نئی مہنگائی، نئے فنانس منیجرز اور نیا بجٹ

تنویر قیصر شاہد  پير 13 مئ 2019
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

سینیٹ کے ایک حالیہ اجلاس میں پوچھے گئے، ایک سوال کے جواب میں حکومت نے اعتراف کیا ہے کہ پاکستان پر بیرونی قرضوں کا بوجھ 88 ارب ڈالر ہو گیا ہے۔ یہ ہوشربا قرضہ کیسے اُترے گا، کسی کو معلوم نہیں۔ اگر وزیر اعظم کی مبینہ ’’روحانیات کی سپر سائنس‘‘ بروئے کار آ جائے تو ممکن ہے اﷲ تعالیٰ ہم پر تیل اور گیس کے ذخائر کھول دے۔ یوں ہمارے سارے دلدّر بھی دُور ہو جائیں گے اور قرضے بھی اُتر جائیں گے۔ فی الحال مگر پریشانی ہے۔ جناب عمران خان ملکی معیشت کو سنوارنے اور سنبھالا دینے کے لیے ہاتھ پاؤں تو مار رہے ہیں لیکن مہنگائی اور قرضوں کے طوفان اور معیشت کی بدحالی کو لگام ڈالنا دشوار تر ہو رہا ہے۔ مزید بدحالی سے بچنے کے لیے اُنہوں نے نئے فنانس مینجرز کا بندو بست کیا ہے۔

اُنہوں نے اپنے دیرینہ اور وفاشعار دوست، اسد عمر، کو بھی فارغ کر دیا ہے۔اُن کی جگہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کولایا گیا ہے۔ لیکن فنانس مینجرز کی تبدیلیاں اسد عمر کی رخصتی کے ساتھ بھی نہیں رک سکی ہیں۔ مئی 2019 کے پہلے ہفتے وزیر اعظم عمران خان نے ایک بار پھر ایک ہی زناٹے میں اپنی ایک اور فنانس ٹیم کو فارغ کر دیا۔ عمران خان کی پالیسیوں اور پی ٹی آئی حکومت کی طرف سے ابھی تک عوام کو تو کوئی تبدیلی محسوس ہو رہی ہے نہ کوئی ریلیف ملا ہے لیکن وزیر اعظم نے اپنی ٹیم کو مسلسل تبدیلیوں کی زد میں لانے پر زور ڈال رکھا ہے۔

دوسرے ہلّے میں اُنہوں نے اسٹیٹ بینک کے گورنر طارق باجوہ کو بھی ہٹا دیا اور ایف بی آر کے چیئرمین جہانزیب خان کو بھی۔ وزیر اعظم نے رواں برس کے آغاز میں اسلام آباد میں ’’ایف پی سی سی آئی‘‘ کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہُوئے تاجروں سے کہا تھا: ’’اگر ایف بی آر نے موثر کردار ادا نہ کیا تو ایف بی آر کی جگہ نیا ادارہ تشکیل دے دیا جائے گا۔‘‘ وزیر اعظم صاحب نیا ادارہ تشکیل تو نہیںدے سکے،البتہ اُنہوں نے ایف بی آر کے سربراہ ہی کو فارغ کر دیا۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم نے دونوں(ایف بی آر کے چیئرمین اور اسٹیٹ بینک کے گورنر)سے استعفے لیے ہیں۔

اس حوالے سے روزنامہ ’’ایکسپریس‘‘ میں 5 مئی2019ء کو صفحہ اوّل پر شائع ہونے والی ایک خبر کو دیکھا جائے تو صورتحال خاصی گمبھیر نظر آتی ہے۔ شنید ہے استعفیٰ دینے سے قبل (سابق) گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ، نے وزیر اعظم سے کوئی خاص بات کرنا چاہی تھی لیکن وزیر اعظم اُن کی بات سُنے بغیر اُسی شام لاہور چلے گئے تھے۔ یوں طارق باجوہ کی دل کی باتیں دل ہی میں رہ گئیں۔ اگلے دن طارق باجوہ اپنی سیٹ پر نہیں تھے۔ یہ ایک حیران کن خبر تو نہیں تھی لیکن حکومتی اور سیاسی حلقوں میںاِن دونوں استعفوں سے ہلچل ضرور مچی ہے۔ حکومت پاکستان نے طارق باجوہ کا استعفیٰ منظور کرتے ہوئے ڈاکٹر رضا باقر کو اسٹیٹ بینک کا نیا گورنر مقرر کر دیا۔ فنانس ڈویژن سے جاری نوٹی فکیشن کے مطابق رضا باقر کی تقرری اسٹیٹ بینک ایکٹ 1956کے سیکشن 10 (3) کے تحت کی گئی ہے۔ آئی ایم ایف سے وابستہ جناب رضا باقر تین سال کی مدت کے لیے اس عہدے پر فرائض انجام دیں گے۔ کیا یہ حیرانی کی بات  نہیں ہے کہ ایٹمی پاکستان سے ہمیں ایک بھی ڈھنگ کا اور قابلِ اعتبار معاشی جادوگر نہیں مل رہا؟

اپوزیشن والے اس تقرر کی ایڑھی چوٹی سے مخالفت کر رہے ہیں۔ اگر عمران خان ماضی قریب میں آئی ایم ایف کے خلاف پُر زور بیانات نہ داغتے رہتے تو شائد آج اُنہیں اِسی حوالے سے طعنے مہنے بھی نہ سُننے پڑتے۔ نون لیگئے کہتے سنائی دیتے ہیں کہ عمران خان نے آئی ایم ایف کے ایک ملازم کے ہاتھ میں اسٹیٹ بینک دے کر گویا پورا پاکستان ہی آئی ایم ایف کے سپرد کر دیا ہے۔ یہ بیان مبالغہ آرائی ہے لیکن اس مبالغہ آرائی میں امیر جماعتِ اسلامی جناب سراج الحق بھی شامل ہیں۔ مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کہتے ہیں کہ حکومت معاشی صورتحال کے متعلق ایک جامع اقتصادی پلان اور حکمت عملی اپنانا چاہتی ہے اور اس کے لیے ڈاکٹر رضا باقر ایسے قابل شخص کی اسٹیٹ بینک میں تعیناتی بہت اہم اور ضروری ہے۔ ماہرِ معیشت شبر زیدی کا کہنا ہے:’’ہمیں رضا باقر ایسے معاشی ذہنوں کی ضرورت پڑے گی جو اگلے پچاس سال کی سوچ رکھتے ہوں۔‘‘ اور بعض نقادوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ڈاکٹر حفیظ شیخ اور ڈاکٹر رضا باقر ایسے نئے فنانس مینجرز کی تعیناتی اور تقرر سے تحریکِ انصاف کے نئے پاکستان کا ایجنڈا ہمیشہ کے لیے دفن ہو گیا ہے۔

آصف زرداری کہہ رہے ہیں کہ رضا باقر کی تقرری کے نقصانات جلد ہی ظہور میں آنے والے ہیں، تھوڑا سا انتظار کیجئے۔ کوئی یہ بیان دیتا سنائی دے رہا ہے کہ اب آئی ایم ایف سے جب پاکستان مذاکرات کرے گا تو یہ دراصل آئی ایم ایف کے مذاکرات آئی ایم ایف سے ہوں گے۔ ایک انگریزی ہفت روزہ نے اِسی پس منظر میں ایک کاٹ دار کارٹون بھی شائع کیا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی البتہ حسبِ معمول ٹھنڈے اور سہج لہجے میں آئی ایم ایف سے ڈرے اہلِ پاکستان کو یہ کہہ کر تسلّی دیتے ہیں کہ رضا باقر صاحب پاکستان کے سپوت ہیں، وہ پاکستان کے مفادات کا تحفظ کریں گے، وہ بڑی تنخواہ چھوڑ کر تھوڑی تنخواہ پر پاکستان آ رہے ہیں۔ ہمیں قریشی صاحب کی باتوں پر یقین ہے مگر وہ قوم کو یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ ’’تھوڑی سی تنخواہ‘‘ کتنی ہے؟

ایف بی آر کے نئے چیئرمین بھی خان صاحب کے نئے فنانس مینجرز میں سے ایک ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ جہانزیب خان کے استعفے کے بعد احمد مجتبیٰ کو ایف بی آر کا نیا باس بنانے کا اعلان سامنے آیا تھا لیکن یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی اور اُن کی جگہ شبر زیدی کا نام گونجنے لگا۔ عجب کنفیوژن اور افراتفری کا منظر ہے۔

وزیر اعظم صاحب اور اُن کے نئے فنانس مینجرز کے سامنے فی الحال تین بڑے چیلنج ہیں:مہنگائی، ڈالر کی اُڑان اور نیا بجٹ۔ حکومت کی طرف سے پہلے یہ خبر سامنے لائی گئی کہ بجٹ 22 مئی کو پیش کیا جائے گا لیکن اب کہا جا رہا ہے کہ 11 جون کو پیش ہو گا۔ بجٹ کے نام سے عوام کو یوں محسوس ہورہا ہے جیسے کوئی میزائل اُن کی طرف بڑھتا آرہا ہے۔ بجٹ سے پہلے آئی ایم ایف سے قرضہ ملنے کی بھی توقع ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ آئی ایم ایف کی ساری شرائط من وعن تسلیم کرلی گئی ہیں۔ اور اب بجلی، پٹرول اور ٹیکس کے نرخ بھی مزید مہنگے ہوں گے۔ وزیر توانائی عمر ایوب نے تو صاف کہہ بھی دیا ہے کہ بجلی مزید مہنگی کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے ۔ماہرینِ معیشت نے بھی کہہ دیا ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان پر جو نیا دباؤ ڈالا ہے، اس کی وجہ سے دسمبر2019 تک ڈالر 165روپے کا ہو جائے گا۔ اس کے باوجود ملکی معیشت نہ سنبھلی تو کیا مغربی ممالک سے درآمدہ ہمارے نئے فنانس مینجرز اپنا بوریا بستر سمیٹ کر واپس وہیں چلے جائیں گے جہاں سے آئے تھے؟ ہمیں بے یارو مددگار چھوڑ کر؟؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔