لندن

امجد اسلام امجد  جمعرات 9 مئ 2019
Amjadislam@gmail.com

[email protected]

گزشتہ چاروں شہروں میں ہمارے ٹھہرنے کی جگہیں بہت معقول اور آرام دہ تھیں جب کہ وہاں قیام بھی صرف ایک ایک رات کا تھا۔ لندن میں ہمیں تین راتیں گزارنا تھیں اگرچہ وہاں کا پروگرام ویسٹ لندن میں تھا مگر ہم نے ایسٹ لندن کے علاقے الفورڈ میں رہائش کا فیصلہ کیا کہ ہم سب کے زیادہ تر احباب اسی نواح میں پائے جاتے تھے۔ لندن کی وسعت کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ اس قربت کے باوجود بیشتر فاصلے 30سے60 منٹ پر محیط تھے جب کہ دوسرے سرے تک جانے میں دو سے ڈھائی گھنٹے تک بھی لگ سکتے تھے۔

Travelodge وہاں کی ایک بہت مشہور ہوٹل چین ہے لیکن اس کی بلندی اور پستی دونوں اپنی مثال آپ ہیں اس چین کا تجربہ دو برس قبل الخدمت فاؤنڈیشن کے فنڈ ریزنگ دورے کے دوران بہت اچھی طرح سے ہوچکا تھا۔بدقسمتی سے یہ الفورڈ والی  Travelodge خاصی صبر طلب تھی اس کا Reception پہلی منزل پر تھا جہاں تک جانے کے لیے دو عدد لفٹس موجود تو تھیں لیکن ایک ایک ہمارے پہنچنے سے قبل ہی خراب تھی اور دوسری قیام کے تیسرے دن جواب دے گئی اور یوں بھاری سفری بکسے سیڑھیوں کے ذریعے اُتارنے پڑے جو کوئی بہت آسان کام نہیں تھا اور تو اور اس مسافر خانے میں تازہ اور گرم ناشتے کا بھی کوئی معقول انتظام نہیں تھا۔

اتفاق سے سارے سفر میں جو دس شہروں پر محیط تھا یہ واحدشب باشی کی جگہ تھی جو آرام دہ نہیں تھی ۔ عزیزی سید عامر محمود جعفری نے کئی بار اسے تبدیل کرنے کا عندیہ دیا مگر ہم نے ’’ہمہ یاراں۔۔۔۔ ‘‘کے اصول پر عمل کرتے ہوئے انھیں اس سے منع کردیا کہ کبھی کبھی کی تکلیف آسانی ا ور آرام کی قدر و قیمت کو مزید بڑھا دیتی ہے۔

الفورڈ میں برادرم ساجد خان کے ریستوران ماشاء اللہ بہت ترقی کررہے ہیں حالانکہ ان میں بروقت ایسے مہمانوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے جن کی خاطر خدمت نہ صرف ساجد خان کے ذمے ہوتی ہے بلکہ وہ اسے اس خوشی اور گرمجوشی کے ساتھ ادا کرتا ہے کہ یہ ماننا مشکل ہوجاتا ہے کہ وہ کماتا کب ہوگا اُس کے ہونٹوں پر ہر وقت ایک خوش آمدیدی مسکراہٹ روشن رہتی ہے۔ اُس نے حال ہی میں اپنی مشہور کیک شاپ Pantary سے کوئی دو سو گز کے فاصلے پر ایک  لبنانی کھانوں کا ریستوران ’’الخیمہ‘‘ کے نام سے کھولا ہے جو اپنی وضع قطع کی خوبصورتی اور عمدہ کھانوں کی وجہ سے بغیر کسی تشہیری مہم کے خوب چل نکلا ہے ۔ یہاں ایک بہت ہی اچھے اور محبتی انسان سید انور سعید شاہ سے تجدید ملاقات ہوئی جو میرے یونیورسٹی کے زمانے کے کلاس فیلو سید علی ثنا شاکر بخاری کے کزن ہیں اور ایسے باکمال اور محبتی میزبان ہیں کہ اُن کی موجودگی میں پردیس گھر جیسا لگنے لگتا ہے۔

اس بار اُن کے ساتھ مشہور قوال خاندان بخشی سلامت کا ہونہار چشم و چراغ سہیل سلامت بھی تھا جس کا دل بھی اس کی آواز کی طرح خوبصورت ہے۔ یہاں 22 اپریل کے ’’رائل نواب‘‘ میں ہونے والے پروگرام کے بعد ہمارے پاس آرام اور سیر کے لیے تین دن تھے برادرم سہیل ضرار خلش، غزالی دوست  شوکت صاحب اور اُن کے احباب نے تقریب کی خوب تیاری کر رکھی تھی سو ہمارے آنے سے قبل ہی ہال کھچا کھچ بھر چکا تھا۔ معلوم ہوا کہ تین سو سے زیادہ ٹکٹ ایڈوانس میں جا چکے ہیں اور وقت پر آنے والے مہمانوں کے لیے جگہ کی گنجائش نہ ہونے کے برابر تھی اور حاضرین کے جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ چار گھٹنے بعد ہی وہ  ہل من  مزید کے نعرے لگا رہے تھے سو میں نے اور وصی شاہ نے بھی بہت دل سے اور دیر تک اس دورکنی مشاعرے کو جاری رکھا۔

عزیزی راشد عدیل ہاشمی جو فیشن ڈیزائنر ہونے کے ساتھ ساتھ وہاں کی ایک یونیورسٹی میں اس مضمون کا استاد بھی ہے حسب سابق ہر ہر قدم پر ساتھ رہا اور اسی نے نیچرل ہسٹری  میوزیم کی سیر کا اہتمام بھی کیا ۔ وصی شاہ اپنے کزنز کے گھیراؤ کی وجہ سے ساتھ نہ دے سکا اور اس کی اس غیرحاضری کا سلسلہ برادرم ڈاکٹر جاوید شیخ کے عشایئے تک پھیل گیا جس کا دونوں پارٹیوں کو افسوس رہا۔ جاوید بھائی کے گھر پر ایک کھانا گزشتہ تقریباً 25برس سے ہر لندن یاترا کا لازمی جزو بن چکا ہے یہ دوسرا موقع تھا جب ساقی فاروقی برادرم اس محفل میں موجود نہیں تھے ۔

عزیزہ دردانہ انصاری نے اپنی خوب صورت آواز کا جادو جگایا، معلوم ہوا کہ بی بی سی کی  خاصی طویل ملازمت کے بعد اب وہ رائل نیوی کے ایک خاصے سینئر عہدے پر ایک اعزازی قسم کی افسر ی کر رہی ہے جس کی شاندار یونیفارم ہیں ۔اُسے پہلی نظرمیں پہچاننا مشکل ہورہا تھا بیگم جاوید شیخ،حسینہ بھابھی اُن کی بیٹی عزیزی فاطمہ یاسر اور داماد کرکٹر یاسر عرفات مہمانوں کے آگے پیچھے جارہے تھے، عزیزی فیضان عارف سے بھی خوب گپ شپ رہی کہ یہ سینئر نوجوان اب وہاں ہر اعتبار سے مستحکم ہوچکا ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔