نوٹ نہ اٹھانے کا مقابلہ

سعد اللہ جان برق  منگل 7 مئ 2019
barq@email.com

[email protected]

بڑے لوگوں کی باتیں،عادتیں دائیں بلکہ عیب تک بڑے ہوکر فیشن میں داخل ہوجاتے ہیں یا مشہور عالم ہوجاتے ہیں اور پھر لوگ ان میں طرح طرح کے فلسفے نکالتے اور معنی پہناتے ہیں۔مثال کے طور پر مونالیزا کی تصویری مسکراہٹ کو لے لیجیے اس پر کیاکچھ نہیں لکھا گیا  ہے اور اس مسکراہٹ میں کیاکچھ نہیں ڈالا نکالا گیا۔یقیناً اس پر بے شمار پی ایچ ڈی کے تھیسس بھی لکھے گئے ہوں گے یہاں تک کہ یہ مسکراہٹ دراصل اس بچے کی تھی جو اس کے پیٹ میں تھا اور کسی اور کو تو کیا خودمونالیزا اور شاید بچے کو بھی پتہ نہ تھا۔

لیکن نکالنے والے جو چاہیں نکال بھی سکتے ہیں اور ڈالنے والے ڈال بھی سکتے ہیں، خود ہمیں اگر اچھی سی آفر ہوئی تو ہم مونالیزاکی مسکراہٹ سے روسی حکومت کے منتشر ہونے،امریکا کے سپرپاور بننے بلکہ ٹوئن ٹاور کے دھماکے کے مجاہدین کے دھڑوں اور انجلینا جولی اور براڈپٹ کی شادی اور طلاق کی پیش گوئی بھی نکال سکتے ہیں بلکہ پریانکا چوپڑا ،دیپکا پڈوکون اور کرینہ کپور کی شادیاں بھی اس میں ڈال سکتے ہیں بلکہ اگر کچھ اور گُڑ ڈالیں تو عمران خان اور وزیراطلاعات کے حدود اربعہ یعنی قامت وشامت کی نشانیاں بھی ڈھونڈ سکتے۔ہاں کوئی کچھ بھی دے ہم اس سے ٹرمپ کی بدصورتی اور مودی کی بدمورتی نہیں نکالیں گے۔

ویسے سنا ہے امریکا کا ایک شخص اس مسکراہٹ میں آیندہ جنگ عظیم کی نقلیات پر ریسرچ کررہاہے۔حالانکہ ایسی مسکراہٹیں ذرا ہمارے ساتھ آئیں تو شہر تو کیا جنگلی پہاڑی خواتین میں بھی ہزاروں دکھاسکتے ہیں بلکہ اس دن تو ہمیں پشاور میں تعمیر ہونے والے سب سے بڑے اژدھے بی آر ٹی میں بھی مونالیزائی مسکراہٹ نظر آئی تھی جو پشاور شہر کے ہونٹوں پر نمودار ہوئی تھی۔خیرمونالیزا کو ایک طرف کردیجیے، ہم بڑے لوگوں کی بڑی باتوں کے سلسلے میں بل گیٹس کا ذکر کرنا چاہتے ہیں جن کے بارے میں کہاجاتاہے کہ اگر اس کے ہاتھ سے ہزار ڈالر کا نوٹ گرجائے یا پڑا ہوا دیکھے تو وہ اسے اٹھانے کے لیے نہیں جھکے گا کہ اتنے وقت میں اس کی کمائی ہزار ڈالر سے زیادہ ہوتی ہے۔ہوگی اس کی کمائی لیکن ایک ہزار کا نوٹ نہ اٹھانا اور یونہی چھوڑ کر چلے جانا یا تو وہ امریکی نہیں یا پھر وہ نوٹ ہزار ڈالر کا نہیں دس روپے کا ہوگا لیکن کیا وہ بنیے کا کلیہ غلط تھا؟بنیے کو اس کے کچھ دوستوں نے بتایا کہ تمہارا بیٹا تو بالکل کسی کام کا نہیں، کل دوستوں کے ساتھ بازار میں جارہاتھا کہ صاف ہموار راستے پر لڑکھڑا کرگرپڑا۔

اسے کچھ کھلا پلایا کرو۔ بنیے نے بیٹے کو بلاکر سخت سست کہا۔ بیٹے نے کہا، پہلے میری بات تو سنیے۔واقعی ایسا ہی ہواتھا،لیکن وجہ اس کی یہ تھی کہ میں نے راستے میں ایک نوٹ پڑادیکھا تو سوچا کہ ایسے ہی اٹھاوں گا تو یہ ساتھی بھی حصہ مانگیں گے اس لیے گرنے کا بہانہ کرکے وہ نوٹ اندر کرلیا۔ اس پر بنیے نے شاباش دیتے ہوئے کہا، میں بھی سوچتا رہا کہ بنیے کا بیٹا اور یوں مفت میں گرے، ناممکن ہے۔ اس مذکورہ امریکی کے بارے میں تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ بنیا یہودی ہے کہ نہیں؟ لیکن ایک اور بات کا ہمیں شک نہیں یقین ہے۔کیونکہ امریکیوں کے بارے میں جو کچھ سناہے یاامریکا پسند’’متاثرین‘‘ کودیکھاہے اس دال میں بھی کچھ کالا ہے۔

یقیناً اس نے دیکھ لیاہوگا کہ نوٹ تو ہے پڑاہوا لیکن اس کے کونے میں باریک سا تار بھی بندھاہوا اور یقیناً کچھ پاکستانی بچے کسی آڑ میں تارکو ہاتھ میں لیے بیٹھے ہوں گے کیونکہ وہ بھی تو پرانا کھلاڑی ہے، سرمائے سے دوسروں کو للچاکر اور پھر اپنی طرف کھینچنے میں یدطولیٰ رکھتاہے اورامریکا میں بیٹھے بیٹھے ساری دنیا کے کونے کھدروں سے نوٹ کھینچنے والا۔اس لیے اس نے نوٹ نہیں اٹھایا ہوگا یا نہیں اٹھائے گا۔کسی کھیل کے ماہر کھلاڑی کو نوآموز کھلاڑی مات کیسے دے سکتے ہیں۔

لیکن یہ سارا گھڑاگ ہم نے اس لیے نہیں پھیلایا ہے کہ ہمیں بل گیٹس کے نوٹ اٹھانے نہ اٹھانے کا یہ قصہ سنانا تھا بلکہ یہ خوشخبری دینا تھا کہ ماشااللہ یہ سہرا نوٹ اٹھانے کا صرف بل گیٹس کے سر پر نہیں رہے گا بلکہ ہمارے وطن کے بچے اور بھکاری بھی اب ایسا ویسا نوٹ اٹھانے کے لیے نہیں جھکتے۔ یقین نہ ہو تو کسی بچے کے راستے میں چاہے وہ کسی بنیے کا بیٹا کیوں نہ ہو نوٹ پھینک کردیکھیے اگر وہ اٹھانے کے لیے جھکا تو جو سزا بل گیٹس کی وہ ہماری۔وہ دن گئے پاکستانی اب خدا کے فضل، آئی ایم ایف کی برکت اور لیڈروں کی محنت سے بل گیٹس کی ہمسری کرنے کے لیے تیارہیں۔ایک زمانہ تھا کہ ہم نے اسکول کے راستے میں ایک آنے کا سکہ پایا تو جب بھی وہاں سے گزرتے ٹھہرکروہاں ڈھونڈتے کہ کہیںپھر تو؟ بلکہ وقت نکال کربے مطلب بھی وہاں سے گزرنے کے مواقع تلاش کرتے۔

اس رہگزر پہ ان سے ہوگئی تھی ملاقات

اس رہگزر کو ہم نے گزرگاہ بنالیا

اور ایک مرتبہ چشم گل چشم کے ساتھ بھی ایسا ہواتھا۔ ایک مسجد میں اس سے ایک نوٹ گم ہوگیاتھا۔ مدتوں وہ اس مسجد میں نمازپڑھنے جاتا رہا اور ہر نماز کے بعد کونے کھدروں اور چٹائیوںکے درمیان یہاں تک کہ علامہ بریانی کے مصلے کے نیچے بھی جھانک لیاکرتاتھا۔

ہر ایک نقش پہ ہوتاہے نقش پاکا گمان

قدم قدم پہ تری رہگزر سے گزرے ہیں

یہ مت سمجھیے کہ ہم اس بہانے اپنے سکے کی تحقیر کررہے ہیں، تحقیر تو جنہوں نے کرنا تھا وہ کرچکے، ہم تو صرف امرواقعہ بیان کررہے ہیں، وہ بھی امریکیوں کو نیچا دکھانے کے لیے۔کہ تم لوگ پڑے ہوئے نوٹ نہ اٹھانے پر اتنا نہ اتراو، ہم بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔بھلے ہی کسی اور معاملے میں ہم آپ کو نیچا نہ دکھاسکتے ہوں لیکن نوٹ نہ اٹھانے پر ہم تم سے آگے بلکہ بہت آگے نکل چکے ہیں۔

تمہارا تو صرف بل گیٹس پڑاہوا نوٹ نہیں اٹھاتا لیکن اپنے یہاں کے بھکاری اور بچے بھی بل گیٹس بن چکے ہیں اور ایں سعادت بزور بازو نیست۔تا نہ بخشندہ سرکا ر بخشندہ۔ہمیں تو پکاپکا یقین ہے کہ یہ جونوٹوں میں مالیت کا فرق ہے، وہ بہت جلد مٹ جائے گا اور ہم بھی ہزار کے نوٹ کو نہ اٹھانے کے مرحلے تک پہنچ جائیں گے۔

’’راہ‘‘پر ان کو لگالائے تو ہیں نوٹوں میں

اور گرجائیں گے دوچار تبدیلیوں میں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔