مہنگائی اور تحریک

جاوید قاضی  اتوار 12 مئ 2019
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

قرضوں کے بوجھ تلے، قرضوں کے واسطے اور پاکستان بھلا کر بھی کیا جا سکتا تھا۔ اپنے اخراجات اس سے کم نہ ہوئے تو پھر اس محفل میں قرضے دینے والے شرکت کار نہ ہوتے توکیا ہوتے۔ مقروض کی ملکیت پر حق آدھا ہوتا ہے، بھلے وہ اس کے نام پر کیوں نہ ہو، قرض دینے والے کا بھی اس میں حصہ ہوتا ہے، بھلے اس کا نام مالک کی حیثیت میں درج نہ ہو پھر بھی۔ تو پھر یہ سوال عجیب نہیں کہ آئی ایم ایف اس بزم میں براہ راست یا بلاواسطہ کیوں بیٹھا ہے۔آپ قرضہ لیں اور پھر یہ کہیں یہ بار بار دروازہ کیوں کھٹکھٹاتے ہیں ۔

اپوزیشن کا کیا اس نے تو وہی کچھ کرنا ہے جوکل عمران خان کیا کرتے تھے ۔ مگر خان صاحب نے جو اقتدار میں آ کر کیا آج سے پہلے اس طرح کبھی نہ ہوا ۔ کچھ تو اس میں ماضی کی کج ادائی بھی ہے مگر بہت کچھ انھیں کا کیا دھرا ہے ۔ معاملات کرکٹ ٹیم بنانے کے ہوتے تو ٹھیک تھا مگر یہ کام اس مملکت خداداد کی تقدیر کا تھا جو عمل سے بنتی ہے۔ اب اس پر تو وقت نہیں ضایع کیا جا سکتا کہ ہمارے اسد عمر نے کیا کیا، مگر یہ بات جو کل تک افواہ تھی کہ قرضہ دینے والوں نے کہا ہے کہ اس کو ہٹائو، اس لیے نہیں کہ وہ ان کو اچھا نہیں لگتا، مگر اس لیے کہ وہ اناڑی تھا۔

ہمارے جانے والے اسٹیٹ بینک کے گورنر نے ایک جھٹکے میں روپے کے مقابلے میںڈالرکی قدرمیں دس روپے کا اضافہ کر دیا۔ کب ہوا تھا آج سے پہلے اس طرح کہ ایک جھٹکے میں ایسا ہوا ہو اور جس کے پاس اتنی بڑی خبر تھی اور اس میں خمیر اگر میرے جیسا ہی ہو گا اور اربوں روپے کیش میں ہونگے ۔ ایک رات میں کروڑوں روپے کمائے ہونگے ۔ بہت سادہ سا یہ کام تھا کیا اسٹیٹ بینک کے گورنر کو یہ خبر نہ تھی ۔ وہ بڑھاتے تودس روپے ہی مگر آہستہ آہستہ۔

جو پچھلی حکومت نے پچھلے دس مالی سال دس مہینوں میں قرضے لیے تھے بجٹ کے حوالے سے ۔ اس حکومت نے اس مالی سال کے دس مہینوں میں ان کی نسبت 26% زیادہ لیے ہیں اور وہ قرض جو باہر سے لیے وہ الگ۔ پیٹرول پر ٹیکس کی مد میں اس مرتبہ آمدنی سولہ فیصد کم ہوگی۔ لگ بھگ 300 سے 400 سو ارب ایف بی آر نے اپنے ٹارگٹ کی نسبت کم جمع کیے ہیں۔ 700 ارب Subsidies  یا جو ٹیکس میں چھوٹ وہ بھی اب ختم۔ شرح سود میں بھی ایک سو دو فیصد اضافہ ۔ جو بجٹ کا خسارہ ہے وہ اس وقت 7.6 فیصد شرح نمو کے تناسب سے ہے۔ یوں کہیے کہ اب خان صاحب کی حکومت کم اور آئی ایم ایف کی زیادہ ہوگی۔

اس ملک کے معاشی حالات کو اس نہج پر کون لایا۔ آئی ایم ایف تو نہیں آ رہا تھا مگر آپ نے حالات ایسے کر دیے کہ اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا ۔ ہمیں پیسے چین نے دیے یا سعودی عرب نے وہ ہمارے کسی کام کے نہیں ۔ اس لیے نہیں کہ وہ قرضہ دے کر آپ کی کوئی نہ کوئی چیز ہتھیا لیں گے اگر آپ ان سے لیے ہوئے قرضے اتار نہیں سکیں گے۔ مگر آئی ایم ایف ایسے نہیں کرتا وہ اس کے برعکس کہتا ہے کہ اپنی آمدنی بڑھائو اور اخراجات کم کرو۔ مگرکوئی ہے جو یہ بھی کہے کہ ٹیکس غریبوں پر نہیں امیروں پر لگائو؟

جائیں تو جائیں کہاں؟ ہم پھر آگئے اٹھارویں ترمیم کے پیچھے، این ایف سی ایوارڈ کے پیچھے، صوبوں کے پیچھے۔ ہم اپنے اخراجات کم نہیں کریں گے، اگر قرضے دینے والے چوکس ہوگئے توکیا ہم اب صوبوں کے پیسے اڑائیں گے۔ زرداری کے دس سالوں میں اگر یہ پیسے صحیح طرح استعمال ہوتے، منی لانڈرنگ اور جعلی اکائونٹس میں گردش نہ کرتے تو کیسے جر ات ہوتی عمران خان کو یہ کہنے کی۔

مگر پھر آخر یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے کہ لہو مچلتا ہے، کچھ نہ کچھ ہونے کو ہے۔ شوشوں کے اس بازار سے ایک تحریک ہے جو 2007ء کے بعد پھر سے انگڑائی لینے کو ہے ۔ اس وقت جب میاں صاحب کو جیل تک چھوڑا جا رہا تھا ۔ پنجاب نے کروٹ بدلی ہے، جنہوں نے خانصاحب کو ووٹ دیے تھے ان میں بہت سے ہیں جو اب نہیں دیں گے۔

کل جو اسٹریٹ پاور متحدہ کے پاس تھی ۔ پنجاب میں اتنی بڑی پاور پی ٹی آئی کے پاس تھی ، مگر یہ اسٹریٹ پاور اگر اب میاں صاحب کے پاس نہیں تو خان صاحب کے پاس بھی نہیں ہے۔ مگر مہنگائی پر سب ایک ہیں۔ سندھ میں جب سے گورنر نے دو صوبوں کی بات کی ہے تو سندھ میں بھی پیپلز پارٹی لوگوں کے جذبات ابھارے گی۔

جب دینے کو کچھ نہیں تو ٹھیک ہے آپ چھینئے تو نہیں۔ مہنگائی جب اسی طرح بڑھی ہے تو یہ اور کچھ نہیں مگر ایک طرح کا ٹیکس ہے ۔ جب ٹیکس لینے کا کام انصاف کے تقاضے پورے نہ کرے تو پھر وہ ٹیکس نہیں ڈاکہ زنی ہے۔ ان ڈائریکٹ ٹیکس کے پہاڑ ڈھائے گئے ہیں ۔ لاکھوں لوگ غربت کی لکیر سے بھی نیچے چلے گئے ہیں ۔

کتنا خوبصورت یہ ملک ہے۔ بے انتہا وسائل کا مالک ۔ مگر72 سال سے جو اقتدارکی رسہ کشی ہے، وہ ابھی تک جاری ہے ۔ جو توازن تھا وہ ٹوٹ گیا اور جب سے یہ ٹوٹا ہے پھر ایک تحریک ہے جو پھر سے جنم لے رہی ہے۔ یہ تحریک خود بہ خود اپنی اسٹریٹ پاور بنائے گی۔ اس کی 65 فیصد آبادی تیس سال سے کم عمرکے لوگوں کی ہے اور روزگار کے مواقعے کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں ، معیشت سکڑ رہی ہے ۔ طرح طرح کے بیانیے ہیں ۔کوئی مشرق ہے توکوئی مغرب۔ اسپرنگ انقلاب جو عرب دنیا میں آئے وہاں کی Demography  کچھ ہماری طرح کی تھی۔

خان صاحب بہت ہی سادگی سے لیتے ہیں اپنی فی البدیہہ تقاریرکو اور پھر ان کی زبان کے پھسلنے نے رہے سہے ریکارڈ بھی توڑ دیئے ہیں ۔ جرمنی اور جاپان ایک طرف۔ پانچ ارب درخت دوسری طرف ۔ نیا مظہر روحانیت کا ہے۔

’’ہوتا ہے شب وروز تماشہ میرے آگے‘‘

یا پھر یوں بھی ہوکہ ہر طرف ٹیکنوکریٹ ہوں اور ان کے پاس صرف شیروانی ہو ۔ لباس تو ہو مگر قلمدان نہ ہوں ۔ نام کے تو ہوں مگرکام کے نہ ہوں۔ اگر مہنگائی کے بم اسی طرح گرتے رہے اور ان کی زبان اسی طرح پھسلتی رہی تو پھر بات نکلے گی اور دور تلک جائے گی۔ یہ جب اپنے گول میں اپنا گول کریں گے تو بلاول بھٹو کو اتنی محنت کرنے کی ضرورت نہیں۔ آج کل بلاول بھٹو کے سامنے اسی کام پر رانا ثناء اللہ کو لگا دیا گیا ہے کہ خود پیپلز پارٹی کو واک اوور نہ ملے ۔ جس طرح لاہور میں میاں صاحب کو لاہوری جیل تک چھوڑنے آئے تو شہباز شریف کے منظر سے ہٹ جانے سے جو غلط فہمیاں پیدا ہوئی تھیں اس میں کچھ کمی ہوئی ہے۔

جو سیاست کے پرانے کھلاڑی ہوتے ہیں وہ جب ایسے بحران سے گزرتے ہیں تو اپوزیشن کو ا سی طرح پھر مضبوط نہیں ہونے دیتے ان کو آپس میں لڑوا کے رکھتے ہیں ۔ کل جو سینیٹ کے انتخابات میں آپ کے ساتھ تھا ۔ بلوچستان کی حکومت گرانے میں بھی آپ کے ساتھ تھا آج وہ آپ کے ساتھ نہیں ۔ اس لیے کہ آپ اسی کی سندھ کی حکومت گرانے کے چکر میں ہیں اور اس کے خلاف احتساب تیزکر دیا ہے، مگر اب وہ آپ کے پاس دوبارہ نہیں آئے گا۔ اس لیے کہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے حوالے سے معاملہ گرم ہوتا جا رہا ہے۔

مقابلہ بلاول بھٹو اور مریم نواز میں ہے کہ کون بنتا ہے پاکستان میں بینظیر بھٹوکی طرح ۔ اسٹیبلشمنٹ کے سامنے لیڈر یا اب شاید ووٹ کو عزت تو نہ ملے مگر ووٹ کا شعور تو بڑھتا جا رہا ہے۔ کل تک اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ دائیں بازو کی سیاست تھی آج نہ دائیں بازو کی سیاست ان کے ساتھ ہے نہ بائیں بازو کی۔ بس صرف خان صاحب کی پارٹی ہے جو تیزی سے غیر مقبول ہوتی جا رہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔