ضمنی انتخاب کے سبق

اسلم خان  جمعـء 23 اگست 2013
budha.goraya@yahoo.com

[email protected]

پاکستان میں جمہوریت کا پودا پھل پھول رہا ہے، اپنی جڑیں مضبوط کر رہا ہے ۔ تاریخ کے سب سے بڑے ضمنی انتخابات میں نتائج پر کوئی انگلی اُٹھانے کی جرأت نہیں کر سکتا۔

شب گزشتہ ضمنی انتخاب کے نتائج میں سب کے لیے نصیحت آموز سبق پوشیدہ ہیں، خاص طور پر جناب عمران خان کے لیے جو اپنی دونوں خالی کردہ نشستیں، واپس حاصل کرنے میں ناکام ہو گئے۔ میانوالی کے آبائی حلقے میں خاندان کی اندرونی توڑ پھوڑ نے یہ دن دکھایا کہ عمران خان کا امیدوار بری طرح ناکام ہو گیا۔ اسی طرح صرف دو ماہ پہلے عمران خان پر دل و جان سے فریفتہ ہونے والے اہل پشاور نے بھی آنکھیں پھیر لیں اور بزرگ سیاستدان حاجی غلام احمد بلور یہ معرکہ سر کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

ضمنی انتخاب کا پہلا سبق تو یہ ہے کہ بے لچک رویوں اور ووٹروں سے سرد مہری، وفا کو چشم زدن میں جفامیں بدل سکتی ہے۔ جناب عمران خان کے ساتھ میانوالی اور پشاور میں اس کا عملی مظاہرہ ساری دنیا نے دیکھا۔

وفاقی دارالحکومت کے شہری حلقے سے تحریک انصاف کے ’فائیواسٹار‘ امیدوار اسد عمر کی غیر متوقع کامیابی نے ثابت کر دیا ہے کہ بابوئوں کے شہر اسلام آباد کے مزاج میں خاصا ٹھہرائو پیدا ہو چکا ہے۔ اسد عمر کی تمام تر منفی فہرست کے باوجود ان کی کامیابی کو عمران خان کے ’کھمبے‘ کی فتح قرار دیا جا سکتا ہے۔ اسد عمر، نوجوان کاروباری ماہرین کی نوجوان نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ جنہوں نے کاروباری علوم کے ذریعے اس بازار میں قدم رکھا ہے۔

اسلام آباد کا معرکہ اس لیے بڑی اہمیت اختیار کر گیا تھا کہ اسد عمر وفاقی دارالحکومت کے رائے دہندگان کے لیے بالکل اجنبی شخصیت تھے۔ فوزیہ قصوری کے ناگوار تنازع کی وجہ سے فضا خاصی مکدّر تھی لیکن مسلم لیگ (ن) کی قیادت تمام تر کوششوں کے باوجود فوزیہ قصوری کو آمادۂ بغاوت نہ کر سکی اور عمران خان ناراض اور آزردہ خاطر فوزیہ کو منانے اور واپس لے جانے میں کامیاب ہو گئے۔ طرفہ تماشا تو یہ تھا کہ اسد عمر نے اپنی انتخابی مہم مقامی فائیو اسٹار ہوٹل میں رہ کر چلائی تھی کہ وہ امرا کے اس شہر میں، کسی پوش سیکٹر میں رہائش گاہ کو اپنے لیے غیر محفوظ تصور کرتے تھے۔

مسلم لیگ (ن) کے امیدوار اشرف گجر کو کئی معاملات میں اسد عمر پر سبقت حاصل تھی۔ وکلاء برادری میں نمایاں مقام رکھنے والے اشرف گجر، مدتوں سے وفاقی دارالحکومت میں بروئے کار ہیں۔ انھیں اپنی برادری کے ہزاروں ووٹوںکا سہارا بھی حاصل تھا۔ ان کے حلقے کی کچی آبادیوں کا واضح جھکائو بھی ان کی طرف تھا۔ انھیں متحرک کارکنوں اور دوستوں کا تعاون بھی حاصل تھا۔ اور سب سے بڑھ کر ان کے حریف اسد عمر کے ووٹروں کو گھروں سے پولنگ اسٹیشن جانے پر آمادہ کرنے والے پُر جوش کارکن غائب تھے جس کی وجہ سے وفاقی دارالحکومت میں ووٹوں کی شرح کا تناسب صرف 20  فیصد رہا لیکن اس کے باوجود عمران خان کے متوالوں نے اپنے قائد کے’ کھمبے‘ کو ووٹ کی طاقت سے پارلیمان تک پہنچا دیا ہے جس پر جناب عمران خان کا سر بارگاہ ایزدی میںجھک جانا چاہیے۔

ویسے میجر جنرل (ر) غلام عمر کے خانوادے پر طاقت اور عظمت ٹوٹ ٹوٹ کر برس رہی ہے۔ زبیر عمر، حکمران مسلم لیگ (ن) کے فکری رہنمائوں میں شامل اور اب ایک اہم سرکاری ادارے کے سربراہ ہیں۔ اسد عمر کثیر الاقوامی کاروباری اداروں کی جگمگاتی دنیا کو خیر آباد کہہ کر میدان سیاست میں آئے تو اپنی ذہانت اور فطانت کا سکہ ایسا منوایا کہ ہمارے دفاعی ماہرین کو اعداد و شمار کے گورکھ دھندوں میں الجھا کر اپنی عقل و دانش کا اسیر بنا لیا۔ اُن کا نام نگران وزیر اعظم کے طور پر بھی منظر عام پر آیا تھا۔ عمر برادران کا تیسرا بھائی کراچی سٹا ک ایکسچینج کا سربراہ ہے۔

پشاور سے غلام احمد بلور ۔۔۔ نہیں جناب والا، حاجی غلام احمد بلور کی کامیابی نے ثابت کر دیا ہے۔ محض الزامات کو ہمارے شہری رائے دہندگان پرِ کاہ کی حیثیت دینے کو بھی تیار نہیں ہیں۔ حاجی غلام احمد بلور کے دور وزارت میں ریلوے کا جو حشر ہوا وہ کوئی راز نہیں۔ ہماری بھتیجی اور بے مثل کالم نگار مریم گیلانی نے بہت کچھ بے نقاب بھی کیا۔

عام انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں پر سب سے زیادہ شور تحریک انصاف اور عمران خان نے مچایا تھا۔ گزشتہ دنوں انھوں نے قرطاس ابیض (White Paper) بھی جاری کیا جس کے اڑھائی ہزار صفحات پر مشتمل دستاویز کی ردی بھی منسلک کی گئی تھی لیکن خدا کا شکر ہے ضمنی انتخاب کے نتائج سب سے پہلے عمران خان صاحب نے خوش دلی سے تسلیم کیے ہیں اور حاجی غلام احمد بلور کو فتح پر مبارک باد دے کر نئی مثال قائم کی ہے جو کہ گم کردہ راہ، جذباتی نوجوانوں میں گھرے عمران خان کا کارنامہ تصور کیا جانا چاہیے۔

ویسے اگر ٹھنڈے دل سے ضمنی انتخاب کا نتائج کا عام انتخابات سے تقابل کیا جائے توکوئی بڑا اپ سیٹ دکھائی نہیں دیتا۔ ضمنی انتخاب میں وزیر اعظم نواز شریف نے بہت زیادہ دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا یہاں تک کہ اپنی مصروفیات کی وجہ سے ووٹ ڈالنے لاہور بھی نہیں جا سکے جس کی وجہ سے شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کا مظاہرہ کرنے والے سرکاری افسر بھی اپنی ’اوقات‘ سے باہر نہیں ہوئے۔ ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ (ن) کی مہم، عملیت پسند نوجوان سیاستدان حمزہ شہباز نے چلائی تھی۔

پیپلز پارٹی نے ضمنی انتخاب میں سندھ کی حد تک پیش قدمی جاری رکھی ہے اور خاص طور پر ان کی دو خواتین امیدواروں، شازیہ مری کا پیرصاحب پگاڑا کے گڑھ سانگھڑ سے قومی اسمبلی کا انتخاب جیت جانا بڑی اہم پیش رفت سمجھی جا رہی ہے اسی طرح ٹھٹھہ کے سدا بہار شیرازی خاندان کے چشم وچراغ کا پیپلز پارٹی کی ایک دوسری خاتون امیدوار سے شکست کھا جانا بھی اہم سیاسی تبدیلی کا پیش خیمہ ہے۔ سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کے والد غلام محمد نور ربانی کھر کی فتح پیپلز پارٹی سے زیادہ اُن کے خاندانی اثر و رسوخ کی مرہون منت ہے لیکن اسے اوکاڑہ میں منظور وٹو کے صاحبزادے کی جیت سے منسلک کر کے پنجاب میں پیپلز پارٹی کی واپسی کا پہلا مرحلہ قرار دیا جا سکتا ہے ۔

کراچی شہر میں ایم کیو ایم کے امیدواروں کی غیر معمولی ووٹوں کے ساتھ فتح نے دھن دھونس اور دھاندلی کے تمام الزامات کے داغ دھو ڈالے ہیں۔ لندن سے کراچی تک دبائو کا شکار الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو ضمنی انتخاب کی وجہ سے سیاسی اور اخلاقی سہارا ملا ہے۔

جمہوریت کی رنگ برنگی بساط پر ہونے والے کھیل نے یہ عجب منظر دکھایا ہے کہ عمران خان اپنی آبائی نشست گنوا بیٹھے۔ پشاور کے متوالوں نے آنکھیں بدل لیں لیکن وفاقی دارالحکومت میں ان کا نامزد کردہ اجنبی ’کھمبا‘ جیت گیا۔ اسی طرح حاجی غلام احمد بلور کا راستہ نہ سنگ الزام نے روکا نہ ہی سنگ دشنام پارلیمان جانے سے انھیں روک سکی۔

حرف آخر یہ کہ تمام حریفوں اور فریقوں نے ضمنی انتخاب کے نتائج کو خوش دلی سے قبول کر لیا ہے۔ کھلے دلوں اعتراف شکست اور مبارک بادوں کے تبادلے ہو رہے ہیں جو سیاسی بلوغت کا ثبوت ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔