- ویسٹ انڈیز ویمن ٹیم کا پاکستان کو ون ڈے سیریز میں وائٹ واش
- کراچی میں ایرانی خاتون اول کی کتاب کی رونمائی، تقریب میں آصفہ بھٹو کی بھی شرکت
- پختونخوا سے پنجاب میں داخل ہونے والے دو دہشت گرد سی ٹی ڈی سے مقابلے میں ہلاک
- پاکستان میں مذہبی سیاحت کے وسیع امکانات موجود ہیں، آصف زرداری
- دنیا کی کوئی بھی طاقت پاک ایران تاریخی تعلقات کو متاثر نہیں کرسکتی، ایرانی صدر
- خیبرپختونخوا میں بلدیاتی نمائندوں کا اختیارات نہ ملنے پراحتجاج کا اعلان
- پشین؛ سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں3 دہشت گرد ہلاک، ایک زخمی حالت میں گرفتار
- لاپتہ کرنے والوں کا تعین بہت مشکل ہے، وزیراعلیٰ بلوچستان
- سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی کو سزا سنانے والے جج کے تبادلے کی سفارش
- فافن کی ضمنی انتخابات پر رپورٹ،‘ووٹوں کی گنتی بڑی حد تک مناسب طریقہ کار پر تھی’
- بلوچستان کے علاقے نانی مندر میں نایاب فارسی تیندوا دیکھا گیا
- اسلام آباد ہائیکورٹ کا عدالتی امور میں مداخلت پر ادارہ جاتی ردعمل دینے کا فیصلہ
- عوام کو ٹیکسز دینے پڑیں گے، اب اس کے بغیر گزارہ نہیں، وفاقی وزیرخزانہ
- امریکا نے ایران کیساتھ تجارتی معاہدے کرنے والوں کو خبردار کردیا
- قومی اسمبلی میں دوران اجلاس بجلی کا بریک ڈاؤن، ایوان تاریکی میں ڈوب گیا
- سوئی سدرن کے ہزاروں ملازمین کو ریگولرائز کرنے سے متعلق درخواستیں مسترد
- بہیمانہ قتل؛ بی جے پی رہنما کے بیٹے نے والدین اور بھائی کی سپاری دی تھی
- دوست کو گاڑی سے باندھ کر گاڑی چلانے کی ویڈیو وائرل، صارفین کی تنقید
- سائنس دانوں کا پانچ کروڑ سورج سے زیادہ طاقتور دھماکوں کا مشاہدہ
- چھوٹے بچوں کے ناخن باقاعدگی سے نہ کاٹنے کے نقصانات
ماں احساس کا رشتہ ہے
ہماری ایک دوست اپنی ہر بات اپنی والدہ سے شیئر کرتی اور مشورہ لیتی تھی۔ کچھ دوستوں نے مذاق اڑایا کہ ہر بات ماں کو کیوں بتاتی ہو؟ ہماری بھی مائیں ہیں لیکن ہر بات ماں کو بتانے والی نہیں ہوتی۔ دوست حیران نظروں سے دیکھنے لگی اور بولی ’’میری سب سے اچھی دوست میری ماں ہے۔ میں اپنی ہر بات میں ان سے رائے لینا پسند کرتی ہوں، کیونکہ ماں کو نہ تو آپ سے کوئی حسد ہوتا ہے نہ ہی کوئی مفاد چھپا ہوتا ہے۔ یہ بےلوث رشتہ میرے لیے بہت قیمتی ہے‘‘۔
اس وقت میں دوست کی بات کی گہرائی کا اندازہ نہیں کرسکی تھی۔ یہی سوچا کہ اکلوتی اولاد ہے اس لیے اپنی ماں سے زیادہ قریب ہے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ احساس ہوا کہ سب رشتے ضرورت، مطلب اور مفاد کے ہوتے ہیں۔ چہرے رنگ بدلتے ہیں یا پھر رشتے۔ سب کچھ بدل جاتا ہے لیکن نہیں بدلتی تو ماں نہیں بدلتی۔ ماں سے اچھا دوست اور ہمراز اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ ماں کی محبت بہتی ندی کے جھرنوں کی طرح اور تنگ و تاریک رستوں میں روشنی کی لو کی مانند جگمگاتی رہتی ہے۔
اولاد کے لیے ماں خالق کائنات کا ایک معجزہ ہے، نعمت ہے، عطا ہے اور زندگی کا حسین ترین احساس۔ ایسا حسین اور خوب صورت احساس جو ہر حال میں اولاد کی ڈھال بنتا ہے۔ جس طرح بنجر زمین کو پانی سے سیراب کیا جاتا ہے، ایسے ہی ماں اولاد کے مشکل وقت میں اس کے شکست خوردہ وجود کو اپنی ممتا کی آغوش میں پناہ دے کر جینے کی نئی امنگ دیتی ہے۔
ہمیں خلوص و احساس کے نام پر بہت سے رشتے ملتے ہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ہر رشتہ یا تو دور ہوجاتا ہے یا پھر اس رشتے کی مضبوطی اتنی دیرپا نہیں ہوتی جتنی مضبوطی ماں کے رشتے میں ہوتی ہے۔
آپ زندگی کے اتار چڑھاؤ پر نظر دوڑائیں تو یہ بات ماننے سے انکار نہیں کرسکتے کہ دنیا میں واحد ایک ماں کا رشتہ ایسا ہے جو اولاد کے دکھ سکھ میں اپنی ہمت و سکت سے زیادہ ہر محاذ پر مقابلہ کرتی ہے۔ ایک بات جو میں نے ماں کے رشتے میں بہت شدت سے محسوس کی وہ یہ کہ ’’آپ دنیا کی رنگینیوں میں وقتی طور پر اپنے دکھ بھول بھی جائیں، رات کو پرسکون نیند سو بھی جائیں لیکن ماں آپ کے درد کے لیے ہمہ وقت دعاگو رہتی ہے اور رات بھی اولاد کی فکر میں جاگتی آنکھوں سے گزار دیتی ہے‘‘۔ شاید اس درجہ احساس کا پیمانہ ماں کے وجود کو بخش کر خالق کائنات نے ’’ماں کے قدموں تلے جنت رکھ دی‘‘۔
سچ کہوں تو میں اس دنیا میں ملی جنت کو نہیں سمجھ سکی جو اپنے اندر اتنی نرمی و شفقت کا جام بھرے ہوئے ہے جو اولاد کی نافرمانی کے باوجود نہیں چھلکتا۔
وہ لوگ جو ماں کی آغوش سے محروم ہوچکے ہیں ان کے جذبات عید یا کسی اور تہوار پر سننے اور پڑھنے کو ملتے ہیں تو ماں کی اہمیت و قدر کا شدت سے اندازہ ہوتا ہے کہ ماں کا وجود ہے تو زندگی میں بہار ہے، سکون ہے اور اس کی دعاؤں کا ساتھ ہے جو ہر لمحہ امید کا دیا روشن رکھتی ہیں۔
اس بابرکت مہینے اور عید کی خوشیوں میں اپنے ان دوستوں کو اپنی ماں کی دعا اور پیار میں ضرور شامل کریں، جن کی مائیں اس دنیا میں نہیں۔ بہت سے رشتے دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں اور زخم مندمل ہوجاتے ہیں لیکن ماں کا ساتھ چھوڑ جانا کبھی بھلایا نہیں جاسکتا۔ کیونکہ ماں ضرورت کا رشتہ نہیں بلکہ احساس کا رشتہ ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔