بازی گر

سید نور اظہر جعفری  جمعـء 10 مئ 2019

زندگی ایک مسلسل سفر ہے۔ اس میں پیش آنے والے واقعات، حادثات، اسٹاپ ہیں جہاں رک کر آپ پھر اگلے سفر کی تیاری کرتے ہیں یا شروع کرتے ہیں، بعض لوگ کمال ہوتے ہیں، وہ ان سے آرام سے گزر جاتے ہیں کیونکہ ان کے پاس ایک مسئلے کے حل کے دس متبادل ہوتے ہیں اور وہ دوسروں کو الجھا دیکھ کر مسکراتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔

پیری مریدی پاکستان میں عام ہے، اس سے بہت سے گھروں کا چولہا جلتا ہے، ہمیں نہیں معلوم کہ سچا پیرکون ہے اور کیا ہوتا ہے، ہم اس چکر میں کبھی نہیں پڑے اور اناؤنس بھی نہیں کیا کہ ہم حسنی حسینی سید ہیں لہٰذا پیر کہلائیں۔ کسی نے دعا کو کہا تو ہاتھ اٹھا دیے کیونکہ دینے والے کو جانتے ہیں، پانچ وقت کی ملاقات ہے اس سے کہہ دیا اب وہ جانے سائل جانے بندہ تو وہ اسی کا ہے ہم نے تو بات بڑھائی ہے بس۔

دعا قبول کرنا اس کے بس میں ہے مانگنا ہمارا اختیار اور اس کا حکم، ہم آج تک کوئی خاص صحت مند نہیں ہوئے کیونکہ دنیاداری اور پیر داری نہیں کی، ڈیڑھ جوڑی مولانا کو دیکھ کر ڈر لگتا ہے۔ ایک میں سے آٹھ لاکھ کی چربی نکلتی ہے۔ مزاروں پر ڈھونگی بیٹھے ہیں، جانے والا کوئی بزرگ اگر تھا بھی تو فیض پوتے اٹھا رہے ہیں’’پیٹی چندہ‘‘ کی صورت، اب اگر ان سے سوال کریں کہ آپ بیٹھے بٹھائے پیر کیسے بن گئے تو وہ آرام سے جواب دیتے ہیں کہ زندگی میں پہلا ووٹ ڈالنے والا کیسے لیڈر اور قومی اسمبلی کا ممبر بن گیا بولو جواب دو؟

اب عوام کی غلطیوں کا میں کیا جواب دے سکتا ہوں چپ چاپ پیر تسلیم کرلیتا ہوں ’’میں‘‘ سے مراد بھی عوام ہیں کیونکہ میں تو کسی کو بھی پیر تسلیم نہیں کرتا نہ کرواتا ہوں۔ اللہ نے بندے کو خود سے رجوع کرنے کا حکم دیا ہے لہٰذا درمیان میں کیوں ایک ’’مزاری‘‘ بندہ ہو ۔ یہ مزاروں پر بیٹھے ڈھونگی روزانہ حلال کو حرام کرکے کھا رہے ہیں۔

ان کو دیکھ کر ہی تو تین نمبر سے دس نمبر تک کے ڈھونگی بابا وجود میں آگئے جو عورتوں کو خود کھڑے ہوکر پانی ڈال کر ان کی برہنگی کا مزہ لیتے ہیں، شاید ہماری فطرت میں جو ’’شر‘‘ ہے وہ خیر سے زیادہ طاقتور ہوجاتا ہے، اچھے خاصے لوگ عقل کھو بیٹھتے ہیں۔ پڑھے لکھے، عالم فاضل یہاں تک کہ ڈاکٹر ہوکر اپنے سے آدھی عمر کے لڑکے کو پیر بنا رکھا ہے کیونکہ وہ اس خاندان سے ہے، مزار کی کمائی سے صاحب جائیداد ہیں یہ لوگ بھی تو وہی کر رہے ہیں جو سیاستدانوں نے قوم کے ساتھ کیا بلکہ یہ بڑے مجرم ہیں کہ دوسرے کے ایمان کو بھی خراب کیا کہ شاید ان کے بغیر اللہ کسی کی نہیں سنے گا۔

کسی زمانے میں اللہ والے ہوتے تھے، آج بھی ہوں گے مگر وہ اخبار میں اشتہار اور فون نمبر اور ملاقات کا ٹائم نہیں دیتے۔ ان اللہ والوں نے نصف یا ایک صدی پہلے وہ کچھ بتایا ہے جو آج پورا ہو رہا ہے۔ میں کسی کا نام نہیں لکھتا ان کا احترام کرتا ہوں آپ جانتے ہیں ان کے بارے میں اور میں ان سے محبت اس لیے رکھتا ہوں کہ انھوں نے میرے ملک کے بارے میں بتایا ہے۔ افراد کوئی بھی ہوں وہ قدرت کا انتخاب ہوتے ہیں میں اور آپ کیا جانیں۔

وہ اللہ والے تھے، نیا دار نہیں تھے انھوں نے دیا، لیا کچھ بھی نہیں کسی سے بھی، راتوں کو باتیں کرتے تھے اپنے رب سے اور رات میں ’’اسرار‘‘ ہوتے ہیں قدرت نے خوش ہوکر انھیں ’’آشکار‘‘ کردیا۔ یہ ڈھونگی آگ جمع کرنے والے اور آگ تقسیم کرنے والے بھلا کسی کا کیا بھلا کریں گے۔ دنیا داروں کے پاس فیض کہاں وہاں تو وہی ہوگا انسان کا ازلی دشمن جو کہا تھا کر رہا ہے، انسانوں کو گمراہ کر رہا ہے ۔

ایک اور ڈرامہ بھی اس ڈرامے میں ہے کہ ہم تو نہیں مانگتے لوگ خود نذر، نذرانہ دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آپ لیتے کیوں ہیں جب پتا ہے کہ یہ حرام ہوگا۔ میرا تعلق حیدر آباد سے ہے اور یہاں بھی یہ ڈرامے ملک کے دوسرے علاقوں کی طرح ہوتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ نام نہاد جعلی پیر صاحب کر کیا سکتے ہیں نعوذباللہ آپ کی بخشش کروا دیں گے، آپ کو رزق دے دیں گے، اولاد دیں گے؟ کچھ نہیں سب ڈھونگ پہلے یہ اپنی جائیداد تو غریبوں میں تقسیم کردیں۔ کما کر دکھائیں، پھر دیکھیں کہ سرخ سپید کیسے ہوتے ہیں، مزدور کا تو رنگ کالا، دل سینہ پاک ہوتا ہے۔ احتساب والے ان کو بھی دیکھ لیں یہاں سے بھی عوام کا لوٹا ہوا بہت مال ملے گا۔

ایک دور دراز علاقے جانا ہوا تو وہاں ایک جگہ ’’روحانی شفاخانہ‘‘ دیکھا ۔ وہاں ڈرم میں پانی بھرا تھا۔ معلوم ہوا یہ پانی ہے پڑھا ہوا، دوسرے ڈرم میں لبالب تعویذ بھرے ہوئے۔ اور شاید لوگ یہ کام انجام بھی دے رہے تھے۔ وہاں ان کے عوض پیسہ لیا جاتا ہے یا نہیں مجھے نہیں معلوم، مگر ایک بات جو میں سوچ رہا تھا وہ یہ تھی کہ کتاب ہدایت پڑھنے اور عمل کرنے کا حکم ہے اس سے ہدایت ملتی ہے دنیا کے ہر مسئلے کی، شفا بھی ہے کلام الٰہی میں۔ وہ خالق ہے تو اس کا کلام شفا ہے ۔

مجھے ہرگز کوئی اعتراض نہیں بس ایک سوال ہے ۔ اب جو لکھ رہا ہوں وہ ایک سچ ہے بقیہ سچ کی طرح جو آپ نے اب تک پڑھا ہے۔ ایران، عراق کی زیارات کے دوران مجھے بغداد میں سید عبدالقادر گیلانیؓ کے مزار کی زیارت بھی حاصل ہوئی اور میں نے وہاں فاتحہ پڑھی۔ حیرانی اس وقت ہوئی جب ایک بھکاری وہاں بھی مل گیا۔

موصوف کا تعلق پشاور سے تھا اور موصوف نے ’’پیران پیر‘‘ کے دربار میں بھی یہ ’’بھیک دھندہ‘‘ شروع کر رکھا تھا۔ میں ہر مسلک کے بزرگوں سے پیار رکھتا ہوں۔ اختلاف کا کام مولویوں کا ہے وہ ان کا روزگار ہے۔ مولا علی نے ایک شخص کو سواری کی حفاظت کو کہا کہ آپ نماز پڑھ سکیں۔ مسجد تشریف لے گئے۔ اس شخص نے زین دو درہم میں فروخت کردی اور چلا گیا۔

حضرت علیؓ نے بازار میں زین پہچان لی تو دکاندار نے کہا کہ ایک شخص دو درہم میں فروخت کرگیا ہے۔ آپؓ نے دو درہم ادا کیے، زین حاصل کی اور دکاندار سے کہا میں نے سوچا تھا کہ نماز سے فارغ ہوکر اس شخص کو دو درہم دوں گا اس کی جلد بازی نے حلال کو حرام کردیا۔ میرا مقصد لوگوں کو بتانا ہے کہ اللہ سے خود مانگو، کسی کے طفیلی نہ بنو۔ خلق خدا کی خدمت اللہ کی خدمت اور اچھا معاوضہ۔ دینے والا جو خدا ہے، کوئی پیر نہیں!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔