زلیخا مرد ’’تھی‘‘ یا عورت ’’تھا‘‘

سعد اللہ جان برق  جمعرات 9 مئ 2019
barq@email.com

[email protected]

ایک بات یا لطیفہ جس پر کبھی ہم نے یقین نہیں کیا تھا لیکن اب پکاپکا یقین ہوگیاہے کہ لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے۔یہ حکایت یا لطیفہ یوسف زلیخا کی کہانی سے متعلق ہے۔ کہتے ہیں ایک شخص نے دوسرے کو یوسف زلیخا کی پوری داستان سنائی تو سننے والے نے اختتام پر پوچھا یہ بتاؤ کہ یہ زلیخا مرد’’تھی‘‘ یا عورت’’تھا‘‘۔اس شخص نے جو کچھ بھی کہا ہوگا پتہ نہیں لیکن ہم نے ایک ایسی ہی بات سن کر اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنا منہ سر اتنا پیٹا اتنا پیٹا کہ سر اور ہاتھ دونوں ہی کام سے گئے۔

یہ خدا کابندہ جس کی ذہانت وفطانت بالکل اپنے لیڈروں پر گئی ہوئی معلوم ہوتی ہے،ہمیں اپنے خیال میں خوب خوب لتاڑا ہے۔اصل میں کچھ کالموں میں ہم نے پہلے تو ’’لہسن‘‘ کا ذکر استعارے یعنی بانسری میں کیاتھا لیکن جب احساس ہوا کہ ہمارا تخاطب پاکستانیوں سے ہے جنھیں اپنے لیڈروں اور حکومتوں کو  پہچاننے میں ستر سال کا عرصہ تو لگ چکاہے لیکن ان کی سمجھ دانی کو دیکھتے ہوئے شاید دوچارصدیاں اور بھی لگیں۔اس لیے پھر ہم نے شف شف چھوڑ کرصاف شفتالو کہنا شروع کیا اور اپنے خیال میں ہندی’’گھوس‘‘ کانام لے کر لہسن کی پوری پہچان کرا دی۔ہم بھول گئے تھے کہ ہمارا واسطہ یوسف زلیخا کی داستان سننے والوں سے ہے جن کو زلیخا کی جنڈر بتانے کے لیے الگ سے ایک کتاب کی ضرورت پڑتی ہے۔

اس محترم حکیم بقراط لقمان اور جالینوس نے ہمیں سمجھانے کے لیے اپنی عقل کے تمام’’والو‘‘ کھولتے ہوئے کہا ہے کہ یہ تم کیا لہسن لہسن کررہے ہو، اتنا بھی نہیں جانتے کہ لہسن کتنی مفید چیز ہے یہ جسم خون اور رگوں سے کولیسٹرول ایسے نکالتاہے جیسے مقناطیس لوہا کو کھینچ کر نکالتا ہے صرف کولیسٹرول ہی نہیں بلکہ اور بھی بہت ٹرول سٹرول اورٹول ٹال نکالتاہے۔

اب ہم نے کب لہسن کے فوائد کا انکار کیا ہے۔خاص طور پر’’کولیسٹرول‘‘ نکالنے میں تو اس کا ثانی نہیں ثبوت چاہیے تو پاکستان کا خون ٹیسٹ کرسکتے ہیں جس کی رگوں میں ’’کولیسٹرول‘‘یا چربی کا نام ونشان تک نہیں ملے گا اور یہ سارا کمال’’لہسن‘‘ہی کا ہے۔کہ حکومت کی مشینری کا ہر پرزہ، انتہا درجے کا ’’لہسن خور‘‘ہے، ایوانوں میں خزانوں میں دفتروں میں جہاں دیکھیے لہسن ہی لہسن ہے مطلب یہ کہ ہم نے اس کے بے پناہ فوائد کا انکار بالکل نہیں کیا ہے صرف اس کی ’’بوُ‘‘سے تھوڑی سی اپنی الرجی بتائی ہے۔

بلکہ لہسن کی اہمیت فوائد اور پسندیدہ جہان ہونے کے لیے ہمارے پاس پروف بھی موجود ہے۔بنی اسرائیل نے اس کے لیے من وسلویٰ تک سے انکار کردیاتھا۔اوربنی اسرائیل کو تو آپ جانتے ہیں کہ نفع نقصان کے معاملے میں معروف عالم اور مشہور زمانہ ہیں۔ ویسے تو انھوں نے تو من وسلویٰ کے بدلے چار چیزوں کا مینوپیش کیاتھا لیکن ان سب کا جزو اعظم لہسن ہی تھا۔اور یہ ثبوت بھی موجود ہے کہ تب سے اب تک یہودیوں کے منہ سے لہسن کی بوُ آرہی ہے۔بلکہ ہر دور میں آتی رہی ہے بلکہ اسی لہسن کی بدبو کی وجہ سے ان کو بہت نقصان بھی اٹھانا پڑے ہیں، اشوری اور بابلی حکمرانوں نے اسی لہسن خوری کی وجہ سے کئی بار پکڑکر غلام بنایا بلکہ تاریخ میں صاف لکھا ہے کہ ان لہسن خوروں کو اپنے شہروں سے دور رکھنے کے لیے ان کو شہر سے دور ایک کیمپ یا شہر میں رکھا جس کا نام ’’اریدو‘‘تھا کہ جاؤ اس میں جتنا لہسن کھا سکتے ہوکھاؤ۔ لیکن وہ جو بزرگوں نے کہا ہے کہ

چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ لہسن لگا ہوا

اس پر بھی لہسن خوری سے باز نہیں آئے تو بخت نصرنامی بادشاہ نے ان کے سارے بدبودار ٹھکانے لہسن کے کھیت اور گودام تباہ کرکے بابل میں قید کیا۔جس الگ محلے میں ان کورکھا اسے یہ لوگ خود تو تل ابیب کہتے تھے شاید عبرانی میں ’’لہسن‘‘کا یہی نام ہو لیکن بابل والے اسے ’’محلہ کبیر‘‘کہتے تھے یقیناً یہ کلدانی زبان میں بدبو کا نام ہوگا۔شاید اسی طرح دنیا سے لہسن اور اس کی بدبو کانام ونشان مٹ جاتا لیکن کورش نامی ایک خدا کے سادہ دل بندے نے بابل کو فتح کرکے رہائی دلائی، وہ بیچارا کیاجانتا تھا کہ وہ کس بلا کو دنیا پر چھوڑ رہا ہے۔بعد میں ہٹلر نے اس کی غلطی درست کرنے کی کوشش کی لیکن ان کے کتالی ساجھے داروں نے ان کو رہائی دلائی اور آج حال یہ ہے کہ ساری دنیا میں وہ اپنی بدبو کھول کر پھیلائے ہوئے ہیں۔یہ آئی ایم ایف وغیرہ بھی ان ہی کے پالے ہوئے ہیں۔

جو دنیا جہاں کے لہسن لاکر یہاں کھپاتے ہیں این جی اوز وغیرہ کے ذریعے بلکہ ہمیں تو شک ہے کہ شاید لہسن  بھی اپنے ہاں رکھ لیتے ہیں اور کسی طریقے سے  اس کی بدبو نکال لاتے اور یہاں پھیلاتے اور اڑاتے ہیں ، سنا ہے’’لہسن اور ’’ہنگ‘‘ دونوں کی’’بدبوئیں‘‘ یہاں چھوڑ کر لے جاتے ہیں اور اپنے کام میں لاتے ہیں اس انرت کا ابھی تک تو کسی کو بھی احساس نہیں ہوا ہے البتہ فریدہ خانم نے اس کا اشارتاً کچھ رونا رویاہے

یہ ہجر کی آگ جو سارے بدن میں پھیل گئی

جب جسم ہی سارا جلتاہو دامن دل کو بچائیں کیا

اب ایسی چیز ہزارہا فوائد کیوں نہ رکھے جب بدبو ہی مارنے کے لیے کافی ہو تو اس کے فوائد کو ماریے گولی۔ اب جسم میں کولیسٹرول ہو نہ ہو جب جان ہی نکل چکی ہو۔تو فائدہ کیا؟

اس شخص کا قصہ تو آپ نے سنا ہی ہوگا جو ’’بلی‘‘کو نہلا رہا تھا راستہ گزرنے والے ایک شخص نے کہا ٹھنڈے پانی سے مت نہلاؤ مرجائے گی۔ اس نے کہا نہلانے اور پھر ٹھنڈے پانی سے اس کے بڑے فوائد ہیں، بلی کے سارے امراض اور پسو جوئیں نکل جائیں گی۔راہ گیر چلاگیا لیکن واپس آیا تو بلی مری پڑی تھی۔ اس نے کہا میں نے تمہیں سمجھایاتھا کہ نہلانے سے مرجائے گی۔ بلی والے نے کہا نہلانے سے تو نہیں مری ہے بلکہ نچوڑنے سے مرگئی۔لہسن بھی اپنی ذات میں سوامراض کا علاج ہوگا لیکن جب اس کی بدبو خود سوامراض کی ماں ہے تو کھا کر اپنے ساتھ دنیاجہاں کو مبتلاکرنے کا فائدہ کیا؟

شرع وآئین پر مدارسہی

ایسے قاتل کا کیاکرے کوئی

لیکن ہماری ان تمام توضیحات تشریحات اور تنبیہات کے باوجود نہ تو ہمارے اس’’مقرض‘‘ کی تسلی ہوگی اور نہ سرکاروں میں درباروں میں شہروں میں بازاروں میں اور گلی چوباروں میں لہسن کا راج تھا ،ہے اور رہے گا جب حکومت کے سارے چھوٹے بڑے’’تارے‘‘ اور بروج اس کے ’’موافق‘‘ ہیں تو کوئی اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑسکتا۔سیاں بھئے کوتوال توڈرکاہے گا

ہم نے چاہاتھا کہ حاکم سے کریں گے فریاد

وہ بھی کم بخت ترا چاہنے والا نکلا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔