کرپشن اور مہنگائی کا طوطا 

سعد اللہ جان برق  بدھ 8 مئ 2019
barq@email.com

[email protected]

چشم گل عرف قہر خداوندی کا ایک قول خاکین ہے کہ زندہ رہو گے تو بہت کچھ دیکھ اور سن لو گے۔ بلکہ دیکھتے اور سنتے رہو گے بلکہ دیکھنا اور سننا پڑے گا۔ واقعی ہم نے ایسی ایسی چیزیں دیکھی ہیں اور ایسی ایسی باتیں سنی ہیں جو قطعی ناقابل دید و شنید اور ناقابل یقین ہیں۔

وہ اپنے گاؤں کے نریندر مودی یعنی گل عالم کا قصہ تو ہم نے آپ کو سنایا تھا کہ وہ آخر اپنے خسر کے ہاں یہ کہہ کر پناہ گزین ہو گیا تھا کہ میں نے اپنے بھائی کو گولی مار دی ہے اور جب ہم نے موقع پر جا کر دیکھا تو اس کا بھائی لوگوں کے درمیان ہنس ہنس کر کہہ رہا تھا بلکہ ایک پستول بھی دکھا کر کہہ رہا تھا کہ دیکھو گل عالم نے مجھ پر پستول نکالی تو میں نے اسے اٹھا کر پٹخ دیا اور پستول چھین لیا، یہ دیکھو پستول کا میگزین دکھا کر میں نے اسے فائر کرنے کا موقع ہی نہیں دیا ہے۔ لیکن ایک اور قصہ ہم نے آپ کو بالکل نہیں سنایا ہے اور اس لیے نہیں سنایا ہے کہ اس میں کسی بھی طرف سے کوئی ’’تکُ‘‘ نہیں ہے۔

جب ہم اسکول جاتے تھے اور راستے میں ایک پاگل ہمیں کہیں نہ کہیں ضرور ملتا اور یہ شکایت کرتا کہ دیکھو اپنے باپ کو سمجھاؤ کہ مجھ سے باز رہے،وہ کبھی میرا ہاتھ،کبھی ٹانگ اور کبھی ناک کان کاٹ کر لے جاتا ہے اور آج تو حد ہو گئی، وہ میرا سر ہی کاٹ کر لے گیا ہے۔ ہم اس کے اعضا صحیح سلامت دیکھ کر کہتے کہ تمہارے ’’بریدہ‘‘ اعضا تو یہ موجود ہیں تو کہتا یہ تو میرے بھائی کے ہیں، میرے اپنے تو تمہارا باپ کاٹ کر لے جا چکا ہے ورنہ اگر کسی دن مجھے غصہ آگیا تو اس کے کانوں کے بیچ  ’’سر‘‘ کر دوں گا، پھر گلہ مت کرنا۔ اس وقت تو ہم اس کی ان باتوں کو سن کر چپ رہتے یا ہنس دیتے کہ منظور تھا پردہ اس کا۔ لیکن اب سوچتے ہیں کہ وہ پاگل کتنا بڑا دانا دانشور تھا، پاگل تو ہم تھے، کہ ظاہر دیکھ کر باطن پر قیاس کرتے تھے۔

اپنے پہ کر رہا ہوں قیاس اہل دہر کا

سمجھا ہوں دلپذیر متاع ہنر کو میں

واقعی ایسا ہو سکتا ہے بلکہ ہوا ہے، ہو رہا ہے اور ہوتا رہے گا۔ اب یہ دیکھیے ہم کب سے سن رہے ہیں اور نہایت ’’باوثوق‘‘ ذرائع سے سن رہے ہیں کہ ہم نے ان دو ناہنجار، نابکار اور سراسر مردار بہنوں ’’مہنگائی اور کرپشن‘‘ کا خاتمہ کر دیا ہے، ان کا بینڈ بجا دیا، کیفر کردار تک پہنچا دیا اور نام و نشان تک مٹا دیا ہے لیکن باہر نکلتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ جدھر دیکھتے ہیں ادھر تو ہی تو ہے۔

دونوں بہنیں ہاتھ میں اتنی بڑی بڑی کٹاریں اور گُرز لے کر سامنے والوں کا تیا پانچہ کر رہی ہیں ، بھر کس نکال رہی ہیں بلکہ نچوڑ نچوڑ کر تیل نکال رہی ہیں اور ادھر بیانات آ رہے ہیں کہ دونوں بہنوں کے سر پیر ناک کان کاٹ کر اور پھر قیمہ کر کے چیل کوؤں کو کھلا دیا گیا ہے اور اب ملک میں ان کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہا ہے، ظاہر ہے کہ ایک مرتبہ پھر اسی اسکول والی صورت حال کا سامنا ہے۔

پاگل کے بیان پر یقین کریں یا اس کے صحیح سلامت اعضا کو دیکھیں۔ سمجھ میں نہیں آ رہا، آپ کو کچھ آ رہا ہے سمجھ میں۔ اوہ سوری! آپ کی تو سمجھ دانی ہی نہیں ہے تو آئے گا کیا اور کہاں؟ ایسی حالت میں جب بندہ حیران اور پریشان ہوتا ہے اور کوئی مشورہ کرنے والا بھی نہ ہو تو بزرگوں نے ہدایت کی ہے کہ ’’دیوار‘‘ سے مشورہ کیا جائے یعنی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر سوچیے تو اللہ مہربان ہو جائے گا۔ لیکن ہمارے پاس دیوار سے بھی بہتر مشیر موجود تھا۔ ہمارا ٹٹوئے تحقیق خچر راہ ذریعہ سفر اور وسیلہ ظفر یعنی ڈفر سن آف ڈفر موجود تھا۔ اس نے بھی کمال کر دیا، ایسا مشورہ دیا بلکہ راہ سمجھائی کہ ہم نے بے اختیار اپنے ہاتھ میں موجود ڈنڈے سے اسے شاباش دی۔

بولا، پرانی کہانیوں میں جب کوئی شہزادہ کسی گل بکاولی یا نایاب گلاب یا پرستان کی تلاش میں نکلتا تھا تو کسی جنگل بیابان میں اسے کوئی فقیر یا جوگی وغیرہ مل جاتا تھا، جو چھ مہینے سوتا تھا اور چھ مہینے جاگتا تھا۔ شہزادہ جب پہنچتا تو اس وقت وہ سویا ہوتا تھا اور اس کا باغیچہ پانی کے بغیر سوکھ رہا ہوتا تھا۔ شہزادہ لگے رہو منا بھائی ہو کر اس باغیچے کو سیراب کرتا اور جب جوگی یا فقیر جاگ کر اپنے باغیچے کو ترو تازہ دیکھتا تو شہزادے سے ’’مانگ کیا مانگتاہے‘‘ کا مکالمہ کرتا اور پھر جوگی اسے مطلوبہ مقام یا چیز کا پتہ بتا دیتا تھا۔ لیکن یہاں پرابلم یہ ہوئی کہ ہم نکلے ٹٹو لے کر۔ تو ہر جگہ یہ موڑ آیا کہ جنگل بیابان تو اب رہے نہیں کہ وہاں گرین پاکستان نے بہت سارے درخت لگائے ہیں لیکن صرف’’لگائے‘‘ ہیں کیونکہ ’’لگانے والوں‘‘ کو بھی کچھ دیناتھا۔

لیکن اب وہ سارے سوکھ رہے تھے بلکہ سوکھ چکے تھے۔ اب ہمیں یہ بھی پتہ نہیں کہ ان اتنے سارے اور اتنے بڑے بڑے باغیچوں کا جوگی یا قلندر کہاں سویا ہوا ہے تا کہ ہم وہاں کچھ درختوں کی آبیاری کریں۔  اتنے بڑے رقبے کو سیراب کرنے کے لیے تو کسی ڈیم کی ضرورت تھی اور ڈیم کے لیے چندے کی ضرورت تھی اور ہمیں چندہ مانگنا آتا نہیں تھا۔ گویا جوگی قلندر کا یہ آئیڈیا بھی فلاپ ہو گیا لیکن ہمارا ٹٹو ایک مرتبہ پھر کام آیا۔

بولا ،آج کل جوگی قلندر بیابانوں میں نہیں بلکہ شہروں میں ہوتے ہیں کیونکہ شہر بھی جنگل بیابان ہو چکے ہیں اور اگر ہمیں کوئی جوگی قلندر ڈھونڈنا ہے تو شہر میں ہی ڈھونڈنا ہو گا۔ کیونکہ سارے فقیر قلندر جوگی اور پاگل دیوانے گداگر بھکاری بھی اب شہروں کو منتقل ہو چکے ہیں۔ کام اور بھی مشکل ہو گیا یہاں تو ساری سڑکیں، سارے چوراہے، سارے بازار اور گلی کوچے ملنگوں سے بھرے ہوئے تھے۔

کس سے پوچھیں کہ وصل کیا ہے

ہجر میں کیا نہیں کہ تم سے کہیں

پتہ کرنے پر پتہ چلا کہ کوئی پتہ نہیں چلے گا کہ ان میں سے بڑا اور رسیدہ ملنگ کونسا ہے؟ ایک مرتبہ پھر حیران و پریشان ہوئے اور دیوار کے بجائے ٹٹوئے تحقیق سے مشورہ کناں ہوئے۔ کیونکہ یہاں کی ساری دیواریں بھی الگ الگ مشورے دیتی ہوئی نظر آ رہی تھیں، بالکل وہی بات ہوئی کہ

نہ جہاں میں کہیں اماں ملی، جو ماں ملی تو کہاں ملی

ہم تھک ہار کر ایک پل کے نیچے سائے میں آرام کرنے لگے کیونکہ شہروں میں آرام بلکہ ساتھ ہی حرام کی جگہیں صرف ’’پل‘‘ ہیں۔ ادھر ادھر دیکھا تو پاس ہی ایک ملنگ کو سوتے ہوئے پایا۔ جو ہمارے ٹٹو کی نغمہ سرائی سے جاگ پڑا تھا۔ بات چیت ہوئی تو پتہ چلا کہ اس کا نام عوام ہے، ہمارا مدعا سن کر وہ پہلے ہنسا جو رونے جیسا تھا اور پھر رویا تو یہ رونا حقیقت میں رونے جیسا تھا۔ بولا، بس اتنی بات؟ اور تشریحتے ہوئے بولا، کہ تم نے جن دو بہنوں کا نام لیا ہے، یہ ایسے کبھی نہیں مریں گی کیونکہ ان کی ’’جان‘‘ جن طوطوں میں ہے، ان طوطوں تک پہنچنا کسی کے بس میں نہیں سوائے خود طوطوں کے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔