کوچۂ سخن

عارف عزیز  اتوار 12 مئ 2019
جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے۔ فوٹو: فائل

جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے۔ فوٹو: فائل

غزل


پوچھ مت کتنی پریشانی ہُوا کرتی ہے
جب بھرے شہر میں ویرانی ہُوا کرتی ہے
تیرے سینے سے لگا ہوں تو کُھلا ہے مجھ پر
سانس لینے میں بھی آسانی ہُوا کرتی ہے
چند اک پھول ہی ہوتے ہیں بھرے گلشن میں
جن کے جھڑنے پہ پشیمانی ہُوا کرتی ہے
یہ جو درویش نظر آتے ہیں بھوکے پیاسے
اِن کے پیروں تلے سلطانی ہُوا کرتی ہے
دور مت بھاگ، نہ ڈر، جھلسے ہوئے پیڑ ہیں ہم
اپنی خواہش تو فقط پانی ہُوا کرتی ہے
(فرخ عدیل۔ چوک اعظم لیہ)

غزل


عکس کو آئینہ بنا کے دیکھ
خواب ادراک سے ملا کے دیکھ
اک زمانے کی بات رہنے دے
ایک لمحے کو آزما کے دیکھ
میں چراغوں میں آن بیٹھا ہوں
تیرگی! آ مجھے اٹھا کے دیکھ
راستے میں گڑی ہے بینائی
تو کبھی راستے پہ آ کے دیکھ
اک تماشے کا شوق تھا تجھ کو
اب تماشے کو مسکرا کے دیکھ
شمعِ امید بجھ گئی کب کی
کوئی دیپک میاں جلا کے دیکھ
تجھ میں محصور ہوں زمانوں سے
دل کے پاتال سے اٹھا کے دیکھ
(انوش عدنان۔ شورکوٹ)


غزل


ہزار کرتے رہو جتن تم، جتن کے دَم پر بُجھا کہیں سے؟
بجھا سکو تو بجھا کے دیکھو، ابھر پڑے گا دیا کہیں سے
سکوتِ لب ہو، ضمیر لیکن خموش مجھ کو نہ رہنے دے گا
پکارنے پر، پکارتی ہے، مرے ہی اندر صدا کہیں سے
سفینہ ڈوبے بھلے نہ ڈوبے ہمیں تو اتنا ہی دیکھنا ہے
کدھر پھرے گا رخِ عزیزاں، کدھر ملے گی دعا کہیں سے
یہاں وہ دار و رسن نہیں ہیں، کسی کی جاں ہے ثمر کسی کا
لہو کہیں سے چھلک پڑے گا، اٹھے گا رنگِ حنا کہیں سے
جہاں کے زنداں میں حبس آخر رہے گا کب تک، سہیں گے کب تک؟
جہاں تو آخر جہاں رہے گا، جہاں میں پھونکو صبا کہیں سے
نمو سخن میں ہے آمدوں کی، سخن پہ کامل یقیں مجھے ہے
قلم تو میرا ہی چل رہا ہے، پہ ہو رہی ہے عطا کہیں سے
(حمزہ ہاشمی سوز۔ لاہور)


غزل


رنگ، خوشبو، ہوا، رہے ہیں میاں
خواب، خاکِ شفا رہے ہیں میاں
راستہ جا رہا ہے جنگل کو
اور ہم ہیں کہ جا رہے ہیں میاں
کیا کوئی حادثہ ہوا ہے یہاں
لوگ پرسش کو آ رہے ہیں میاں
ہم ہیں مزدور اس حویلی کے
رزق اپنا کما رہے ہیں میاں
کون ہے دوسرے کنارے پر
آپ کس کو بلا رہے ہیں میاں
بات تھی اک دیا جلانے کی
آپ تو گھر جلا رہے ہیں میاں
اب یہی مشغلہ ہمارا ہے
لکھ رہے ہیں مٹا رہے ہیں میاں
( فلک شیر انجم۔ جھنگ)


غزل


کیا دکھائی دے رہا تھا اور کیا دیکھا نہیں
منظروں کو ہم سبھی نے ایک سا دیکھا نہیں
اب زمین و آسماں کا کیا کروں گا میں بھلا
ایک میں نے دیکھ لی ہے دوسرا دیکھا نہیں!
بند کر کے آنکھ جھرنے کی صدا سنتے رہے
اس دفعہ تو حسن کو ہم نے سنا! دیکھا نہیں
کچھ تو ہے جو بارہا مجبور کرتا ہے ہمیں!
بے وجہ ہم نے کسی کو بارہا دیکھا نہیں
جب سنہری روشنی کو ظلمتِ شب کھا گئی
پھر ہمارے سامنے جو بھی ہوا دیکھا نہیں
اس کو میری آنکھ سے دل میں اترنا تھا مگر!
میں بھی اس کی بات تو سنتا رہا دیکھا نہیں
(اشفاق رضا۔ احمد پور سیال)


غزل


بام و دَر سے نظر چرا کے ہنسا
اپنے آنسو کوئی چھپا کے ہنسا
میں نے بولا کہ عشق ہے تم کو!
کان کو ہاتھ وہ لگا کے ہنسا
اس کی راحت تو بس یہاں تک ہے
مجھ کو روتے ہوئے ہنسا کے ہنسا
دوستوں میں ہوا جو ذکر ترا
میں تو دھیرے سے کسمسا کے ہنسا
کس کو دیکھا ہے خواب میں تو نے؟
کس کو نیندوں میں گدگدا کے ہنسا؟
اس نے خود کو خود ہی پکار لیا
اور پھر ایک دم سے آ کے ہنسا
کوئی روتا رہا دریچے پر
کوئی منظر سے بچ بچا کے ہنسا
یہ بھی ملنا ہوا بتا دے مجھے
تُو تو مجھ کو گلے لگا کے ہنسا
(ماہ رخ علی ماہی۔ کراچی)


غزل


خدا کے نام پہ اپنا مفاد چاہتے ہو
تم اپنے جھوٹے قصیدوں پہ داد چاہتے ہو
مجھے جو ملتا غنیمت سمجھ کے رکھ لیتا
اور ایک تم ہو جو حسبِ مراد چاہتے ہو
نہیں ہوں تنگ نظر، تنگ دست ہوں بھائی
ہر ایک لفظ کا تم متضاد چاہتے ہو
اسی میں وصل بھی کرنا ہے، ہجر کاٹنا ہے
تم ایک رات میں کتنا تضاد چاہتے ہو
شدید حبس میں بارش کی ہے تمہیں امید
بچھڑتے وقت مرا اعتماد چاہتے ہو
تمہاری ایک تو تعریف کی ہے اوپر سے
غزل کا مصرعِ تَر مستزاد چاہتے ہو
( مرزا معید۔ ڈیرہ غازی خان)


غزل


نیند نہ آئے سَر بھی بھاری ہو
ایسے میں خاک خواب کاری ہو
میرے آنگن میں اس طرح اْترو
گھر میں بس روشنی تمہاری ہو
یہ مرے ساتھ ہی جواں ہوئی ہے
کس طرح ختم بے قراری ہو
میری باتیں بھی کوئی مانے گا!
ساری دنیا ہی جب تمہاری ہو
یوں تو ہم شعر بھی نہیں کہتے
تجھ کو دیکھیں تو نظم جاری ہو
سب سے ملتا ہوں مسکرا کے عدن
وار کھاتا ہوں وہ جو کاری ہو
( عدن شعیب۔ منڈی بہاؤ الدین)


غزل


ہم تم گر تقسیم ہوئے
سارے ڈر تقسیم ہوئے
اس نے آنکھ گھمائی تو
سب منظر تقسیم ہوئے
حکم خدا کا نبیوں کو
بحر و بر تقسیم ہوئے
بے گھر تھے، یک جاں تھے
پایا گھر تقسیم ہوئے
بابر سب کی منزل ایک
اور سفر تقسیم ہوئے
(بابر ہاشمی۔ منڈی بہاؤ الدین)


غزل


کوئی بھی سمت تھی، نہ اچھی طرف
لوٹ کر آگئے ہیں اپنی طرف
ایسی بے سمتی ہے مرے اطراف
اک طرف بھی نہیں ہے کوئی طرف
اب دکھائی ہی کچھ نہیں دیتا
دیکھتا رہتا ہوں میں سب کی طرف
ہم ہیں دیوار پر لگی تصویر
یعنی جو دیکھے گا اسی کی طرف
پہلے زنجیر کھینچ لیتا تھا
بھاگتے وقت، میری، اپنی طرف
ساری سمتوں کے بھید کھل جائیں
وہ اگر دیکھ لے ہماری طرف
کوئی حامی نہیں مرا عامر
اور میں خود بھی نہیں کسی کی طرف
(محمد عامر۔ جبی، خوشاب)


غزل


یہ دل تو مثلِ سمندر ہے اور میں تنہا
وسیع کتنا مرا گھر ہے اور میں تنہا
میں کیسے لڑتا رہوں اے وفا شعار بتا
تمھاری یادوں کا لشکر ہے اور میں تنہا
میں لاج کیسے بچاؤں اے زندگی تیری
ہرایک گام یہاں شَر ہے اور میں تنہا
یہ کوہِ طور نہ ہوجائے دل مرا جل کر
کہ رو برو رخِ دلبر ہے اور میں تنہا
یہ بزمِ حسن کی رعنائیاں ارے توبہ
کہ مے ہے، جام ہے، ساغر ہے اور میں تنہا
وہی شجر، وہی دریا، وہی نگر ہے مگر
اداس اداس یہ منظر ہے اور میں تنہا
یہ شور کیسا ہے اشعار پر مرے اے نور
ہجومِ اہلِ سخن وَر ہے اور میں تنہا
(حضرت نور تنہا۔ کراچی)


غزل

کوئی ہنگامہ سر محفل اٹھا سکتا نہیں
دیکھ تیرا ہجر بھی میں تو منا سکتا نہیں
گھر کی دیواریں ہیں کب میرے سخن سے آشنا
سو میں اپنا دکھ کسی کو بھی سنا سکتا نہیں
جستجو مجھ تک پہنچنے کی تری بیکار ہے
وقت ہاتھوں سے تو نکلا واپس آ سکتا نہیں
تجھ کو میرا درد آنکھوں سے سمجھنا چاہیے
کیا اداسی میں بھی کوئی مسکرا سکتا نہیں
ہے حسینی خون شامل میری رگ رگ میں میاں
سَر کٹا سکتا ہوں میں پر سَر جھکا سکتا نہیں
(علی اسد۔ منڈی بہاء الدین)


غزل


یہ اذیت سے بھی پار ہے! چھوڑ دے
عشق تو پھولوں میں خار ہے! چھوڑ دے
خود کو برباد مت کر اسی کے لیے
وہ کسی اور کا یار ہے! چھوڑ دے
یہ کہاں لے کے تم جا رہے ہو مجھے
یہ تو جلتی ہوئی نار ہے! چھوڑ دے
کہہ رہی تھی سہیلی اسے، اِس کے پاس
پیسہ ہے نہ کوئی کار ہے! چھوڑ دے
اس سے واقف ہوں جس سے تمہیں عشق ہے
یار ! وہ میرا ہی یار ہے! چھوڑ دے
ہجر کو چیخ کر کہہ رہا تھا زبیر ؔ
عشق کی بھی پڑی مار ہے! چھوڑ دے
(زبیر اختر ملک۔ جلال پور پیروالہ۔ ملتان)
غزل
مر کے پائی امان مٹی کی
مٹی ہے پاسبان مٹی کی
زندگی ذرہ ذرہ بکھری ہے
ختم ہوئی اڑان مٹی کی
اس کو سجدہ کیا فرشتوں نے
ہے بہت اونچی شان مٹی کی
یہ ہوا پانی کا مرکب ہے
بس یہی داستان مٹی کی
خامشی توڑنی پڑی بُت کو
روح ہے ترجمان مٹی کی
( اسلم صابر۔ عیسیٰ خیل)

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچۂ سخن‘‘
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین)،5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچی
[email protected]

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔