رویوں میں شدت

ایکسپریس اردو  جمعـء 6 جولائی 2012
 ڈاکٹروں کا مسئلہ حل نہیں ہوتا تو ہمیں بتاتے ، ہم معاملہ حل کرا دیتے۔‘‘ ۔فوٹو ایکسپریس

ڈاکٹروں کا مسئلہ حل نہیں ہوتا تو ہمیں بتاتے ، ہم معاملہ حل کرا دیتے۔‘‘ ۔فوٹو ایکسپریس

اس پورے معاملے میں ہر فریق کی جانب سے شدت کا مظاہرہ کیا گیا۔ اعتدال کی راہ کسی نے نہیں اپنائی۔ ینگ ڈاکٹرز کا مطالبہ ہے کہ انھیں نہ صرف اٹھارہواں اسکیل دیا جائے بلکہ انھیں سرکاری ملازمین والی تمام سہولیات بھی دی جائیں اور ان کے لیے سروس سٹرکچر بنایا جائے۔ وہ یہ نہیں سوچ رہے کہ انھیں اٹھارواں اسکیل دینا کس طرح ممکن ہے،جب کہ ان کی طرح کے دیگر شعبوں کے نوجوان انجئنیر، لیکچرار، سول سرونٹ وغیرہ کو گریڈ سترہ دیا جاتا ہے۔ ان کے پاس اس کا بھی کوئی جواب نہیں کہ اس وقت جب کہ پنجاب بھر میں چھیالیس، سنتالیس ڈگری سینٹی گریڈ کا انتہائی شدید موسم چل رہا ہے لوگ ویسے بھی لوڈ شیڈنگ سے بے حال ہوئے پڑے ہیں، اسپتالوں میں مریضوں کا رش معمول سے دوگنا ہوچکا ہے، ان دنوں میں ہڑتال کی کیا ضرورت تھی؟ سروس سٹرکچر تو پچھلے پچاس برس سے نہیں ملا، اب اچانک کیا یہ دیرینہ مسئلہ یوں حل ہوجاتا؟

دوسری طرف پنجاب حکومت نے ڈاکٹروں کے مطالبات کو ناجائز قرار دے کر ان کے مطالبات کو تسلیم کرنے سے یکسرانکار کر دیا۔پنجاب کے ’’شعلہ بیاں ‘‘وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے کہا،’’اپنی ڈیوٹی سے غفلت برتنے کی پاداش میں ڈاکٹروں کی ڈگریاں کینسل کر دی جائیں گی اور انھیں جیل بھیج دیا جائے گا۔‘‘

اپوزیشن نے بھی اس مسئلہ کو مل جل کر حل کرنے اوریکساں موقف اختیار کرنے کے بجائے سیاسی بیانات دے کر اپنی سیاست چمکانے کی کوشش کی گورنر پنجاب نے بیان دیا کہ ’’رانا ثناء اللہ بتا ئیں کہ کس قانون کے تحت ڈاکٹروں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے۔‘‘ق لیگ کے رہنما پرویز الٰہی نے کہا کہ ’’فوجی ڈاکٹرز بلانے سے شہباز شریف کی نااہلیت ثابت ہوگئی۔ تاریخ کے بدترین بحران کے ذمے دار شہباز شریف ہیں۔‘‘ جماعت اسلامی کے امیر منور حسن نے کہا کہ ’’پنجاب حکومت نے صحت کے شعبہ میں مارشل لاء لگا دیا۔‘‘ سینئر مشیر داخلہ رحمان ملک نے بھی موقع کی مناسبت سے بیان داغا کہ ’’وزیراعلیٰ پنجاب کو ڈاکٹروں کی ہڑتال کو بھی لیڈ کرکے اپنا شوق پورا کرنا چاہیے تھا ۔ وزیراعلیٰ پنجاب ٹینٹ سے نکلیں اور اپنی خراب گورننس کی وجہ سے پیدا شدہ مسائل کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ فیڈریشن کے خلاف ہڑتالیں کرنے والے قوم کو بتائیں کہ وہ اپنی نااہلی کو تسلیم کرتے ہوئے کب استعفیٰ دے رہے ہیں۔‘‘عمران خان نے البتہ قدرے متوازن بیان دیا کہ کہ ’’اگر پنجاب حکومت سے ڈاکٹروں کا مسئلہ حل نہیں ہوتا تو ہمیں بتاتے ، ہم معاملہ حل کرا دیتے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔