قلم کار

ظہیر اختر بیدری  ہفتہ 11 مئ 2019

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

معاشرتی بے حسی کی دو بنیادی وجوہات ہیں، ایک تعلیم سے محرومی دوسرے طبقاتی برتری۔ پاکستان کے 22 کروڑ عوام ان دونوں ہی عوامل کا شکار ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد چونکہ اس ملک میں سیاست اور اقتدار پر اشرافیہ نے قبضہ کرلیا لہٰذا انھوں نے عوام میں بیداری پیدا کرنے والے ان دونوں عوامل کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا۔ عوام کو تعلیم سے دور رکھا گیا، دوسرے معاشرتی اور سیاسی نظام پر اشرافیہ کی بالادستی کو مستقل شکل دے دی گئی نتیجہ یہ ہوا کہ عوام اس ملک میں سیاسی غلاموں کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے۔

اس فارمولے کو اس قدر مستحکم کیا گیا کہ بڑے بڑے احتساب کو بھی اشرافیہ ناکام بناتی رہی۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں بڑی چالاکی اور منصوبہ بندی سے سیاست میں ترقی پسند اور لبرل طاقتوں کو پیچھے دھکیل دیا گیا اور اشرافیہ نے زندگی کے ہر شعبے پر اتنی مضبوطی سے قبضہ کرلیا کہ عوام صرف روبوٹ بن کر رہ گئے۔ سیاست میں لامحدود کرپشن کو اس طرح استعمال کیا گیا کہ وہ طاقتیں جو عوام میں بیداری پیدا کرنے کی اہلیت رکھتی تھیں انھیں بھی کرپشن کا شکار کردیا گیا۔

معاشرے میں عوامی حقوق کی لڑائی لڑنے والی دو بڑی طاقتیں مزدور اور کسان کو پابندیوں کی زنجیر میں اس طرح جکڑ دیا گیا کہ وہ معذور ہوکر رہ گئے۔ یہ سارا کام اتفاقی نہیں بلکہ ایک ماہرانہ پلاننگ کے ساتھ کیا گیا جس کا لازمی نتیجہ سیاسی بے حسی کی شکل میں ہمارے سامنے ہے اور اشرافیہ احتساب کی زنجیروں کو گلاب کے ہاروں کی طرح پہن کر قہقہے لگا رہی ہے اور بے چارے عوام حیرت اور بے چینی سے اس پورے ڈرامے کو دیکھ رہے ہیں۔

جیسا کہ ہم نے عرض کیا اشرافیہ 71 سالوں سے ان دو حربوں کے ذریعے اس ملک پر راج کر رہی ہے ایک عوام کو علم سے دور جاہل رکھ کر دوسرا سیاست اور اقتدار پر قبضہ کرکے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کس طرح کیا جا رہا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ شہری علاقوں میں سرکاری اور نجی اسکولوں کو کاٹیج انڈسٹری میں بدل دیا گیا ہے اور غریب طبقات کے نوجوانوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی گئی ہے کہ تعلیم کا مقصد اچھی نوکری کے حصول کے علاوہ کچھ نہیں۔ جب تک ملک میں ترقی پسند طاقتیں فعال تھیں، کالج اور یونی ورسٹیوں میں  طلبا تنظیمیں فعال تھیں اور طلبا تنظیمیں معاشرے میں اشرافیہ کے کردار کو واضح کرکے نوجوانوں میں یہ شعور بیدار کرتی تھیں کہ اس ظالمانہ طبقاتی نظام میں کس طبقے کا کیا کردار ہے اور اس نظام کو بدلے بغیر ملک کے کروڑوں عوام کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔

دنیا بھر کے عوام میں اس حوالے سے ایک امید پائی جاتی تھی کہ اس ظالمانہ طبقاتی نظام میں تبدیلی کے لیے سوشلسٹ ملک ایک اہم کردار ادا کریں گے۔ عوام میں پائی جانے والی اس امید کو سوشلسٹ ملکوں کا بڑی منصوبہ بندی سے شیرازہ بکھیر کر ایسی ناامیدی پیدا کردی کہ دنیا جمود کا شکار ہوکر رہ گئی۔ اس ناامیدی کے اندھیرے میں میڈیا اور اہل قلم امید کی ایک کرن کی حیثیت رکھتے ہیں، بدقسمتی سے میڈیا کو بھی اشرافیائی سیاست کے سمندر میں دھکیل دیا گیا ہے، لے دے کر مٹھی بھر سر پھرے قلم کار ہیں جو عوام میں امید کی کرن بنے ہوئے ہیں۔

تبدیلی کے لیے خونی انقلاب ناگزیر نہیں بلکہ اسی طبقاتی نظام کے اندر رہتے ہوئے بھی عوام میں سیاسی شعور بیدار کرکے انھیں تبدیلیوں کے لیے متحرک کیا جاسکتا ہے۔ انقلابی ذہن اور انقلابی ایمانداری کے ساتھ لکھی جانے والی ایک لائن بھی اتنی پراثر ہوتی ہے کہ اس پر ہزاروں دیوان نثار کیے جاسکتے ہیں۔ ان حقائق کو سمجھنے سے پہلے اس شرم ناک حقیقت کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں نے دولت اور سفارش کو کامیابیوں کی نوید بناکر رکھ دیا ہے اور ہر بندہ بشر کا پہلا اور آخری آپشن دولت اور سفارش بن گیا ہے چونکہ دنیا میں انقلاب کا کوئی چراغ جلتا نظر آتا ہے نہ انقلابی جدوجہد کے کہیں آثار نظر آتے ہیں اس لیے عوام اور نوجوان طبقات زندگی کی ہر خوشی کے لیے دولت اور سفارش کے پیچھے بھاگتے نظر آتے ہیں۔

سرمایہ دارانہ نظام کے بدبخت اور سرپرستوں نے نئی نسلوں میں ایک پرآسائش زندگی کو ان کا پہلا آخری ہدف بناکر رکھ دیا ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ نوجوانوں کی اکثریت انھی اہداف کے پیچھے دوڑی جا رہی ہے۔ نظام کے بدلنے کے دعویدار کمبل اوڑھے اپنی اپنی کھولیوں میں دبکے بیٹھے ہیں معاشی ناانصافیاں جلد یا بدیر اقتصادی محرومیوں اور ناانصافیوں کا شکار عوام کو سڑکوں پر لے آتی ہیں آج فرانس، الجزائر اور سوڈان میں عوام سڑکوں پر کھڑے ہیں اور اشرافیہ کے اقتصادی مظالم کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں لیکن ان کی قیادت کرنے والا ان کی درست سمت میں رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں۔ جس کی وجہ یہ بڑی بڑی تحریکیں چھوٹی چھوٹی لڑائیوں میں بدل کر رہ گئی ہیں۔

ان اتھاہ اندھیروں میں بھی انفرادی سطح پر لوگ چراغ جلانے کی کوشش کر رہے ہیں اور ایسے لوگ دنیا کے ہر ملک میں موجود ہیں لیکن ان کے درمیان رابطوں کا فقدان ہے۔ ہمارے ملک میں ہزاروں کی تعداد میں این جی اوز کام کر رہی ہیں این جی اوز مختلف ملکوں سے بھاری فنڈ حاصل کرتی ہیں اور عموماً نمائشی اور بے مقصد کاموں پر خرچ کردیتی ہیں۔ ان این جی اوز میں ایسے لوگ بھی ہیں جو لبرل سوچ کے حامی ہیں ایسے لوگ اگر ایمانداری سے انفرادی سطح پر فکری تبدیلیوں کے لیے کام کرنے والے مخلص لوگوں کے درمیان رابطوں کا کام بھی انجام دیں تو آج کے مایوس کن حالات میں یہ ایک بڑا کام ہوسکتا ہے۔

چونکہ اجتماعی کوششوں کے امکانات بہت کم رہ گئے ہیں لہٰذا عوام میں فکری تبدیلیوں کے لیے انفرادی سطح پر قلم کار حضرات عوام میں شعور کی بیداری اور استحصالی طبقات کی نشان دہی کا کام بھی کریں تو ان مایوس کن حالات میں ایک بڑی ذمے داری پوری کر رہے ہوں گے خاص طور پر میڈیا سے تعلق رکھنے والے اس حوالے سے حوصلہ افزا کام انجام دے سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔