ہم ایسے گئے گزرے ہیں کیا؟

شیریں حیدر  ہفتہ 24 اگست 2013
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

مراداں کبھی کبھار حکمت کی ایسی بات کرتی ہے کہ مجھے اس کے حکیم لقمان کی نواسی ہونے میں کوئی شک نہیں رہتا۔ جانے کوئی خیال سر میں کھجلی کر رہا تھا کہ میں نے بالوں میں انگلیاں پھیریں… وہی لمحہ تھا جب مراداں نے ڈرامے سے نظر ہٹائی اور میری حرکت اس کی نظر میں آ گئی، ’’کہیں جوئیں تو نہیں پڑ گئیں آپ کے بالوں میں؟‘‘ اس نے اندیشہ ظاہر کیا تو میری کھجلی کئی گنا بڑھ گئی۔

’’میرے بالوں میں جوئیں کیونکر پڑ سکتی ہیں؟‘‘ میرے منہ سے بات پھسل گئی، گویا میں نے جوؤں سے کوئی دشمنی پال رکھی ہو۔

’’وہ تو کسی کو بھی پڑ سکتی ہیں جی…‘‘ ڈرامہ ختم ہو چکا تھا، ’’چلو جی میں تہاڈے سر وچ تیل پا دیواں!!‘‘

’’ارے نہیں رہنے دو…‘‘ میں نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روکا، جیسے وہ میرے بالوں میں مٹی کا تیل ڈالنے کا عزم کر رہی ہو۔

’’اج تے میں تہاڈی اک نئی سننی جی…‘‘ اس نے مجھے زیرکر لیا اور تیل کے ڈونگرے بھر بھر کر میرے بالوں میں ڈالے اور انتہائی لذت آمیز مساج کیا، ’’توبہ… کنی خشکی ہے جی تہاڈی سر وچ، دماغ دا کم کر کر کے تسیں اپنے پلے کج نئیں چھڈیا… (کتنی خشکی ہے آپ کے سر میں، دماغی کام کر کر کے آپ نے اپنا ستیا ناس کر لیا ہے)۔

’’مراداں اس بات کا تو تم مجھے تعویذ بنا کر دے دو، مرد ہمارے دماغی کام کا تو کجا ہمارے پاس دماغ کے ہونے کا یقین بھی نہیں کرتے…‘‘ میں نے ہنس کر اسے کہا، اس کے ہاتھوں میں اتنا سرور تھا، میں نے اسے باتوں میں الجھا لیا کہ سلسلہ چلتا رہے…

’’میری بہو ایک شیمپو استعمال کرتی ہے جی … وہ جس کا آدمی کشمیر میں کام کرتا ہے ٹھیکیدار کے ساتھ، کیا ملائم بال ہو جاتے ہیں جی اس کے ساتھ، لمبے بھی اور چمکدار بھی، اور خشکی کا تو نام و نشان بھی نہیں ہے اس کے بالوں میں…‘‘

’’اچھا کون سا شیمپو ہے وہ؟‘‘ میں نے تجسس سے پوچھا۔’’ہے جی کوئی باہر کا… میرا بیٹا ہی لاتا ہے، پر اب وہ ہر چیز کی مالکن بنی بیٹھی ہے، بہوئیں آ جائیں تو مائیں تو ہر بات میں باہر ہو جاتی ہیں نا جی… اپنی بوتل ہی لے کر جاتی ہے غسل خانے اور اپنے بال لشکا کر باہر نکل آتی ہے، بوتل ہاتھ میں ہی پکڑے پکڑے کمرے میں لے جاتی ہے، ماں کون سا مر رہی ہے اسے استعمال کرنے کو، عمر بھر کپڑے دھونے کے صابن کے ساتھ بال دھوئے ہیں میں نے اور مرتے دم تک ان ہی سے دھوؤں گی!‘‘

’’تم اپنی بہو سے اس شیمپو کا نام تو پوچھ لینا…‘‘ میں نے پھر اصرار کیا، چشم تصور میں اپنے چمکدار اور ملائم بال کسی کے کندھوں پر لہرائے…’’بڑی چندری ہے جی وہ… کبھی نہ بتائے گی، میں پھر بھی کوشش کروں گی!‘‘ مراداں وعدہ کر کے مجھے انتظار کی ڈور تھما گئی۔اس دن اس کا چہرہ چمک رہا تھا، کسی دوا کی خالی بوتل میں وہ اپنی بہو کا تھوڑا سا شیمپو چرا کر لائی تھی، میں نے کمزور سا احتجاج کیا مگر اس شیمپو کے معجزاتی اثرات کا جادو بھی تو دیکھنا تھا، سو احتجاج ختم کیا اور شیمپو استعمال کیا، ایک ہی بار کے استعمال سے بالوں کی ملائمت انتہا کو چھونے لگی، کاش مراداں ساری بوتل چرا لاتی تو باقی ماندہ خشکی بھی ختم ہو جاتی۔  میں نے اپنے چمکدار بالوں کو ہاتھ میں لے کر کچھ نوٹ اس کے ہاتھ میں تھمائے اور اگلے ہی روز اس کی بہو کے استعمال والی بوتل اس کے ہاتھ میں تھی، کوئی نام نہ نشان، مٹے مٹے سے کاغذوں پر کیا لکھا تھا، کچھ سمجھ میں نہ آیا۔

’’اب چرا کر نہیں لائی… بہو کو بتایا تھا کہ باجی کو خشکی ہے اپنا تھوڑا سا شیمپو ادھار دے دو یا اس کا نام بتا دو، اس کے پاس یہی بچا تھا، وہ اس نے دے دیا ہے اور میرے بیٹے سے کہا ہے کہ اب کی بار زیادہ بوتلیں لے کر آئے!‘‘ مراداں اپنا کارنامہ بتا کر خوش تھی اور مجھے اس کے بیٹے کا اتنا انتظار تھا کہ اس کی بہو کو بھی نہیں ہو گا… جلد ہی وہ آ گیا اور میرے دئیے ہوئے پانچ سو کے عوض مراداں شیمپو کی دو بڑی بڑی بوتلیں لے کر آئی، اتنی رقم میں اتنے بڑی بڑی بوتلیں، میں خوش ہوئی اور اپنے بالوں کا ’’تاب ناک‘‘ مستقبل دیکھنے لگی۔ ان بوتلوں پر لیبل مٹے مٹے سے تھے اور کوئی نام بھی نہ تھا۔ بڑی بڑی دو بوتلیں پاکر بھی میری خوشی ادھوری تھی، نام معلوم ہو جاتا تو مراداں کے بیٹے کی محتاجی تو ختم ہو جاتی۔

اس کے جانے کے بعد میں نے دوبارہ اپنے بالوں کو اس شیمپو کی برکتوں سے فیض یاب کیا، بوتل استعمال کرتے وقت مجھے اس پر بار کوڈ نظر آیا تو میرے ذہن میںایک خیال آیا اور میں نے اپنے اسمارٹ فون سے barcode reader کے ساتھ اس کے بار کوڈ کو چیک کیا… pets dandruff shampoo… ’’ہاہ!!!‘‘  میری آہ نکل گئی۔

میں نے مراداں سے کہا کہ وہ اپنے بیٹے کو بلا کر لائے، مجھے اس سے کچھ پوچھنا تھا، میں نے اس سے دریافت کیا کہ وہ کہاں سے وہ شیمپو لاتا تھا، اس نے بتایا کہ وہاں مختلف چھوٹے چھوٹے قصبوں میں لوگ اپنے گھروں کے باہر یہ سامان رکھ کر بیچتے ہیں، اس میں شیمپو، صابن، سیریل cereal اور بسکٹ شامل تھے، میں نے اس سے سیریل اور بسکٹ بھی منگوا کر دیکھے اور میرے شبے کی تصدیق ہو گئی… زلزلہ زدہ علاقوں میں مختلف ممالک سے آنے والے امدادی سامان میں یہ سامان بھی شامل تھا، جس کی غالباً ان لوگوں کو ضرورت نہ تھی جو امداد کو بالا بالا ہی ہڑپ کر کے اسے بیچ کر اپنی اپنی تجوریاں بھرتے رہے تھے اور مراداں کے بیٹے جیسے کئی ان پڑھ اور سادہ لوح لوگ ان بسکٹ اور سیریل cereal کو اپنے بچوں کے کھانے کے لیے اور شیمپو اور صابن اپنی بیویوں اور گھر والوں کے استعمال کے لیے لارہے تھے…انسانیت کے کس درجے پر ہیں ہم …یا کسی درجے پر ہیں بھی کہ نہیں؟

کس قدر ذہنی پستی ہے کہ امداد کو بھی بیچ کھاتے ہیں اور ہم تو اپنے لوگوں کو ان کے پالتو جانوروں سے بھی کم تر درجے کا سمجھتے ہیں… کسی نہ کسی کو تو علم ہے کہ یہ شیمپو،  بسکٹ اور سیریل cereal انسانوں کے نہیں بلکہ جانوروں کے لیے بنائے گئے ہیں، کوئی تو ہے جو ان کی پیکنگ کے ساتھ fiddle کرتا اور اسے ناقابل شناخت کر دیتا ہے تا کہ انسان اور جانور کا امتیاز مٹ جائے، کیا اور کب تک فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے؟ کیا ہر فائدہ دنیا ہی کے لیے ہے؟ کیا کوئی بیچنا چاہے تو امداد میں آ نے والے اس جانوروں کے اسٹاک کو بڑے شہروں میں ان دکانوں پر رکھ کر بھی بیچ سکتا ہے جہاں بڑے لوگ اپنے کتوں اور بلیوں کے لیے خریداری کرتے ہیں۔دھوکہ ہماری سرشت میں اتنی گہرائی میں رچ چکا ہے کہ ہمارا گزارا نہیں اس کے بغیر… شیمپو کی ان بوتلوں کو میں نے کوڑے دان میں ڈال دیا اور اپنی شرمساری کو آپ کے ساتھ شئیر کرتے ہوئے سوچ رہی ہوں کہ ہم کیسے انسان ہیں کہ اپنے جیسے انسانوں کو دھوکہ دیتے ہیں، ان سے بھی کچھ نہیں سیکھتے جو غریب ممالک کے لیے مشکل کی گھڑی میں امداد بھیجتے ہیں تو انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کی ضرورت کا خیال بھی رکھتے ہیں!!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔