ذرا چلّو بھر پانی دینا وضو کرلوں

ظہیر اختر بیدری  جمعـء 10 مئ 2019
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

پاکستان میں  اہل سیاست نے لوٹ مارکا بازار گرم کیے رکھا ۔ 70 سال بعد اب وہ عجیب و غریب احتساب شروع ہوا جس کی صبح کا کوئی وقت ہی طے نہیں ،کسی پرانی فلم کے گانے کا بول ہے ’’میں چلا چل‘‘ سو ہمارا احتساب بھی چل رہا ہے۔ پاکستانی عوام خوش ہو رہے تھے کہ ملک میں 70 سال سے لوٹ مار کی جو سیاہ رات چل رہی ہے، اس کی اب صبح ہونے والی ہے لیکن صبح کے اجالوں کے بجائے شام اورگہری ہوتی جا رہی ہے عوام جو صبح کے تصور سے شاداں تھے۔

حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے ہیں اور دلی والوں کی زبان میں پوچھ رہے ہیں ’’بھئی! یہ کیا ہو رہا ہے‘‘ ہماری قومی زندگی کا ہر شعبہ سر سے پاؤں تک کرپشن میں ڈوبا ہوا ہے۔ہندوستان میں اسکولوں کی گرما کی چھٹیوں میں ہم لڑکوں کا ایک مشغلہ یہ ہوتا تھا کہ شہر سے دور نکل جاتے تھے، درختوں پر بیٹھے گرگٹوں کو پکڑتے تھے ان کی ٹانگوں میں رسی باندھتے اور ادھر ادھر گھسیٹتے پھرتے تھے جب کھیل سے دل بھرجاتا توگرگٹوں کو ریل کی پٹری سے باندھ دیتے تھے جب ریل یا ٹرین گزرتی تو گرگٹوں کا قیمہ بن جاتا تھا۔

اس مشغلے کے دوران ایک بار ایک شریر لڑکے نے ایک پتھر اٹھایا تو پتھر کے نیچے سے ایک ناراض سانپ پھن نکالے باہر آیا، ہم لڑکوں کی سٹی گم ہوگئی، سب جوتے چھوڑ کر بھاگے۔ لیکن ہمارے ہاتھوں میں ایک نیا مشغلہ آگیا بچپن کو خدا حافظ کہنے کی عمر میں لڑکے بڑے نڈر اور ایڈونچرسٹ ہوتے ہیں۔

جب پہلی بار پتھر کے نیچے سے سانپ نکلا تو سب لڑکوں کی سٹی گم ہوگئی لیکن ایڈونچر پلس شرارت کی اس عمر میں سانپوں کا خوف جلد ہی ذہنوں سے نکل گیا اور ہم پوری تیاری کے ساتھ سانپوں کی تلاش کے کھیل میں جت گئے لیکن بڑی احتیاط اور تیاری کے ساتھ۔ ہوا یہ کہ سانپ تو اکا دکا نکل آتا تھا البتہ کالے بچھو پتھر کے نیچے موجود ہوتے تھے سو پوری احتیاط کے ساتھ پتھر اٹھاتے تھے اور بڑی مہارت سے بچھوکا ڈنک توڑ کر اس کی کمر میں دھاگہ باندھتے اور اسے گھسیٹتے پھرتے جب تھک جاتے تو انھیں ریل کی پٹری سے باندھ دیتے ان زہریلے بچھوؤں اور سانپوں کو ریل کی پٹری سے باندھ کر ریل کا انتظار کرتے جب ریل عرف ٹرین آتی اور پٹری سے بندھے بچھوؤں اور سانپوں کا کچومر نکلتا تو خوشی سے تالیاں بجاتے۔

بچھوؤں اور سانپوں کا یہ دور اس لیے یاد آیا کہ ہمارے معاشرے میں بچھو اور سانپ اس کثرت سے نکل آئے ہیں کہ جس پتھر کو اٹھاؤ کالی پیٹھ کے بچھو نکلتے ہیں یا پھن نکالے سانپ۔عوام کو ان کے زہر سے بچانے کے لیے ان کا احتساب ہو رہا ہے اور احتساب اس قدر نرم اور گدوں والا ہے کہ ملزمان گھر سے زیادہ آرام کے ساتھ احتساب بھگت رہے ہیں۔ کراچی سینٹرل جیل میں ایسے سیکڑوں ملزمان ہیں جو برسوں بلکہ عشروں سے قسمت کے فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں تاریخ پر تاریخ کی بھی ایک تاریخ ہے ایک ملزم جوانی میں پکڑا جاتا ہے تو اپنا بڑھاپا جیل ہی میں گزارتا ہے، اکثر ملزمان انصاف کے انتظار میں پاگل ہوجاتے ہیں، ہر جیل میں ایسے سینئر ملزمان کا نام چریا رکھا جاتا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فیصلے کے انتظار میں نیم پاگل ہونے والے ان ملزمان کے چریا وارڈ میں سکونت کی ذمے داری کس پر آتی ہے؟ یہ سوال اس قدر نازک اور خطرناک ہے کہ اگر کوئی اس کا درست جواب دے تو وہ بھی اصلی تے وڈے احتساب کی زد میں آجاتا ہے اور ایسا ملزم بن جاتا ہے جس کا آخری ٹھکانا چریا وارڈ ہی ہوتا ہے۔

اخباروں میں یہ خبریں پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ اس ماہ دو لاکھ مقدمات کا فیصلہ ہوا لیکن ہمارے مجرم معاشرے کا عالم یہ ہے کہ دو لاکھ ملزموں کو نمٹانے تک تین لاکھ تازہ ملزمان احتساب کے لیے تیار ملتے ہیں۔ بے چارے منصف انسان ہیں وہ بھی کب تک ملزمان کا مقابلہ کرتے رہیں گے۔ ایک جاتا ہے تو دس آ جاتے ہیں۔ یحییٰ خان کے زمانے میں طالب علم لیڈروں اور مزدور لیڈروں کو تھوک کے حساب سے پکڑا جاتا تھا۔ ہم بھی اس ریلے میں بہہ کر سینٹرل جیل پہنچ گئے۔ جب ٹرائل شروع ہوا تو پتہ چلا کہ ہمارا قد پانچ فٹ کے لگ بھگ ہے۔ ہم نے ڈرتے ڈرتے عدالت کے صدر ممبر سے کہا کہ سر! ہمارا قد تو چھ فٹ نہیں ہے۔کیا ایک ہفتے میں انسان کا قد ایک فٹ بڑھ سکتا ہے؟ ہمارے سوال پر عدالت کے صدر ممبر کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی لیکن یحییٰ خان کی پالیسی یہ تھی کہ طلبا اور مزدور لیڈروں کو ہر حال میں سزا دی جائے ان کمبختوں نے بہت اودھم مچا رکھا ہے۔

یوں ہم داخل زنداں ہوئے، اس دور میں پیشکاروں کی مٹھی گرم کرکے کئی مہینوں کی لمبی لمبی تاریخیں لی جاتی تھیں، یوں مقدمات کی عمر، عمرِ خضر ہوجاتی تھی۔ بات چلی تھی احتساب کی اور پہنچی کراچی سینٹرل جیل کے چریا وارڈ تک۔ بے چارے غریب ملزمان کی پیشیاں شیطان کی آنت کی طرح اتنی لمبی ہوتی تھیں کہ جیل میں انسان جوان جاتا تھا اور بوڑھا ہوکر یا مر کر نکلتا تھا۔ اب بھی کیسز لمبے ہو رہے ہیں۔ لیکن ملزمان اس لمبائی کے دوران لندن جاتے ہیں، امریکا جاتے ہیں عیش کرتے ہیں ’’رب‘‘ کا شکر ادا کرتے ہیں۔

بینکوں سے رکشہ ، ٹیکسی ڈرائیور کے اکاؤنٹ میں جادو سے کروڑوں بلکہ اربوں نکل رہے ہیں، قانون اور انصاف کھڑا مسکرا رہا ہے۔ عوام کی آنکھیں حیرت سے پھٹی جا رہی ہیں۔ جیلیں ملزمان کے لیے 5 اسٹار ہوٹل بنی ہوئی ہیں کسی ملک میں ملزمان کو ایسی سہولتیں حاصل نہیں پھر بھی انسانی حقوق کی تنظیمیں معاشرے میں ناانصافیوں کا رونا روتی نظر آتی ہیں۔ حیرت ہے حیرت ہے! ذرا چلّو بھر پانی دینا بھئی! وضو کرلوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔