میرے پاس ہے ہی کیا!!!

شیریں حیدر  اتوار 12 مئ 2019
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

’’ میرے پاس ہے ہی کیا؟ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں !! میں تو مشکل سے اپنا وقت پاس کرتا ہوں !! کچھ بھی تو نہیں میرے پاس!! ‘‘ ایسے اور اس سے ملتے جلتے فقرے ہم میں سے تقریباً ہر کوئی بولتا ہے۔ سڑکوں اور گلیوں میں بھیک مانگنے والا ہو، مزدور دیہاڑی دار، چھوٹا کاروباری یا بڑا، سفید پوش، ملازمت پیشہ، امیر، سفیر، مشیر ہو یا وزیر… اور تواور وہ جو ملک کو لوٹ کر کھا گئے ہیں وہ بھی سمجھتے ہیں کہ ابھی بھی ان کے پاس کم ہے، پانچ سال اور مل جاتے تو ان کا کچھ اور بھلا ہو جاتا۔ ایسا کیوں ہے ؟

کیونکہ ہم سب کے پاس جو چیز واقعی نہیں ہے وہ ایک ایسی دولت ہے جو بمشکل میسر آتی ہے اور وہ ہے قناعت کی دولت۔ جسے یہ دولت مل جائے وہ روکھی سوکھی میں بھی خوش اور کم پا کر بھی خود کو بہتر سمجھتا ہے کہ اسے اتنے ہی کی جواب دہی کرنا ہو گی جتنا اس کو میسر ہے ۔ وہ اپنے سے اوپر نہیں بلکہ نیچے دیکھ کر مطمئن ہو جاتا ہے کہ اس سے اگر لاکھوں بہتر ہیں تو لاکھوں ہی اس سے کم تر بھی۔

کسی کی کامیابی اور خوشی دوسرے کے دل کا سکون چھین کر اس کی نیندیں حرام کر دیتی ہے، کیا وہ کامیابی اگر اس دوسرے آدمی کو نہ ملتی تو مجھے مل جاتی؟ صرف خود سے یہ سوال کریں تو بہت سا حسد پیدا ہونے سے پہلے ہی دم توڑ دیتا ہے۔ فلاں کو آرمی چیف نہیں بننا چاہیے تھا… فلاں وزیر خارجہ بننے کے لائق نہیں، فلاں صاحب تو اتنا بڑا کاروبار چلانے کے اہل ہی نہیں ، اس کا بیٹا جانے کیسے باہر چلا گیا، اس کی بیٹی کا اتنا اچھا رشتہ کیسے ہو گیا… اپنے نصیب پر شاکر نہ ہونا ، ایمان کی کمزوری کی نشانی ہے۔

ہر شخص اچھے کے لیے کوشش کرتا ہے مگر دل سے اس بات کا یقین نہیں ہوتا کہ ہمیں وہی ملتا ہے جس کے ہم مستحق ہیں، جتنی ہم کاوش کرتے ہیں، جتنے کے لیے ہم محنت کرتے ہیں ۔ اگر میں نہ فوج میں ہوں، نہ کاروباری، نہ جج، نہ کوئی حکومتی عہدے دار، نہ ڈاکٹر تو میں کس طرح کہہ سکتی ہوں کہ فلاں کو چیف جسٹس نہیں بننا چاہیے، فلاں کو ہیلتھ منسٹر نہیں ۔ صرف یہی نہیں، ان کی ہر ہر حرکت پر تنقید کرتے ہیں، اسے فلاں معاملے میں یوں کرنا چاہیے اور فلاں میں یوں ، کیونکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان سے زیادہ اس کام کی اہلیت رکھتے ہیں۔

دنیا میں ہمیں جو بھی میسر ہے وہ ہماری اپنی محنت کا پھل ہے اور اللہ تعالی نے ہر ایک کے لیے اتنا ہی لکھا ہے جتنے کے لیے وہ محنت کرتا ہے۔ اکثر سننے میں آتا ہے کہ بچہ امتحانی پرچہ دے کر آتا ہے تو پوچھنے پر کہ پرچہ کیسا ہوا، اس کا جواب ہوتا ہے، ’’بہت اچھا‘‘۔ ایسا جملہ کم از کم اس امتحان کا نتیجہ آنے تک چل جاتا ہے ۔ جب نتیجہ ’’ خلاف توقع ‘‘ آتا ہے تو اپنی کمی اور نااہلیت کو ماننے کی بجائے سارا الزام ممتحنوں پر دھر دیا جاتا ہے کہ وہی نااہل ہیں جو ہمارے بچے میں چھپے ہوئے ٹیلنٹ کو نہیں پہچان پائے۔ اسی طرح زندگی کے ہر معاملے میں ہم اپنی ہر کمی کا الزام کسی ایسے کے سر پر دھر دیتے ہیں جسے ہماری ناکامی یا کامیابی سے کچھ لینا دینا ہی نہیں ہوتا۔ دنیاوی امتحانوںمیں بھی ہم اپنے کیے کا نتیجہ پاتے ہیں اور آخرت میں بھی ہمیں وہی نتیجہ ملنا ہے جس کا پرچہ ہم اس وقت حل کر رہے ہیں ۔

امتحان گاہ کی طرح، ہماری نظر اپنے پرچے پر کم اور دائیں بائیں والوں پر زیادہ ہوتی ہے۔ کون کم لکھ رہا ہے اور کون زیادہ، کس نے فالتو شیٹ لی ہیں اور کون ابھی تک ایک صفحہ بھی خالی لیے بیٹھا ہے، کون ہونقوں کی طرح دائیں بائیں دیکھ رہا ہے اور کون نقل مار رہا ہے… ہماری سوچ اور نظر محدود ہے مگر ایک ذات ہے جو ہر جذبے سے بالاتر ہے۔ اسے نہ کسی سے حسد ہے نہ بغض، ہاں اسے خوشی ہوتی ہے جب کوئی اس کے دیے پر صبر کرتا ہے ، اسے کم دیے پر بھی سراہتا ہے اور اس کا شکر بجا لاتا ہے۔ اسے دکھ ہوتا ہے جب کوئی اسے نظر انداز کرتا ہے اور شیطان کے شکنجے میں جکڑا جاتا ہے، اس کی تقسیم پر اعتراض کرتا ہے اور ہر وقت ناشکری کے مرض میں مبتلا رہتا ہے۔ ا س کے پاس سب اختیارات ہیں ، ساری قسم کی دولت ہے، اس سے جو کوئی قناعت کی دولت مانگتا ہے تو وہ اسے وہ بھی عطا کرتا ہے جو انسان کو کم پر بھی بہ راضی و رضا رکھتی ہے۔

آپ کے سجے سجائے دستر خوان پر آپ کے بچوںکو جو نعمتیں کم لگ رہی ہوتی ہیں اتنی کروڑوں کو میسر نہیں ہوتیں ۔ کبھی کبھار خود بھی جائیں اور کبھی اپنے بچوںکو بھی دکھائیں کہ غربت کیا ہوتی ہے، بھوک کیا ہوتی ہے، طلب کیا ہوتی ہے۔ انھیں دنیا کے وہ علاقے دکھائیں جہاں قحط ہے اور بھوک سے بلکتے ہوئے بچے ہیں۔ انھیں کچرے کے ڈھیروں سے کھانے پینے کی اشیاء چنتے ہوئے بچے دکھائیں جو آپ کے بچوں کی ضایع کی ہوئی اشیاء کو کچرے میں سے چن کر بھی کھا لیتے ہیں۔ ان کی سجی اور ابلتی ہوئی وارڈ روب انھیں کم لگتی ہیں تو انھیں وہ پیوند شدہ لباس پہنے ہوئے لوگ دکھائیں جن کے پاس ایک سے دوسرا لباس نہیں ہوتا ۔ انھیں وہ لوگ دکھائیں جو مفت میں بٹنے والے لنگروں کی قطاروں میں گھنٹوں کھڑے ہو کر اپنا حصہ لیتے اور اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔

انھیں بتائیں کہ ایک دیہاڑی دار مزدور ایک بکاؤ مال کی طرح ہر صبح جا کر انسانوں کی اس منڈی میں کھڑا ہوتا ہے جہاں سے لوگ اس کا انتخاب کرتے ہیں اور کام پر لے جاتے ہیں۔ کم خوراکی اور نیند نہ پوری ہونے کے باوجود وہ یوں تن کر کھڑا ہوتا ہے کہ دیکھنے والوں کو وہ چاق و چوبند لگے تو اس کاوجود اندر سے کیسے تڑخا ہوا ہوتا ہے ۔ اگر وہ ایک دن کے لیے بھی کام نہیں کر پاتا، اپنی بیماری کی وجہ سے یا کام نہ ملنے کی وجہ سے تو اس روز اس کے گھر کا چولہا نہیں جلتا، اس کے معصوم بچے بھی بھوکے سوتے ہیں اور وہ ان کے فاقے پر آنسو بہاتا رہتا ہے۔ وہ بھی اپنی خستہ سی کٹیا میں رات بھر جاگ کر سوچتا ہے کہ ان گھروں میں کون سے لوگ رہتے ہیں جن گھروں میں وہ دوران تعمیر اینٹیں اور گارے کو ڈھونے کا کام کرتا ہے؟ اس کے دل میں بھی حسرتیں پیدا ہوتی اور مرتی ہیں ، لیکن وہ فقط اتنا ہی مانگتا ہے کہ اس کے گھر کا چولہا بند نہ ہو۔

دوسروںکی کامیابی اور ترقی پر خوش ہونا اتنا ہی مشکل ہے جتنا جہاد کرنا ۔ نفس کے اندر جیتا جاگتا حسد کا ناگ ہوتا ہے ، اسے مارنا کوئی آسان کام تو نہیں۔ ہمارے پاس جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ ہمیں کم لگتا ہے، قارون کے خزانے بھی انسان کے طمع کے پیالے کو نہیں بھر پاتے ۔ جتنا نتھو ریڑھی والا خود کو محروم سمجھتا ہے اتنا ہی شاید ہمارے وہ حکمران خود کو محروم سمجھتے ہیں جنہوں نے اپنے ذاتی خزانوں کے انبار ملک سے باہر جمع کر رکھے ہیں ۔ وہ بھی کہتے ہیں ، ’ایک بار لوٹا ہے ، بار بار لوٹنے کی ہوس ہے!‘… ننانوے کی گنتی میں پھنسا ہوا انسان ، مایا جال میں ایسا ہی غیر مطمئن رہتا ہے، اسے کوئی دولت سکون نہیں بخشتی کیونکہ اس نے اللہ تعالی سے اپنے لیے صرف مادی دولت ہی مانگی ہے ، سکون، اطمینان اور قناعت نہیں۔

ماہ رمضان، برکتوں اور رحمتوں کا مہینہ ہے، اس ماہ مبارک میںکی گئی ہر نیکی کا ثواب عام مہینوں سے کئی گنا زیادہ ملتا ہے۔ اسی لیے زکوۃ کو ماہ رمضان کے اریب قریب منسلک کر دیا گیا ہے کہ اس مہینے میں آپ کی دی گئی زکوۃ سے کوئی محروم نہ رہے۔ آپ بھی اس مہینے اللہ کی خاص نعمتوں سے فیضیاب ہوں اور آپ کی دی گئی زکوۃ سے وہ لوگ بھی لطف اندوز ہوں جنھیں عام حالات میں یہ سب کچھ میسر نہیں ہوتا ۔ دوسروں کو اپنے رزق ، اپنی دولت اور اپنے وقت سے کچھ حصہ دیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ حقیقی خوشی کیا ہوتی ہے۔ بھوکے کو کھانا کھلانے کا بہت ثواب ہے اور اس مہینے میں اس ثواب کو بھی یقینا کئی گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے۔

چاہے آپ ہمیشہ کہتے ہوں کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے مگر اللہ اور بندے کے بیچ کے معاملات کو تو آپ جانتے ہیں، آپ کے پاس کچھ نہیں ہے… یہ وہ رونا ہے جو آپ اپنے جیسے انسانوں کے سامنے رو سکتے ہیں مگر آپ کا اللہ تو جانتا ہے کہ آپ کے پاس کیا ہے اور کیا نہیں ، اسی نے تو دیا ہے آپ کو سب کچھ ۔ اس کے دیے کی شکر گزاری کا اس وقت یہی طریقہ ہے کہ اس کی مخلوق کو اس کے دئے ہوئے میں شامل کریں اور دیکھیں کہ آپ کا دل کیسے خوشی سے معمور ہو جائے گا۔ اللہ تعالی ہم سب کو نیکی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔