طلاق ایک المیہ: معاشرتی بے حسی اور میڈیا کا کردار (دوسرا حصہ)

ڈاکٹر میشال نذیر  بدھ 15 مئ 2019
طلاق کے موضوع پر میڈیا کا کردار افسوسناک ہے۔ (فوٹو: فائل)

طلاق کے موضوع پر میڈیا کا کردار افسوسناک ہے۔ (فوٹو: فائل)

ایک اینکرپرسن نے ایک سنگر کو مارننگ شو پر مدعو کیا۔ بلانے کی وجہ بڑی مضحکہ خیز تھی۔ اس سنگر کی دوسری شادی کچھ مہینوں میں طلاق پر ختم ہوئی، کچھ ایسے ہی ان کی پہلی شادی کا اختتام ہوا تھا۔ سوال ملاحظہ ہو محترمہ کا: میں تو آپ کو بہت اچھے سے جانتی ہوں کہ آپ بہت کم غصہ کرتے ہیں، اتنا پیار کرنے والے، کم گو، برداشت کرنے والے انسان ہیں، یہ طلاق کیسے ہوسکتی ہے؟ مطلب اس اینکر صاحبہ کی پوری کوشش رہی کہ اس سب میں اس کی بیوی کا قصور ثابت ہو۔ بندہ پوچھے کہ میاں بیوی کے تعلق میں آپ جج کیوں بن رہی ہو؟ کون کتنا اچھا یا برا، آپ کون ہیں فیصلہ کرنے والی۔

بلاگ کا پہلا حصہ یہاں سے پڑھئے: طلاق ایک المیہ: معاشرتی بے حسی اور میڈیا کا کردار (حصہ اوّل)

بھلا ہو سنگر کا کہ اس نے سب ملبہ بدنظری پر ڈال دیا، کہ ہمارے رشتے کو کسی کی نظر لگ گئی، کیونکہ شادی کے بعد میاں بیوی نے خوب مارننگ شوز میں جا کر اپنی لو اسٹوری بتائی تھی۔

اندازہ کریں ہماری اخلاقیات کا کہ پورا مارننگ شو کسی کی پرسنل لائف کے اہم معاملے کو زیربحث لاکر پورا کیا گیا۔ جس میں ایک طرفہ بات رہی، کیونکہ شو میں مدعو صرف سنگر تھا، اس کی بیوی نہیں۔ اس کے بجائے اگر نارمل انٹرویو میں پانچ سے دس منٹ میں اس موضوع پر بات ہوتی تو وہ زیادہ مناسب ہوتا۔

اب قدرت دیکھیں کہ کچھ مہینے بعد اس اینکر پرسن صاحبہ کی طلاق ہوگئی، جو کہ یقیناً افسوس ناک تھا۔ لیکن جب ان محترمہ سے طلاق کی وجہ عوام نے جاننے کی کوشش کی تو ان کو بہت ناگوار گزرا، کہ یہ میرا پرسنل معاملہ ہے۔ بالکل درست! یہ بات ان کو دوسروں کے طلاق جیسے معاملات کے وقت یاد کیوں نہ آئی؟ دوسروں سے پوچھتے وقت آپ کو ان کی ذاتیات کا خیال کیوں نہ آیا؟ جب آپ شوبز میں ہوں، کسی بھی طرح میڈیا سے لنک ہوں تو عوام آپ کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ سب کچھ بتائیں، لیکن سرسری بتانے میں کوئی قباحت بھی نہیں۔

شوبز میں جو شادیاں 5 سے 10 سال پہلے ہوئیں، بدقسمتی سے پچاس فیصد کا انجام 2018 کے اختتام تک علیحدگی پر ہوا، جو کہ یقیناً افسوس ناک ہے۔ لیکن جب آپ اپنی شادی کی تیاری سے لے کر فضول رسموں کی تشہیر سوشل میڈیا میں بے دریغ کریں، تب تو کچھ پرسنل نہیں لگتا، رسمیں بھی فضول نہیں لگتیں۔ اس وقت لوگوں کی تعریف، سراہنا، دعائیں سب اچھا لگتا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ جیسے شادی معاشرے کا اہم حصہ ہے، ویسے ہی طلاق بھی ہے۔ تو ہم نے اسے اپنے معاشرے میں معیوب کیوں بنادیا ہے؟ اس پر بات کرنا پرسنل کرکے یہ لیبل لگا دیا ہے کہ اس پر بات ہی نہ کی جائے۔ آخر کیوں؟

میں اس ضمن میں ایک اداکارہ کا خاص طور پر ذکر کرنا چاہوں گی، جن کی شادی تقریباً پندرہ سال بعد علیحدگی کی صورت میں ختم ہوئی۔ ایک انٹرویو میں پانچ سے دس منٹ میں اس نے تحمل سے اس بارے میں جواب دیا، اور کہا کہ اس میں غلطی دونوں کی تھی (اور یہ ایک حقیقت بھی ہے)۔ اس نے کہا کہ اسے باہر کے لوگوں سے پتہ چلا کہ ان کے شوہر کا فلاں دن نکاح ہے۔ اس نے کہا کہ اس بارے میں مجھے یقین ہی نہیں آیا تھا، شاید بھروسہ کچھ زیادہ تھا۔ اس کے شوہر نے جب بتایا کہ وہ شادی کرنے جارہا ہے، اداکارہ نے کہا کہ ایک لمحہ نہیں لگا مجھے یہ فیصلہ کرنے میں کہ وہ شادی کرسکتا ہے، اس کی اپنی زندگی ہے، لیکن اس کے ساتھ میرا اب رہنا ناممکن تھا، اس لیے علیحدگی کا فیصلہ کیا۔ کہیں نہ کہیں میں وقت نہیں دے سکی، آپس میں بات چیت نہیں کرسکے۔ اس کی بے وفائی رہی تو میری طرف سے کوتاہی رہی۔

یہ سب بتانے میں وہ یقیناً دکھی تھی، لیکن اس کا اس معاملے پر بات کرنا، افواہوں کو معدوم کرنا، اور اس معاملے پر میرا پرسنل کہہ کر اگنور نہ کرنا قابل تحسین ہے۔ ایسے بہت اداکار ہیں جنہوں نے طلاق کے معاملے میں خاموشی کے بجائے ڈیسنٹ وے میں اس کا اظہار کیا، جو کہ یقیناً بہت سی خواتین کے لیے حوصلے کا باعث بنا ہوگا۔ انہوں نے باقاعدہ طلاق کے بعد آنے والے مسائل پر گفتگو کی کہ کیسے خود کو انہوں اس ڈپریشن سے نکالا، کیسے اپنی زندگی کا دوبارہ آغاز کیا، اور اب وہ اپنے کیے فیصلے پر کتنے مطمئن اور خوش ہیں۔ اور یہ یقیناً میڈیا کا بہت مثبت کردار ہے۔ جہاں میڈیا کے بہت لوگ اس پر بات نہ کرنے کا لیبل لگاتے ہیں، وہیں میڈیا کے بہت لوگوں کا اس پر بات کرنا، طلاق کے بعد آنے والے مسائل پر بات کرنا، قابل تحسین ہے۔

اگر مرد دوسری شادی کرتا ہے، تو عورت کو یہ فیصلہ کرنے کا پورا حق ہے کہ وہ اس کے ساتھ رہے یا پھر طلاق لے۔ طلاق کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کردی جائے، بلکہ ایک دوسرے کی عزت کا لحاظ رکھنا چاہیے، اور اسی سے مہذب معاشرہ وجود میں آتا ہے۔ امریکا یا یورپ کہیں بھی جائیں، آپ کو طلاق یافتہ ہونے کی وجہ سے وہ مسائل نہیں ملیں گے جن کا سامنا ہمارے ہاں ایک عورت کو کرنا پڑتا ہے۔

جن بہنوں کو طلاق یا خلع ہوئی، خدارا ان کی مشکلات میں اضافہ نہ کریں۔ ان سے شادی کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے، ایسے میں ہمارے معاشرے کے مرد کی سوچ کو بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔ شادی کے لیے طلاق یافتہ جو کہ خوب سیرت ہو اس کے نام پر غور کرنا، انتخاب کرنا۔ یقین کریں ایسے اقدام ہمارے معاشرے کے لیے بہت بڑی تبدیلی کا باعث بن سکتے ہیں۔ یہی اگر مرد کے ساتھ ہوتا ہے، طلاق ہوگئی ہو، تو دوبارہ شادی کے لیے بھی حتی الامکان کنواری لڑکی کے لیے کوشش کی جاتی ہے، حتی کہ اگر اس مرد کے بچے ہوں تب بھی یہی کوشش ہوتی ہے۔ جب ایسا نہ ہوسکے تو طلاق یافتہ عورت کے انتخاب کی باری آتی ہے، وہ بھی وہ جس کے بچے نہ ہوں، یا بچے ہیں تو ماں کے ساتھ نہ رہتے ہوں، اور اس عورت کے کردار کا سرٹیفکیٹ حاصل نہ کرلیا جائے۔ آخر کیوں؟

تو خدارا اپنی سوچ کو بدلیں، جس نبی ﷺ کے ہم پیروکار ہیں، ان کی شادی 25 سال کی عمر میں 45 سال کی بیوہ سے ہوئی۔ آپؐ کی سب اولاد انہی میں سے ہوئی، اور جب تک وہ حیات رہیں، آپ نے دوسری شادی نہیں کی۔ ہمارے معاشرے کا مرد چار شادی والے معاملے پر تو بڑا پیروکار ہے، بڑا واویلا مچاتا بھی نظر آتا ہے، لیکن بیوہ یا طلاق یافتہ سے شادی کے معاملے پر وہ کب ایمان لائے گا؟ کب اپنی سوچ کو بدلے گا؟

شادی کا فیصلہ بہت زیادہ سوچ سمجھ کر کریں۔ ایک جوتا لینے کے لیے ہم کتنا سوچتے ہیں، اس کا سائز، رنگ، آرام دہ ہونا، غرض ہر لحاظ سے مطمئن ہونے کے بعد لیتے ہیں۔ تو شادی جیسا اہم فیصلہ کرتے وقت کیوں نہیں سوچتے؟ ہمارے بزرگوں کی سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے کہ شادی کے فیصلے میں بچوں کی مرضی کو شامل رکھیں، تا کہ وہ اس رشتے کو ذمے داری کے ساتھ ذہنی طور پر خود سے قبول کریں۔ مجھے یقین ہے کہ اس سے زبردستی کی شادیوں کے مقابلے میں نتائج مختلف ہوں گے۔ مرضی کی شادی سے جہاں طلاق کے بڑھتے رجحان میں خاطر خواہ کمی لائی جاسکتی ہے، وہیں اگر عورت کو طلاق ہوتی ہے، تو خدارا اس کے لیے دل بڑا کریں، ان کو زندہ رہنے دیں، اور ان سے شادی کرنے کی سنت کو زندہ کریں۔

اس اہم مسئلے پر بحیثیت قوم غوروفکر کی ضرورت ہے، اپنی اصلاح کریں، اور اپنے رویوں میں تبدیلی لائیں۔ ورنہ ہمارے رویے شاعر کے اس شعر جیسے ہیں:

اپنی خرابیوں کو پس پشت ڈال کر
ہر شخص کہہ رہا ہے زمانہ خراب ہے

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ڈاکٹر میشال نذیر

ڈاکٹر میشال نذیر

بلاگر حیاتی کیمیا (بایو کیمسٹری) میں پی ایچ ڈی ہیں۔ اسلام اور سائنس کے موضوع سے خصوصی شغف رکھتی ہیں۔ جو کچھ ہمارے ارد گرد ہورہا ہے، اس سے سیکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ان کی سوچ اور فکر، معاشرے کی وہ تصویر ہے جس میں دھنک کے سارے رنگ ہیں؛ اور جسے دیکھنے کےلیے خوبصورت آنکھ چاہیے، جو ہر رنگ میں چھپی خاموشی، شور، سکون، خوشی، غم، خیال، تصور، غرض کہ ہر معاشرتی احساس کو دیکھ، سن، سمجھ اور برداشت کرسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔