ اگر ہم پاکستان کے حوالے سے بات کریں تو اس کی شرح خاصی بلند ہے۔آپ غور کریں1947میں انگریز اپنا اقتدار چھوڑ کر چلا گیا مگر ہم نے اس کا پیچھا نہ چھوڑا، صرف تین سال بعد ہی لوگوں میں برطانیہ جانے کا رجحان زور پکڑ چکا تھا، اس وقت بھی اور آج بھی جواز یہ دیا جاتا ہے کہ بہتر مستقبل کی خاطروہاں جارہے ہیں، میرے خیال میں اس جواز کے پردے میں صرف 50 فی صد ہی سچائی ہوتی ہے۔

گذشتہ 66 سالوں میں یہ فی صد آج بھی قائم ودائم ہے۔ باقی پچاس فی صد جو ہوتا ہے وہ ہی اصل سچائی ہوتی ہے، جس کو ہم چھپانا چاہتے ہیں، ہم وہاں جا کر میموں کی گوری چمڑی،نیلی آنکھوں،جگ مگ کرتے شہروں کے شراب خانوںاور سرکار کی طرف سے ملنے والی مفت سہولتوں سے لطف اندوز تو ہونا چاہتے ہیں مگر وہاں کے تہذیب وتمدن کو اپناتے ہوئے ہم اندر سے خوف زدہ ہو جاتے ہیں۔ میم یا برٹش نیشنل بیوی سے شادی کو جائز مگر اس کی شخصیت اور عادتوں کو ناجائز قرار دیتے ہیں۔ آپ خود شراب پی لیں تو ’’شوق‘‘ بیوی پی لے تو حرافہ بن جاتی ہے۔

اس طرح کی سیکڑوں مثالیں ہمارے قول وفعل کے تضاد کی اصل تصویر کو جب پینٹ کرتی ہیں تو ہم اپنی غلطی،کوتاہی یا کمزوری کو تسلیم کرتے ہوئے اللہ اور اللہ کی مخلوق سے معافی مانگنے کی بجائے جھوٹے جواز تراش لیتے ہیں، کبھی ہم اپنی ثقافت تو، کبھی مذہب کی آڑ لیتے ہوئے خود کو سچا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس طرح بھارت کو گالی دینا اور بھارتی فلمیں دیکھنا اور گانے سننا دونوں ہی جائز ہو چکے ہیں ۔ یہ تضاد ہے مگر کام چل رہا ہے اس لیے ہم سب چپ ہیں۔ جوان بیٹے یا بیٹی کی ذہانت پر ہم ناز بھی کرتے ہیں مگر شادی کے لیے ان کی ذہانت غیر پختہ قرار دے دی جاتی ہے اور معاشی، معاشرتی اورمذہبی محرکات کو سامنے رکھ کر بیٹے کے لیے الگ اور بیٹی کے لیے الگ حدود وقیود مقرر ہو جاتی ہیں،

یہ ہماری اجتماعی معاشرت کا ایک رخ ہے، دوسری جانب ایسے بھی ہو رہا ہے کہ ہم ہر حدود وقیود سے آزاد ہو کر فیصلے کرنا شروع ہو جاتے ہیں،یہ بھی درست نہیں، جب تک ہم آدھا تیتر آدھا بیٹیر بنے رہیں گے، ہم اور ہمارے بچے اسی خوار ہوتے رہیں گے۔ برطانیہ والے یہاں فرشتہ صفت، فرماں بردار اور دولت کے رعب میں آنے والوں لڑکے،لڑکیوں کی شکل میں بہو اورجوائی تلاش کرنے آتے ہیں اور ہم اپنے بچوں کا مستقبل سنوارنے کے لیے ان کو برطانیہ روانہ کر دیتے ہیں، جبری یا سودے بازی سے ہونے والی ان شادیوں سے ملنے والے دکھوں کو شراب پی کر یا مذہب کی آڑ لے کر بھول جانے کی کوشش کی جاتی ہے، برٹش بیوی شوہر پر تشدد کرے،اس کے سامنے جنسی بے راہ روی کے مظاہرے کرے پھر بھی ان کو فلاحی ریاست عزیز رہتی ہے۔

ان باتوں کا وہاں جاتے ہی علم ہو جاتا ہے مگر ہم واپس آنے کو تیار نہیں ہوتے، کیوں۔۔۔؟ اس لیے کہ ہم تضادات کا مجموعہ بن چکے ہیں، تضاد کی اصلاح کرنے کی بجائے اس پر پردہ ڈالنے کی ہم کو پچپن میں ہی تربیت دی جاتی ہے، میں خود برطانیہ میں چار سال یونیورسٹی میں پڑھا ہوں اور اب بھی گاہے بہ گاہے وہاں جاتا ہوں، میں نے محسوس کیا کہ برطانیہ میں پلنے بڑھنے والی نسل ہمارے بچوں کی نسبت تضادات کا بہت کم شکار ہے۔ جو محسوس کرتی ہے بیان کردیتی ہے اور یہ بات ان کے والدین اور یہاں سے جانے والوں کو خوف زدہ کردیتی ہے اور اس کے ردعمل میں یہ نسل مجبور ہو کر وہاں کی پولیس تک بھی پہنچ جاتی ہے۔ وہاں جن مجبوریوں کا رونا آج رویا جاتا ہے اس کے بارے میں علم تو آج سے بیس پچیس سال پہلے ان لوگوں کو ہو چکا تھا اور وہ اس وقت اس کا حل بھی نکال سکتے تھے، مگر پاونڈ اسٹرلنگ اور سرکاری سہولتوں کو کون چھوڑتا۔۔۔۔۔؟

کیا یہ ہمارے نصف صدی پرانے وہ شوق نہیں،جن کی اُس وقت تو واقعی کوئی قیمت نہیں تھی مگر آج اس کو شوق پالنے والے ان بزرگوں کے بچے اِس کی قیمت ادا کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں؟ کیا ہم من حیث القوم اپنے قول و فعل کے تضاد سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکے؟ کیا ہم جھوٹی انا اور خود فریبی پر قابو پانے میں ناکام ہو گئے ہیں؟ کیا ہم میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھوتھو کرنے والے تو نہیں بن چکے؟

کیا ہم واقعی بہادر قوم نہیں ہیں؟ کیوں کہ بہادر انسان اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو تسلیم کرکے معافی کا طلب گار ہوتا ہے اور آئندہ سے غلطی کے ارتکاب سے خود کو روکتا بھی ہے، دین نے تو بہادر انسان اُسے قرار دیا ہے جو اپنے غصے پر قابو پائے؟ جب کہ ہم وہاں(برطانیہ) میں جا کر ہر طرح کی سہولتوں سے مستفید بھی ہوتے ہیں اور پھر ان ہی پر غصہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ ہمیں ہماری اقدار کے مطابق رہنے نہیں دیا جارہا۔۔۔سوچیے کیاآپ کی اقدار بچوں کی جبری شادیاں کرنے کی اضازت دیتی ہیں؟دین اجازت دیتا ہے؟ اگر نہیں،تو پھر غصہ کس بات کا؟

اعداد و شمار کے مطابق رواس سال2012 جنوری سے مئی تک جبری شادیوں کے 594 کیسز سامنے آئے۔ ان میں 87 فی صد کیسز خواتین اور تیرہ فی صد کیسز مردوں کے تھے۔اس کے علاوہ پندرہ سال سے کم عمر کے 14 فی صد کیس آئے، سولہ سے سترہ سال کے 31 فی صد، اٹھارہ سے اکیس سال کے 35 فی صد، بائیس سے پچیس سال کے 12 فی صد، چھبیس سے تیس سال کے پانچ فی صد کیس سامنے آئے۔ اس کے علاوہ اکتیس تا چالیس سال کے دو فی صد اور 41 سے 45 سال کے ایک فی صد کیس آئے۔

برطانوی ہائی کمیشن کی رپورٹ کے مطابق جبری سادی کے سب سے زیادہ کیسز پاکستان میں سامنے آئے جو کہ 46 فی صد ہیں جبکہ بنگلہ دیش میں 9 فی صد، برطانیہ 8.7 فی صد، بھارت میں سات اور افغانستان میں ڈھائی فی صد سے زیادہ کیسز آئے۔گزشتہ برس جنوری سے دسمبر کے دوران جاری اعداوشمار کے مطابق تقریبا پندرہ سو مواقعوں پر اس لوگوں کومشورہ یا امداد مہیا کی۔ جن واقعات میں متاثرہ افراد کی عمر معلوم تھی وہاں سب سے زیادہ عمر کی متاثرہ خاتون ستاسی سالہ تھی جب کے سب سے کم عمر پانچ سالہ لڑکی تھی۔ زبردستی کی شادی میں عام تاثر کے برعکس مدد کے لیے درخواست کرنے والوں میں ناصرف اٹھتر فی صد عورتیں بلکہ بائیس فی صد مرد بھی شامل تھے۔ سب سے زیادہ متاثرہ افراد یعنی ستائیس فی صد کی عمر اٹھارہ سے اکیس سالہ کے درمیان تھی۔

شادی سے متعلق مفتی عبدالقیوم ہزاروی صاحب کے فتوے
اسلام میں جبری شادی کے بارے کیا حکم ہے؟
سوال پوچھنے والے کا نام: عدنان رضا ، مقام: یو کے ۔ السلام علیکم میرا سوال یہ ہے کہ میں برطانیہ میں رہتا ہوں۔ میرے والدین پاکستان میں مقیم اپنی بھتیجی کے ساتھ میری شادی کروانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں انہیں کئی دفعہ بتا چکا ہوں کہ میں آپ کے اس فیصلے سے خوش نہیں ہوں۔ میں انہیں یہ بھی بتا چکا ہوں کہ اسلام میں زبردستی شادی کروانا جائز نہیں ہے لیکن وہ یہ نہیں سن رہے ہیں اور مجھ سے عزت کی بات کر رہے ہیں کہ اس بارے میں لوگ کیا کہیں گے۔ میں نے اس مسئلہ کے بارے میں تھوڑی سا مطالعہ بھی کیا ہے جس کے مطابق والدین کو اس معاملے میں اولاد پر زبردستی کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ میں اس مسئلہ کے بارے میں بہت پریشان ہوں۔ برائے مہربانی اس معاملے میں میری رہنمائی فرمائیں۔

جواب: ’’اسلام میں زبردستی شادی کا کوئی تصور نہیں ہے۔ اس وقت تک نکاح قائم نہیں ہو سکتا جب تک لڑکا اور لڑکی دونوں رضامند نہ ہوں۔ دونوں میں سے ایک بھی انکار کر دے تو نکاح قائم نہیں ہو سکتا۔ وا

للہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
اسلام میں شادی کے لیے کن چیزوں کو مدنظر رکھا جاتا ہے؟
پوچھنے والے کا نام: صباء شاہ مقام: نامعلوم۔السلام علیکم میرا سوال یہ ہے کہ مجھے شادی کے لیے ایک لڑکے کے گھر والوں نے پیغام بھیجا ہے، جو الحمد اللہ بہت نیک اور مہذب لوگ ہیں۔ لڑکا بھی نمازی، اچھی فطرت والا ہے اور اس میں کوئی بری عادات بھی نہیں ہیں۔ میں نے ان کے اس پیغام کو قبول کر لیا ہے۔ میں یہ ذکر کرنا چاہتی ہوں کہ میرے گھر والے خاص طور پر میری امی چاہتی ہیں کہ میری شادی کسی ڈاکٹر سے ہو یا پھر حیدر آبادی لڑکے سے ہو۔ اس سلسلے میں انہوں نے کئی لڑکے والوں کو بھی بلایا۔

والدین کہہ رہے ہیں کہ اگر تم ان کے سامنے نہ آئی تو اس سے ہماری عزت پر حرف آئے گا۔ میرے گھر والے یہ بھی کہہ رہے ہیں جن لوگوں نے پہلے مجھے شادی کے لیے پیغام بھیجا ہے ان لوگوں کا رہن سہن ہمارے مقام ومرتبہ کا نہیں ہے،آپ بتائیں میں اس سلسلے میں کیا کروں۔ اس حوالے سے میں بہت پریشان ہوں۔ کیا اسلام میں عورت کو اپنی رائے دینے اور اس کی پسند کا کوئی اعتبار نہیں کیا جاتا ہے؟ کیا یہ زبردستی شادی کے لیے لڑکی کو بلیک میل کرنا جائز ہے، میں امید کرتی ہوں کہ آپ کی ہدایات اور سفارشات میرے گھر والوں کو اس مسئلہ کو سمجھنے کے لیے رہنمائی کا باعث بنیں گے۔

جواب: لڑکی ہو یا لڑکا دونوں جب تک رضامند نہیں ہونگے نکاح نہیں ہو سکتا، یہ نہیں کہ لڑکا لڑکی کو پسند کرے لیکن لڑکی کو وہ لڑکا پسند ہی نہ ہو، دونوں کو پکڑ کر نکاح کر دیا جائے، جب تک لڑکی بھی رضامند نہ ہو نکاح نہیں ہو سکتا۔ دونوں سے رائے لینا والدین کا فرض بنتا ہے۔2۔ لڑکی جس لڑکے کو پسند کرے اور وہ لڑکا بھی اسے پسند کرتا ہو تو والدین کو چاہیے اگر کوئی شرعی ممانعت نہ ہو تو اس کی شادی وہیں کریں جہاں لڑکی کہتی ہے۔ یہ لڑکی کا حق ہے، اسلام میں لڑکی کو رائے دینے اور قبول کرنے یا نہ کرنے کا بھی حق ہے، اسلام میں لڑکی کو اپنی پسند کا اظہار کرنے اور رائے دینے کی اجازت ہے۔3۔ والدین کو زبردستی شادی کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

کیا اسلام میں زبردستی کی شادی جائز ہے؟
سوال پوچھنے والے کا نام: مشتاق احمد مقام: خیبر پختونخواہ، پاکستان۔ السلام علیکم میرا سوال یہ ہے کہ کیا اسلام میں یا شریعت میں زبردستی شادی کی گنجائش ہے؟ میں اور میرے والدین نے جس لڑکی کے لیے رشتہ بھیجا تھا تو اس کے چچا نے کہا ہے کہ وہ اس لڑکی کا رشتہ اپنے بیٹے سے کرے گا کیوں کہ پہلا حق اس کا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ خود وہ لڑکی اور اس کے گھر والے یعنی اس لڑکی کی ماں اور بڑا بھائی اس زبردستی والے رشتہ کے لیے راضی نہیں ہیں۔ جب کہ لڑکی کا باپ فوت ہو چکا ہے؟ تو کیا یہ زبردستی والے چچا جی حق پر ہیں؟ اور کیا میرا اس رشتے پر اسرار کرنا ٹھیک ہے؟ کیا اسلام میں بھاگ کر شادی کی گنجائش ہے۔ برائے مہربانی جلدی جواب عنایت فرمائیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں زبردستی تیسری پارٹی کی طرف سے ہے۔

جواب:اسلام میں زبردستی شادی کی اجازت نہیں ہے۔ قرآن مجید میں ہے : فَان ِحْوا مَا طَابَ لْم مِّنَ النِّسَاء ِ. (النِّسَآء، 4 : 3) تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہارے لئے پسندیدہ اور حلال ہوں۔اور حدیث پاک میں ہے : غیر شادی شدہ کا نکاح اس سے پوچھے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری کا بغیر اجازت نکاح نہ کیا جائے۔.1معلوم ہوا قرآن وحدیث میں زبردستی شادی کی گنجائش نہیں ہے۔ لڑکا لڑکی دونوں کا رضامند ہونا ضروری ہے۔ اگر دونوں میں سے ایک بھی رضامند نہ ہو تو نکاح نہیں ہو سکتا۔ اس لیے لڑکی کا چچا اگر لڑکی کی مرضی کے بغیر اپنے بیٹے سے نکاح کرے گا تو وہ نکاح قابل قبول نہیں ہو گا۔

لڑکی کے ساتھ زبردستی نکاح کرنا کسی کا حق نہیں ہے، نہ شریعت اس کی اجازت دیتی ہے نہ ہی ہمارا ملکی قانون، اگر کوئی ایسی حرکت کرنے کی کوشش کرے تو اس کی رپورٹ متعلقہ ادارے کو فراہم کریں تاکہ لڑکی ظلم وستم ہونے سے بچ سکے۔2۔ اگر وہ لڑکی آپ کے ساتھ شادی کرنے پر رضامند ہو تو پھر آپ کا اسرار کرنا درست ہے ورنہ نہیں۔3۔ آپ اس معاملے کو بااثر لوگوں کے ذریعے حل کریں، بھاگنے دوڑنے سے حالات زیادہ خراب ہوں گے اور گھر کے باقی افراد بھی ذلیل وخوار ہو جائیں گے۔ یہ بہتریں حل ہے۔ نہیں تو پھر اس معاملہ کو عدالت میں لے جایا جائے تاکہ لڑکی پر ظلم نہ ہو۔المختصر نکاح کے لیے لڑکے لڑکی دونوں کا حق مہر کے عوض دو گواہوں کی موجودگی میں رضامندی سے ایجاب وقبول کرنا ضروری ہے ورنہ نکاح منعقد نہ ہو گا۔ واللہ و رسولہ اعلم بالصواب

شادی کے حوالے سے صاحبزادہ حسن محی الدین قادری کاخطاب
اسی حوالے سے یورپ میں سپریم کونسل ناروے تحریک منہاج القرآن کے صدر صاحبزادہ حسن محی الدین قادری نے اپنے ایک انگریزی خطاب میں سورہ بقرہ کی معروف آیت’’ لا اکرہ فی الدین‘‘ کو موضوع سخن بناتے ہوئے کہا کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو کسی بھی کام میں سختی اور جبر کی اجازت نہیں دیتا۔ اگر یہ چیز آج اسلامی معاشرے میں موجود ہے تو یہ اسلامی تعلیم کا نتیجہ نہیں بل کہ اسلام کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے۔ انہوں نے قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ کی کئی مثالیں پیش کیں جن میں اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جانبین یعنی لڑکے لڑکی کو یہ حق دیا ہے کہ وہ اپنی پسند سے شادی کریں اور طرفین میں سے کسی ایک یا دونوں پر جبر کرنے کی اجازت نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ عقلی طور پر بھی یہی مناسب ہے کہ جن لوگوں نے اکھٹے زندگی گذارنی ہے ان کو انتخاب کا حق دیا جائے نہ کہ ان کو زور زبردستی سے باند دیا جائے۔

انہوں نے صحیح بخاری، نسائی ابن ماجہ اور دیگر احادیث کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں خنساء بنت حزام صحابیہ حاضر ہوئیں انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے باپ نے میری شادی وہاں کر دی ہے جہاں میں خوش نہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو اختیار دیا کہ یہ کوئی شادی نہیں ہے تم جہاں چاہو شادی کر سکتی ہو۔ انہوں نے بخاری و مسلم اور بہت سے دیگرکتب احادیث سے ثابت کیا کہ اگر عورت طلاق یافتہ ہو تو بھی اس سے اجازت لی جائے اگر کنواری ہو تب بھی اس سے شادی کے لیے رضامندی لی جائے۔ حسن قادری نے مزید کہا کہ اسلام میں جو سب سے اہم چیز’’ ایمان‘‘ ہے جو جبر اور سختی گوارا نہیں کرتا اور کسی کو جبراً مسلمان نہیں بناتا۔ اسلام باقی چیزوں میں سختی کو کیسے برداشت کر سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔