صدارتی نظام کی بحث  

مزمل سہروردی  بدھ 8 مئ 2019
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

وزیر اعظم عمران خان نے بالآخر بظاہرصدارتی نظام کی بحث کو ختم کر دیا ہے۔ انھوں نے واضح طورپر صدارتی نظام کی بحث سے علیحدگی اختیار کی ہے اور کہا ہے کہ انھیں نہیں معلوم کہ یہ بحث کس نے اور کیوں شروع کی ۔ میں بھی سمجھتا ہوں کہ ملک میں صدارتی نظام کی بحث تحریک انصاف اور عمران خان کے نادان دوستوں نے شروع کی تھی۔

عمران خان کے نادان دوستوں نے سوشل میڈیا پر یہ لکھنا شروع کر دیا کہ عمران خان پارلیمانی نظام کے آخری وزیر اعظم ہوں گے اور صدارتی نظام کے تحت پاکستان کے پہلے صدر ۔ یہ وہ نادان دوست ہیں جو ماضی میں عمران خان کے بیانیے کو آگے بڑھانے میں پیش پیش رہے ہیں۔ انھیں تحریک انصاف کے صف اول کے مجاہد سمجھاجاتا ہے اور یہ سب عمران خان کو اقتدار میں لانے کا کریڈٹ لیتے تھکتے نہیں۔

عمران خان کے نادان دوست پاکستان کے آئین و قانون کی پیچیدگیوں کی پرواہ کیے بغیر بس صدارتی نظام کے حق میں تحریک چلا رہے تھے۔ ایک ایسا ماحول بنا رہے تھے کہ عمران خان نے پارلیمانی نظام کو لپیٹنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ وہ اب اس نظام سے جان چھڑانے کے لیے راہیں تلاش کر رہے ہیں۔ ایسے میں وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے بھی کہیں کہہ دیا کہ ملک میں صدارتی نظام کے لیے ریفرنڈم بھی ایک راستہ ہو سکتا ہے۔ بس پھر کیا تھا، صدارتی نظام کے لیے ریفرنڈم کی باتیں شروع ہو گئیں۔ لیکن پھر بھی آئین و قانون کے ماہرین کا یہ خیال تھا کہ صرف ایک ریفرنڈم سے ملک کو پارلیمانی نظام حکومت سے صدارتی نظام کی طرف موڑنا عملاً ممکن نہیں ہے۔

ایک عموی رائے یہ بھی تھی کہ ایسے کسی ریفرنڈم کا سوچنا بھی آگ سے کھیلنے کے مترادف ہو گا۔ پاکستان میں پہلے ہی بہت بڑے سانحہ کے بعدایک آئین پر اتفاق ہوا تھا۔ اب اس آئین کو چھیڑنے کا سوچنا بھی ملک کو ایک نئے بحران سے دوچار کر سکتا ہے۔ اس وقت ملک میں ایسا سیاسی ماحول نہیں ہے کہ ملک کی تمام سیاسی اکائیاں کسی ایک نئے آئین کسی ایک نئے صدارتی نظام پر متفق ہوسکیں۔ اس لیے آئین سے چھیڑ چھاڑ پاکستان کے لیے کسی بڑے نقصان کا باعث بھی ہو سکتا ہے۔ پارلیمانی نظام حکومت پاکستان کی بقا اور یکجہتی کا ضامن ہے۔ اس پر ملک کی تمام اکائیاں بھی متفق ہیں۔ ان کے لیے دوبار ہ کسی نئے نظام حکومت پر متفق ہونا ممکن نہیں۔

ایک رائے یہ بھی ہے کہ ملک کے مقتدر حلقوں کا خیال ہے کہ پارلیمانی نظام کے ذریعے گڈ گورننس ممکن نہیں ہے۔ اس نظام میں ایسی خرابیاں موجود ہیں کہ ملک کو ایک صاف ستھرا نظام حکومت دیا ہی نہیں جا سکتا۔ ان حلقوں کا خیال ہے کہ پارلیمانی نظام سے ملک میں حقیقی جمہوریت کا قیام بھی ممکن نہیں ہے۔ اس نظام کی وجہ سے کرپٹ افراد سے چھٹکارا ممکن نہیں ہے۔ ہر حکومت الیکشن جیتنے اور پارلیمانی اکثریت حاصل کرنے کے لیے ان کرپٹ افراد اور گندے انڈوں کی محتاج رہتی ہے۔ یہ گندے انڈے اپنی دولت اور طاقت کی وجہ سے الیکشن جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس لیے ہر حکومت ان کی محتاج رہتی ہے۔

آج تبدیلی کے نام پر بننے والی حکومت بھی ان کے ووٹوں کی وجہ سے ہی بنی ہے۔ حتیٰ کے جب آمریت آتی ہے تب بھی یہی گندے انڈے حکومت کے ساتھ شامل ہو جاتے ہیں۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں ان کو ساتھ ملانے پر مجبور رہتی ہیں۔ یہ اقتدار کے ضامن سمجھے جاتے ہیں۔یہ بڑی بڑی وزارتوں پر قبضہ کر لیتے ہیں۔غیر اہم ہوتے ہوئے بھی اہم ہوجاتے ہیں۔ انھیں اقتدار کے رموز از بر یاد ہیں۔ اس لیے اقتدار ان کے گھر کی لونڈی ہی رہتا ہے۔ آج تحریک انصاف کی تبدیلی بھی ان کی وجہ سے ہی ناکام نظر آرہی ہے۔ انھوں نے تحریک انصاف کی تبدیلی کو ایسا جکڑ لیا ہے کہ وہ کچھ نہیں کرپارہی ہے۔

اس لیے پارلیمانی نظام کے اس گند کو صاف کرنے کے لیے صدارتی نظام ہی واحد حل ہے۔ جب ملک کا سربراہ عوام کے ووٹوں سے براہ راست منتخب ہوگا تو وہ ان گندے انڈوں کا محتاج نہیں ہوگا۔ وہ الیکشن جیتنے والے گھوڑوں کا محتاج نہیں ہوگا۔ وہ کسی پارلیمانی اکثریت کا محتاج نہیں ہوگا۔ وہ اپنی کابینہ میں ان کو شامل کرنے کا پابند نہیں ہوگا۔ اگر یہ تب بھی پارلیمنٹ میں پہنچ جائیں گے تب بھی اقتدار تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ کیونکہ صدارتی نظام میں اقتدار صدر کے پاس ہوتا ہے جب کہ پارلیمنٹ کا کام صرف اور صرف قانون سازی اور آئین سازی رہ جاتا ہے۔ بنیادی طور پر پاکستان میں صدارتی نظام کے حق میں دلائل دینے والے دوستوں کے ذہن میں امریکی صدارتی نظام کا خاکہ موجود ہے۔

ان کے خیال میں پاکستان میں بھی صدر امریکی صدر کی طرح با اختیار ہونا چاہیے۔ پاکستان میں بھی صدر کے پاس اپنی کابینہ پارلیمنٹ سے باہر ٹیکنو کریٹ سے لینے کا اختیار ہونا چاہیے۔ حالانکہ اب بھی وزیر اعظم کو اپنی کابینہ پارلیمنٹ سے باہر ٹینوکریٹ سے لینے میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔ اس وقت ہر اہم وزارت پر ٹیکنوکریٹ ہی بیٹھا ہے۔ پارلیمانی نظام میں اس کی کوئی ممانعت نہیں ہے۔ وزیر اعظم کسی کو بھی کسی بھی محکمہ کا وزیر لگا سکتا ہے۔ بلکہ امریکی صدر کو تو اپنی تعیناتی کو سینیٹ سے منظور کرانا ہوتا ہے جب کہ پاکستان کے وزیر اعظم کو توا س ضمن میں مکمل فری ہینڈ ہے۔ اس ضمن میں اس کو پارلیمنٹ کی کسی کمیٹی کی منظوری بھی درکار نہیں۔ اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان کا وزیر اعظم حکومت چلانے میں امریکی صدر سے زیادہ با اختیار ہے۔ لیکن پھر بھی پاکستان کے وزیر اعظم کو کمزور سمجھا جاتا ہے۔

میں نہیں سمجھتا کہ ملک میں صدارتی نظام کو رائج کرنے میں پاکستان کے مقتدر طبقے سنجیدہ ہو سکتے ہیں۔  انھیں تو پارلیمنٹ کا محتاج کمزور اور لاغر وزیر اعظم قبول نہیں ہے، ان کو براہ راست منتخب مضبوط صدر کیسے قبول ہو گا جس کے پاس پارلیمنٹ کے پاس کردہ قوانین کو ویٹو کرنے کا اختیار بھی موجود ہے۔ اس لیے صدارتی نظام کی بحث کہیں نہ کہیں ملک کے اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش تھی۔ اس بحث کے باعث پارلیمانی نظام کو مزید کمزور ہورہا ہے۔

اس نئے پارلیمانی نظام کے خلاف رائے عامہ کو ہموار کرنے کی کوششوں کو تیز کیا گیا ہے۔ اس سے ملک میں جمہوریت کے خلاف رائے عامہ ہموار ہوئی ہے۔ جس کا فائدہ یقینی طور پر ان قوتوں کو ہی ہوگا جو ملک میں جمہوری نظام کو لپیٹنے کی کوشش میں رہتی ہیں۔ اس وقت جب پارلیمنٹ سے بجٹ پاس ہونا ممکن نہیں۔ صدارتی نظام کی آئین سازی کیسے ممکن ہو سکتی ہے۔ویسے بھی عمران خان کے نادان دوستوں کو تو شائد احسا س نہ ہو لیکن عمران خان کو احساس ہو گیا ہے کہ صدارتی نظام کی بحث دراصل ان کو اقتدار سے ہٹانے کی سازش ہے، اس کا نقصان اپوزیشن کو نہیں انھیں ہو رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔