آزاد کشمیر میں ایل او سی رپورٹنگ کے دوران صحافیوں کو درپیش چیلنجز

خواجہ کاشف میر  جمعرات 16 مئ 2019
لائن آف کنٹرول پر صحافت کرنا میڈیا ورکرز کےلیے مشکل ترین کام ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

لائن آف کنٹرول پر صحافت کرنا میڈیا ورکرز کےلیے مشکل ترین کام ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اقوام متحدہ کے ایک فیصلے کی روشنی میں ہر سال مئی کے مہینے میں پاکستان، آزاد کشمیر سمیت دنیا بھر میں ورلڈ پریس فریڈم ڈے منایا جاتا ہے، جس کا مقصد پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی میں پرنٹ، الیکٹرانک و ڈیجیٹل میڈیا سے منسلک افراد کو درپیش مشکلات، مسائل اور صحافیوں کی زندگیوں کو درپیش خطرات سے متعلق دنیا کو آگاہ کرنا ہوتا ہے۔ پاکستان میں صحافیوں کے ان مسائل کے حوالے سے سب سے زیادہ کام پاکستان پریس فاؤنڈیشن نے کیا ہے، جس کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سال 2002 سے 2018 تک 72 صحافیوں کو قتل کیا جاچکا ہے۔

پاکستان میں میڈیا پر گہری نظر رکھنے والوں کے مطابق بے شمار اندرونی و بیرونی مسائل میں پھنسے پاکستان میں ابھی مکمل آزادانہ صحافت کرنا ممکن نہیں ہے۔پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں صحافتی مسائل بالکل الگ طرز کے ہیں جبکہ اسٹیٹ ویوز کے پلیٹ فارم سے اس رپورٹ میں آزاد کشمیر میں صحافتی مسائل کو سامنے لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

آزاد کشمیر، ریاست جموں و کشمیر کا وہ حصہ ہے جو اس وقت پاکستان کے زیرانتظام اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ایک متنازعہ علاقہ ہے جس کے مستقبل کا فیصلہ جموں و کشمیر کی تمام اکائیوں میں رائے شماری کے ذریعے ہونا باقی ہے۔ تین ایٹمی ممالک پاکستان، بھارت اور چین کے درمیان متنازعہ علاقہ ہونے کی وجہ سے اس منقسم ریجن میں میڈیا کا کردار اہم بھی ہے اور یہاں صحافت کرنا میڈیا ورکرز کےلیے مشکل ترین بھی ہے۔ آزادکشمیر کا یہ علاقہ 13،300 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہے۔ یہاں پاکستان کے زیرانتظام ایک الگ حکومت قائم ہے، جس کے آئینی سربراہ صدر، انتظامی سربراہ وزیراعظم ہوتے ہیں، جبکہ نظام عدل کےلیے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ قائم ہیں۔

مارچ 2018 سے مارچ 2019 تک کے نقصانات:

آزاد کشمیر کا دارالحکومت مظفرآباد ہے اور اس کی آبادی 2018 کی مردم شماری کے مطابق 45 لاکھ ہے۔ اس کے 10 اضلاع، 32 تحصیلیں ہیں، جبکہ اس کے چھ اضلاع بھمبیر، کوٹلی، پونچھ، حویلی، نیلم اور ہٹیاں بالا کے علاقے اس سیزفائر لائن کے ساتھ لگتے ہیں، جہاں ایک طرف پاکستان کے فوجی مورچے ہیں، جو عوام اور اس علاقے کی حفاظت کر رہے ہیں، تو دوسری طرف بھارتی فوج نے مورچے قائم کر رکھے ہیں۔ محکمہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق پاکستان اور بھارت کے زیرانتظام علاقوں کے درمیان سیزفائر لائن سے متصل آزاد کشمیر کے علاقوں میں آبادی 15 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔

سیکریٹری ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی شاہد محی الدین کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران (مارچ 2018 سے مارچ 2019 تک) بھارتی فورسز کی طرف سے آزاد کشمیر میں سول آبادی پر گولہ باری سے 24 افراد جاں بحق ہوئے، جن میں 11 خواتین اور 13 مرد شامل تھے۔ جبکہ زخمی ہونے والے افراد کی تعداد 166 تھی، جن میں 72 خواتین اور 94 مرد شامل تھے۔ اس ایک سال کے دوران 164 گھر تباہ ہوئے جبکہ 20 جانور بھی گولہ باری سے جاں بحق ہوئے۔

سینٹرل یونین آف جرنلسٹس آزاد کشمیر کے صدر ظفیر بابا نے اسٹیٹ ویوز کو بتایا کہ اس ریجن میں ان کے تنظیم کے ساتھ 700 سے زائد صحافی مختلف شہروں میں کام کرتے ہیں، لیکن لائن آف کنٹرول کے حالات کی رپورٹنگ 50 کے قریب صحافی ہی کرتے ہیں۔ آزادکشمیر کے جن چھ اضلاع میں سیزفائر لائن کے علاقے واقع ہیں، ان میں سے ایک نیلم ویلی ضلع بھی ہے، جہاں ڈیڑھ لاکھ کی آبادی ہے اور نیلم ویلی کا دو سو کلومیٹر طویل علاقہ سیزفائر لائن پر واقع ہے۔ اس ضلع میں 20 کے قریب میڈیا ورکرز ہیں، جو لائن آف کنٹرول کی رپورٹنگ کرتے ہوئے مشکل حالات کے باوجود اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریاں نبھا رہے ہیں۔ ظفیر بابا کے مطابق ایل او سی پر رپورٹنگ صحافی اپنی مدد آپ کے تحت ہی کرتے ہیں۔ ابھی انٹرنیٹ کی سہولت بھی میسر نہیں، صحافی اپنی رپورٹ کیسے بھیجیں؟ صحافیوں کو معلومات تک رسائی بھی نہیں دی جارہی۔ جبکہ اس حوالے سے ہم مسلسل آواز اٹھائے ہوئے ہیں۔

نیلم سے تعلق رکھنے والے اشفاق عباسی گزشتہ 12 سال سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں اور مختلف اخبارات کے ساتھ کام کرتے آئے ہیں۔ اشفاق عباسی نے اسٹیٹ ویوز کو بتایا کہ لائن آف کنٹرول پر گولہ باری کے دوران ہمیں پیشہ ورانہ ذمے داریاں نبھانی پڑتی ہیں، کیونکہ اگر ہم بھی عام لوگوں کی طرح گھروں اور مورچوں میں بیٹھے رہیں تو پھر وہاں کی صورتحال سے کوئی بھی آگاہ نہیں ہوسکتا اور نہ کسی کو ایمرجنسی میں امداد کی سہولت مل سکتی ہے۔ اس لیے ایسے حالات میں کوشش کرتے ہیں کہ ہم متاثرہ علاقوں میں نقصانات کی تفصیلات کی تصدیق کرلیں۔ جبکہ ویڈیو اور فوٹو منگوانے یا بنانے کا انتظام بھی ہمیں خود کرنا پڑتا ہے۔ جن مقامات سے ہمیں مکمل نقصانات کی اطلاع موصول ہوتی ہیں، ان کو سیکیورٹی کے اداروں اور ضلعی انتظامیہ سے بھی کنفرم ک نے کی کوشش کرتے ہیں۔ اشفاق عباسی کے مطابق ان معلومات کو ٹی وی چینل اور دیگر میڈیا ہاؤسز تک پہنچانا بھی کسی آزمائش سے کم نہیں ہوتا، کیونکہ انٹرنیٹ کی سہولت گزشتہ دو ماہ سے دستیاب نہیں ہے اور دوسری طرف کشیدہ حالات کے دوران ہمیں خود خطرہ رہتا ہے کہ بھارتی فوجی پوسٹوں کے سامنے کے علاقوں میں دن کی روشنی میں سفر نہ کریں، کیونکہ کسی بھی وقت بلا اشتعال شیلنگ کا سلسلہ شروع ہوسکتا ہے، جس سے ہمارے جان بھی جاسکتی ہے۔

پونچھ سیکٹر کے قریبی شہر راولاکوٹ سے تعلق رکھنے والے عمران ایوب بھی گزشتہ 24 سال سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں اور اخبارات کے ساتھ کام کرنے سمیت ٹی وی چینل کےلیے بھی رپورٹنگ کرتے ہیں۔ عمران ایوب کا کہنا ہے کہ ٹی وی چینلز یا اخبارات کی انتظامیہ کو یہ غرض نہیں ہوتی کہ ہمارا رپورٹر کن کن مسائل کا سامنا کرتے ہوئے ہمیں خبر دے رہا ہے۔ ایل او سی کی رپورٹنگ جان جوکھوں کا کام ہے، ہمارے پاس حفاظتی سامان نہیں ہوتا، نہ ہی سفری سہولت میسر ہوتی ہے۔ جبکہ زیادہ تر علاقہ ایسا ہے جہاں دشمن ملک کی فوجیں پہاڑوں کے اوپر چوکیوں پر موجود رہتی ہے اور وہ کسی بھی وقت کسی کو بھی نشانہ بناسکتے ہیں۔ دشمن ملک کا یہ ٹریک ریکارڈ رہا ہے کہ وہ کسی بھی وقت شہری آبادی پر بلااشتعال گولہ باری کرنا اپنا حق سمجھتا ہے۔ اس لیے اس کی گولی یا مارٹر یہ تفریق نہیں کرتا کہ اس کا نشانہ عام شہری ہے، میڈیا ورکر ہے، سیکیورٹی اہلکار ہے یا کوئی اور۔ عمران ایوب کا کہنا ہے کہ چاہے دن ہو یا رات ہمیں تو رپورٹنگ کرنی اور حقائق سامنے لانے ہوتے ہیں۔ ہمیں معلومات کی فراہمی یا سفری سہولت کےلیے نہ حکومت کوئی سہولت فراہم کرتی ہے اور نہ سیکیورٹی کے ادارے تعاون کرتے ہیں۔ بلکہ جہاں تک ممکن ہو یہ ادارے ہمارے لیے مشکلات ہی پیدا کرتے ہیں اور حقائق سامنے لانے سے روکنے کی کوششیں کرتے ہیں۔

اے ایف پی سے منسلک صحافی سجاد قیوم میر جو دارالحکومت مظفرآباد میں رہ کر لائن آف کنٹرول کی رپورٹنگ گزشتہ آٹھ سال سے کررہے ہیں، انہوں نے اسٹیٹ ویوز کو بتایا کہ سال 2017 کے دوران پونچھ ضلع کے درہ شیر خان سیکٹر میں گولہ باری کی فوٹیج لینے اور متاثرین سے بات چیت کرنے سرحدی علاقے میں گیا تو وہاں بھارتی فوج کی طرف سے بلااشتعال فائرنگ شروع ہو گئی۔ شام کے وقت میں شروع ہونے والی گولہ باری اس قدر شدید تھی کہ زمین لرز اٹھی۔ ہمارے قریب پاکستان کی کوئی فوجی چوکی بھی نہ تھی۔ شہری آبادی پر گولہ باری کی جا رہی تھی، کئی گھروں پر مارٹر گولے مارے گئے۔ ہم نے ایک سرکاری عمارت کے پیچھے پناہ لی ہوئی تھی۔ تقریبا دو گھنٹے کی مسلسل گولہ باری کے بعد جب توپ خانے خاموش ہوئے تو ہم نے اپنی گاڑی اسٹارٹ کی، لیکن رات کے وقت ہم نے گاڑی کی لائٹس جلانے سے اجتناب کیا اور دھیمی رفتار میں اس علاقے تک پہنچے جو براہ راست گولہ باری کی زد میں نہیں آتے تھے۔ سجاد کا کہنا تھا کہ اگر ہم اس وقت باہر نکلتے تو مخالف سمت سے آنے والی گولیوں کا نشانہ بن سکتے تھے۔

کوٹلی میں گزشتہ آٹھ سال سے ٹی وی چینلز کے ساتھ کام کرنے والے سینئر صحافی طارق لون سے جب یہ پوچھا گیا کہ سرحدی علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت کس اتھارٹی نے اور کیوں بند کررکھی ہے، تو ان کا کہنا تھا کہ ہمیں نہیں معلوم کہ سیکیورٹی اداروں اور سول انتظامیہ نے انٹرنیٹ کیوں بند کیا اور نہ ہی اس حوالے سے میڈیا اور عوام کو کسی پریس نوٹ کے ذریعے آگاہ کیا گیا، البتہ انٹرنیٹ مہیا کرنے والی کمپنی کے نمائندگان بتارہے تھے کہ سیکیورٹی وجوہات کی وجہ سے انٹرنیٹ بند کرایا گیا ہے۔ کوٹلی میں ایل او سی کے وہ علاقے جو ہم سے 4 یا چھ گھنٹے کی مسافت پر واقع ہیں، وہاں ہمارے میڈیا کے ساتھی کسی مسافر کے ذریعے معلومات ہم تک پہنچاتے ہیں، یا کسی اہم واقعے کی معلومات لینے ہمیں خود سفر کرنا پڑتا ہے۔ ٹیلی فون کی سہولت تو بعض اوقات میسر ہوبھی جاتی ہے لیکن ویڈیو یا تصویر جو ایک ثبوت کے طور پر میڈیا کا ہتھیار ہوتی ہے، اس کو بھیجنا ہمارے لیے انتہائی کٹھن ہوچکا ہے۔

ہٹیاں بالا سے تعلق رکھنے والے امتیاز اعوان 1988 سے مختلف اخبارات کے ساتھ کام کرتے رہے اور 2005 سے اب تک پاکستان کے پرائیویٹ چینل سے منسلک ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ موبائل اور انٹرنیٹ کی فراہمی کے بعد ہمارے لیے یہ آسانی ہوچکی تھی کہ مختلف علاقوں سے لوگ اور میڈیا کے لوکل نمائندے ہمیں ایل او سی کی صورتحال سمیت اہم واقعات کی فوری اطلاعات دے دیتے تھے۔ لیکن اب ان علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت میسر نہیں، اس لیے ہم تک خبر تو کسی نہ کسی ذریعے سے پہنچ ہی جاتی ہے لیکن فوٹیج نہیں ملتی۔ ویڈیو اور تصاویر کے حصول کےلیے ہم عینی شاہدین کی مدد حاصل کرتے ہیں اور ان کو یا تو مظفرآباد میں اپنے پاس بلا لیتے ہیں یا ہم خود ان علاقوں کی طرف چلے جاتے ہیں۔ دشوار گزار علاقوں کا سفر بھی آسان نہیں ہوتا اور وہاں سے بروقت رپورٹنگ بھی ممکن نہیں ہوتی۔ لیکن اس کے باوجود ہم اپنی ذمے داریاں احسن طریقے سے نبھاتے ہیں۔

سینٹرل پریس کلب مظفرآباد کے صدر طارق نقاش نے سرحدی علاقوں میں انٹرنیٹ کی بندش سے صحافیوں کو درپیش مشکلات کے حوالے سے اسٹیٹ ویوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اب اس گلوبل ویلیج میں انٹرنیٹ صرف تفریح کا ذریعہ نہیں رہا بلکہ یہ زندگی کی ضرورت بن چکا ہے۔ ہر شعبے میں اس سے سہولت حاصل کی جاتی ہے۔ یہ دنیا بھر سے آگاہی اور معلومات کا ذریعہ ہے۔ جو لوگ اس کی مدد سے اپنی تعلیم، بینک ٹرانزیکشن، ایڈمشن کےلیے اپلائی کرتے ہیں، ان کو بھی مشکلات ہیں اور ان علاقوں میں سرکاری مشینری کا کام بھی سخت متاثر ہوا ہے۔ ایسے میں ہماری صحافی برادری بھی دیگر لوگوں کی طرح بری طرح متاثر ہورہی ہے۔ میڈیا ورکرز کو اپنے علاقے کی خبریں بھیجنے میں مشکلات ہیں۔ جب سے انٹرنیٹ بند ہوا ہے تب سے ایل او سی سے معلومات نہیں آرہیں۔ صحافی اپنے ریجنل دفتر اور ہیڈ آفس کو خبر نہیں بھیج پارہے۔ صحافی سرگرمیوں کی انجام دہی میں شدید مشکلات ہیں۔ طارق نقاش نے کہا کہ اس حوالے سے میں نے دو مرتبہ وزیراعظم آزادکشمیر راجہ فاروق حیدر خان سے مطالبہ کیا کہ انٹرنیٹ کی بندش سے مسائل بڑھ رہے ہیں، لہٰذا اس کو بحال کرانے کےلیے سنجیدہ کوششیں کی جائیں۔ جس پر انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ وہ متعلقہ اتھارٹیز سے بات چیت کررہے ہیں، جلد یہ سہولت مہیا کردی جائے گی۔

وزیر اطلاعات آزادکشمیر راجہ مشتاق منہاس نے اسٹیٹ ویوز کو انٹرویو دیتے ہوئے صحافیوں کو درپیش مسائل کے حوالے سے کہا کہ آزادکشمیر چونکہ متنازعہ علاقہ ہے، اس لیے یہاں ایل او سی کی بہت زیادہ آزادانہ رپورٹنگ ممکن نہیں ہوتی۔ نقصانات کی معلومات فوج کا اطلاعاتی ادارہ آئی ایس پی آر جاری کرتا ہے اور اسی کے ذریعے جو معلومات میڈیا کو جاتی ہیں، وہی مستند بھی ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صحافیوں کو ہر ممکن سہولت دینے کےلیے محکمہ اطلاعات موجود ہے۔ ضرورت پڑنے پر صحافیوں کے گروپس کو لائن آف کنٹرول کے دورے بھی کرائے جاتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔