احوال ایک کتاب دوست کا

شبیر احمد ارمان  منگل 7 مئ 2019
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

جہاں کتاب دوستی بقائے حیات کے لیے خطرہ بن جائے تو ایسے معاشرے میں جینا بے معنی ہوجاتا ہے، ہم اور آپ ایک ایسے معاشرے میں سانس لے رہے ہیں ، جہاں سانس لینے کے بدلے سب کچھ لٹانا پڑتا ہے۔ ایک علم دوست شخصیت جس نے اپنی پوری زندگی قلم کی حرمت کا پاس کرتے ہوئے گزاری، عرق ریزی کی اور لاتعداد کتابوں کا ترجمہ کرچکے ہیں لیکن آج وہ تنہائیوں کا شکار ہے اور اپنوں کی راہیں تک رہا ہے اورکوئی ایسا نہیں جو جاکر اس کی مزاج پرسی کرے وہ زندہ رہنے کے لیے کسی سے بھیک کی نہیں بلکہ روزگارکا متلاشی ہے۔

اس سینئر صحافی و مترجم کا نام محمد احسن بٹ ہے۔ کس قدر افسوس ناک بات ہے کہ  دیار غیر میں مقیم میرے عزیز دوست امین بھایانی اس کی حالت زندگی سے آگاہ کرتے ہیں اور ہم یہاں ملک میں رہتے ہوئے بھی اس سے بے خبر ہیں ۔ محمد احسن بٹ کا ایک رقعہ جو انھوں نے ممتاز افسانہ  نگار امین بھایانی کو بھیجا ہے اور انھوں نے مجھے اس امید کے ساتھ ارسال کیا ہے کہ میں اس تحریر کو اپنے کالم میں جگہ دوں ۔

محمد احسن بٹ کی یہ تحریر نذر قارئین ہے ۔

میری بینائی بہت کم زور ہوچکی ہے اور چند ماہ قبل حادثے میں دایاں بازو نیم ناکارہ ہوچکا ہے۔ یقین کیجیے میں نے ساری عمر بے حد محنت کی ہے آپ خود جانتے ہیں کہ ترجمے کا کام کس قدر محنت طلب کام ہے ۔ اپنے لیے تو وقت بچتا ہی نہیں ۔ منفی ذہن کے لوگوں میں رہ کر کام کرنا ، جینا کتنا دشوار ہے ، یہ آپ جانتے ہیں ۔ برادر میں کرائے کی کھولیوں میں رہتا ہوں، چند دن پہلے تک ایک اسپتال کے نزدیک رہتا تھا وہ بدمعاش لوگ تھے۔ان کے منشی نے ایک صبح مجھ سے کھولی خالی کروالی دھوپ میں سامان سمیت سڑک پر رہا۔ شام میں ایک دوست نے یتیم خانہ چوک کے نزدیک ایک کھولی نما کمرہ کرایہ پر لے دیا، اس وقت اسی کمرے میں ہوں ۔

ایسی کھولیوں کا کو ئی باقائدہ ایڈریس نہیں ہوتا ۔کوئی دوست ملنا چاہے تو لاہور میں چوک یتیم خانہ آکر مجھ سے رابطہ کر لے۔ میں انھیں اپنے کمرے میں لے آؤں گا یا جہاں وہ مناسب سمجھیں ان کی خاطر داری کروں گا ۔ بھائی میں اس وقت اکیلا ہوں یہاں لاہور میں ۔میری بہن اور بھائی لیہ میں ہیں۔ میں لیہ کا رہنے والا ہوں ۔کام کے لیے لاہور،کراچی رہتا ہوں ، جہاں کام مل جائے۔ پرانے ادیبوں کے حالات زندگی پڑھ کر مجھے اپنے حالات کا اندازہ تھا ،اس لیے شادی نہیں کی کہ اپنے ساتھ ایک اور انسان کو اور پھر بچوں کوکیوں عذاب دوں ۔امی ابو کے ساتھ مل کر بہنوں کو بیاہا ۔ابھی ایک بہن اور بھائی کو بیاہنا ہے ۔اب میں بھی کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ شاید ایسے ہی کسی کرائے کے کمرے میں مرجاؤں گا ۔ میں ساری رکاوٹوں کے باوجود خود بھی کام کے لیے بھاگ دوڑکرتا ہوں ، امین بھائی میں پچاس سال کا ہوں جیسے حالات میرے ہیں اور جس طرح کے ماحول میں زندگی بسر ہورہی ہے اس میں اچانک موت نہیں آتی تو دس سال اور جی لوں گا ۔سو بس یہ چاہتا ہوں کہ تھوڑا کام اور کرنے کا موقع مل جائے ،یہی اپنے لیے خواہش ہے ۔

محمد احسن بٹ خداداد صلاحیتوں کے مالک ہیں وہ پاکستان کی کتابی صنعت اورکتاب دوست حلقوں میں میڈیا کارکن ، مصنف اور متراجم کے طور پر جانے پہچانے جاتے ہیں ۔انھیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ کم وقت میںکسی انگریزی فلم کا اردو ترجمہ کرتے رہے ہیں اور انگلش زبان کی کتابوں کا بھی اردو زبان میں ترجمہ کرتے رہے ہیں ۔ان کے کام سے دولت کمانے والوں نے انھیں کبھی اپنے پاس مستقل ملازم بھی نہ رکھا تآنکہ وہ یکسوئی ہوکر اپنے کنبے کی کفالت کرسکیں ۔

جیسا تیسا کرکے وہ اپنے خاندان کی کفالت کرتے رہے، حتیٰ کہ انھوں نے اپنی شادی سے بھی گریزکیا ، اس کے کسی عمل سے کسی کی حق تلفی نہ ہو ۔ایک دن وہ لاہورکی کسی سڑک پر چنگ چی پر سفرکر رہے تھے کہ کسی وجہ سے گرگئے اور ان کا دایاں بازو زخمی ہوگیا، یہ وہی بازو ہے جو دن رات قلم تھامے لکھتے لکھتے تھک جاتا تھا، اب اس نے کام کرنے سے جواب دے دیا ہے جب کہ یہ بازو قابل علاج ہے مگر تنگ دستی اس کی اجازت نہیں دیتی۔امین بھایانی بتاتے ہیں کہ محمد احسن عجیب قسم کے انسان ہیں وہ سگریٹ نہیں پیتے ،چائے بغیر دودھ اور چینی کے پیتے ہیں ۔شکایت کرتے ہیں اور نہ ہی انسانیت پر اپنا اعتماد کھو دینے پر تیار ہیں، وہ اپنی عزت نفس اور اپنے اصول میں پختہ ہیں جب نوبت فاقہ کشی تک پہنچ جاتی ہے تو کہتا ہے کہ سب کچھ تو ہے میرے پاس ۔جب کہ اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے حتیٰ کہ ان کے پاس وہ رقم بھی نہیں ہے جو انھیں کسی اخبار کے مالک نے دینی ہے ان کی یہ رقم جولائی 2017ء سے اب تک انھیں ادا کی جانی ہے جو اس کی محنت کا بدل ہے ۔

کیا محمد احسن بٹ کا قصور یہی ہے کہ وہ علم اورکتاب دوست ہے؟ ہم اور آپ ایک ایسے معاشرے میں جی رہے ہیں جہاں اخبارات سرکاری اشتہارات کے لیے اپنی سرکولیشن زیادہ سے زیادہ دکھاتے ہیں، پبلشنگ ادارے زیادہ سے زیادہ آمدنی کے خواہش مند ہوتے ہیں اور جوتے ایئرکنڈیشن دکانوںکے شیشے کے شوکیس میں فروخت ہوتے ہیں جب کہ کتابیں سر راہ فٹ پاتھوں پر اپنے خریداروں کی راہ تکتی ہیں۔ ایسے معاشرے میں نہ جانے اورکتنے محمد احسن بٹ جیسے علم دوست کسمپرسی کی عالم میں دنیا سے گزرگئے ہونگے ۔ قلمکار ہمارے معاشرے کا اثاثہ ہوتے ہیں وہ اپنا قلم دل کے خون میں ڈبوکر سماج کی ترجمانی کرتا ہے اور آگے چل کر ان کی یہی تحریر تاریخ کا حصہ بن جاتی ہے ۔

لیکن شاید ہم بے حس قوم بن چکے ہیں یا پھر مطلب پرست یا پھر خود غرض ! جو بھی ہو اتنا ضرور ہے کہ جب ہمیں کسی سے کوئی کام پڑتا ہے تو ہم اسے یاد کرتے ہیں ، لوگوں کے سامنے اس کی تعریفوں کے پل باندھتے ہیں اور بلا ضرورت اسے سلام کرتے ہیں، تحفے تحائف دیتے ہیں ،خوش آمد کے طریقے تلاش کرتے ہیں ، محض اس لیے کہ وہ ہمارا کام کرسکے اور جب اس سے مطلب پورا ہوجاتا ہے تو طوطے کی طرح آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔

ایسا ہی کچھ محمد احسن بٹ کے ساتھ ہوا ہے ۔جب ضرورت مندوں کو اس کی صلاحیتوں قلم کاری کی ضرورت تھی تو وہ صبح وشام اس کے گن گاتے تھے اور اس کی کام کی تعریفیں کیا کرتے تھے اور محمد احسن بٹ ان کے چہروں کو پڑھ نہ سکا تھا یا پھر وہ جان کر بھی اس دھوکے میں رہے کہ شاید کوئی نہ کوئی اس کا ہمدرد نکلے گا جو مصیبت میں اس کا ساتھ دے گا لیکن یہ سب کچھ اس کا خام خیالی ثابت ہوا ۔ آج سب کچھ اس کے سامنے عیاں ہوچکا ہے، زندگی کا سبق ایسا پڑھ لیا ہے کہ دنیا کی تمام تعلیم اس کے آگے بے معنی سی ہوکر رہ گئی ہیں ۔ اگرکسی صاحب کو محمد احسن بٹ کی حالت پر ترس آجائے اور وہ اس کی حال پرسی کرنا چاہے تو بھائی امین بھایانی کے اس نمبر پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔ 03003713869۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔