جل پریوں کے دیس میں

حامد الرحمان  پير 13 مئ 2019
چرنا جزیرہ کے پاس رنگین مچھلیوں کے درمیان تیرتے ہوئے آپ خود کو جل پریوں کے دیس میں محسوس کریں گے (تصاویر بشکریہ بلاگر)

چرنا جزیرہ کے پاس رنگین مچھلیوں کے درمیان تیرتے ہوئے آپ خود کو جل پریوں کے دیس میں محسوس کریں گے (تصاویر بشکریہ بلاگر)

ہماری کشتی بری طرح ڈول رہی تھی، خوفناک بڑی موجیں بلند ہورہی تھیں اور سمندر میں تلاطم تھا، جب کوئی موج آتی تو کشتی کا اگلا حصہ ہوا میں بلند ہوجاتا اور پھر لہر کشتی کو زوردار انداز میں پانی پر پٹخ دیتی۔ سب دوستوں کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں، ہم نے سوچا بھی نہ تھا کہ تفریح کا سفر اس قدر ڈراؤنا بھی ہوسکتا ہے۔

قصہ کچھ یوں ہے کہ کراچی کے ساحل سے قریب ایک خوبصورت جزیرہ ’’چرنا‘‘ ہے۔ سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز پر چرنا آئی لینڈ کے بارے میں بہت سی رپورٹس اور ویڈیوز دیکھیں اور اس کی خوبصورتی کے چرچے سنے۔ میں نے دیکھا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا سے بھی لوگ آکر چرنا کی سیر کرچکے ہیں لیکن ہم کراچی میں رہتے ہوئے بھی اس کے دیدار سے محروم ہیں۔

پھر ایک روز دوستوں کے ساتھ چرنا جانے کا پروگرام طے پاگیا۔ اتوار کی سہانی صبح ہم چرنا کے لیے شہر سے روانہ ہوئے۔ راستے میں بہت تھوڑا سا ناشتہ کیا کیونکہ دوستوں نے کشتی کے سفر کی وجہ سے ناشتے سے گریز کا مشورہ دیا۔ سمندر کے سفر میں عموماً بیشتر لوگوں کو متلی کی شکایت ہوتی ہے، اس سے بچنے کےلیے پیٹ خالی ہونا بہتر ہے۔

تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کے سفر کے بعد ہم کراچی سے منجھار گوٹھ پہنچے، جہاں سے کشتی کا سفر شروع کیا۔ اپنے ساتھ شناختی دستاویزات رکھنا ضروری ہے، کیونکہ ساحل سے روانہ ہونے سے قبل پاک بحریہ کے جوان چیکنگ کرتے ہیں۔ ساحل سے روانہ ہوئے تو، اللہ کی شان، شروع میں پانی  کا رنگ سبز تھا اور پھر جیسے جیسے آگے بڑھتے گئے گہرا نیلا ہوگیا۔

لیکن اس روز اتفاق یہ ہوا کہ سمندر میں تلاطم تھا۔ لہریں بہت بلند ہورہی تھیں، جن پر ہماری کشتی بری طرح ڈول رہی تھی، جس کے نتیجے میں ہم سب کے دل حلق تک آرہے تھے۔

ملاح سکون سے بیٹھے ہمیں تسلیاں دے رہے تھے کیونکہ سمندر کا سفر تو ان کا روزانہ کا معمول تھا۔ تاہم ایک موقع پر بڑی سے لہر نے کشتی کو اٹھا کر جیسے پٹخا تو ملاح بھی کچھ پریشان سے نظر آئے۔ لیکن کشتی سمندر کا سینہ چیرتی چلتی گئی۔

سمندری تلاطم کی وجہ سے بہت سے لوگوں کی طبیعت خراب ہوگئی، جو بعد میں بھی نہ سنبھل سکی۔ لہٰذا ناشتہ نہ کرنے یا کم سے کم کرنے کا مشورہ درست ثابت ہوا۔

دوران سفر چرنا مسلسل نظر آتا رہا اور ہم سب بے چینی سے اس تک پہنچنے کے منتظر رہے، لیکن وہ قریب آکر ہی نہ دے۔ خدا خدا کرکے سفر تمام ہوا اور ہم چرنا پہنچ گئے۔ اس جگہ کو دیکھ کر ساری تھکاوٹ اور بیزاری کی کیفیت دور ہوگئی۔

صاف شفاف پانی میں خوبصورت رنگ برنگی مچھلیاں تیرتی نظر آرہی تھیں۔ ان خوبصورت مچھلیوں کے ساتھ تیرتے ہوئے آپ کو یوں محسوس ہوگا جیسے کسی جل پریوں کے دیس میں آنکلے ہوں۔

چرنا جزیرہ میں خوبصورت مونگے کی چٹانیں بھی ہیں۔ خدا کی بنائی ہوئی اس خوبصورت دنیا کو دیکھ کر انسان عش عش کرکے اٹھے۔ چرنا میں سب دوستوں نے جی بھر کر تیراکی کی اور پانی سے لطف اندوز ہوئے۔ وہاں کلف ڈائیونگ بھی کی جاتی ہے، جس میں چرنا کی ایک بلند چٹان پر چڑھ کر نیچے پانی میں چھلانگ لگاتے ہیں اور اندر تک چلے جاتے ہیں۔

وہاں ٹریول گروپس کی جانب سے اسکوبا ڈائیونگ کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے، جس میں غوطہ خوروں کی مدد سے سیاح کمر پر سلنڈرز پہن کر سمندر کی گہرائی تک جاتے ہیں اور زیادہ خوبصورتی کا مشاہدہ کرتے ہیں۔

سمندر میں غوطے لگا کر تھکن سے چور ہوگئے اور بھوک بھی خوب لگ رہی تھی۔ سب نے کھانا کھایا۔ رنگین مچھلیوں کو الوداع کہہ کر واپس روانہ ہوگئے۔

اس سفر کے اگلے دن کراچی سمیت سندھ بھر کے ساحلی علاقوں میں طوفان بادو باراں آیا جس میں متعدد ماہی گیر لاپتہ ہوگئے، جن میں سے متعدد مچھیروں کا ان سطور کے رقم ہونے تک پتہ نہیں چل سکا۔ اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ ایک روز قبل جس بپھرے ہوئے سمندر کا سامنا کیا تھا اس کی وجہ یہ طوفان تھا۔ اس پر خدا کا شکر ادا کیا جس نے خیر و عافیت کے ساتھ گھر پہنچادیا۔

چرنا جزیرہ 12 ماہ نہیں کھلا رہتا بلکہ اپریل میں بند ہوجاتا ہے اور پھر جولائی یا اگست میں کھلتا ہے۔ لہٰذا جو لوگ وہاں کی سیر کرنا چاہتا ہوں انہیں کچھ عرصہ انتظار کرنا ہوگا۔ آخر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ آپ جس ساحلی مقام پر بھی جائیں وہاں صفائی ستھرائی کا خیال رکھیں اور کچرا پھیلانے سے گریز کریں۔ کیونکہ آلودگی ان خوبصورت مقامات کے لیے زہر قاتل ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔