حکومت کی نااہلی 

ظہیر اختر بیدری  منگل 14 مئ 2019
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

دنیا میں انسانوں کو جتنے مسائل درپیش ہیں ان کا حقیقی سبب سرمایہ دارانہ نظام ہے لیکن ہمارا حکمران طبقہ اور اس کے لے پالک سرکاری دانشور ان مسائل کی ذمے داری ایرے غیرے عناصر پر ڈال کر مسائل کے اصل ذمے دار سرمایہ دارانہ نظام کی پردہ پوشی کرتے ہیں۔ عوام کے مسائل اس نظام سے شروع ہوتے ہیں اور اس نظام پر ختم ہوتے ہیں۔

ہمارا حکمران طبقہ اپنے مفادات کے تناظر میں عوامی مسائل کی ذمے داری شفٹ کرتا رہتا ہے۔ جمہوری ملکوں میں یہ روایت بن گئی ہے کہ اپوزیشن ہر مسئلے کی ذمے داری حکومت پر ڈال دیتی ہے اور خود کو دودھ کا دھلا ثابت کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہے۔ بلاشبہ پاکستان میں مہنگائی کو آگ لگ گئی ہے اور عوام مہنگائی سے سخت پریشان ہیں۔

عوام اس حقیقت سے لاعلم ہیں کہ آج پاکستان جس مہنگائی کی آگ میں جل رہا ہے وہ اگر ہماری سابقہ حکومتوں کی لگائی ہوئی ہے اور اس حوالے سے اپوزیشن کی جارحانہ اور منافقانہ سیاست کا عالم یہ ہے کہ مہنگائی کے نام پر قانون ساز اداروں میں ایک طوفان بدتمیزی کا سلسلہ جاری ہے۔ ہماری  دو پارٹیوں پر مشتمل اپوزیشن کا سارا زور  پروپیگنڈے پر ہے ۔ مہنگائی سمیت جتنے مسائل ملک کو درپیش ہیں وہ سب سرمایہ دارانہ نظام کے لائے ہوئے ہیں ۔

ہمارے سیاست کار مہنگائی سمیت تمام مسائل کی ذمے داری حکومت پر ڈال دیتی ہے حالانکہ موجودہ حکومت کو اقتدار میں آئے ہوئے مشکل سے 9-8 ماہ ہو رہے ہیں۔ ماضی کی حکومتوں نے بھاری سود پر عالمی مالیاتی اداروں سے جو کھربوں روپوں کا قرض لیا تھا اور جس کا سود ہی دو ہزار ارب ڈالر ادا کیا جا رہا ہے، مہنگائی ماضی کی انھی حکومتوں کی کرپشن کا نتیجہ ہے۔

بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری  حکومت مہنگائی سمیت ملک کو جن شدید مسائل کا سامنا ہے اس کے اصل ذمے داروں کی نشان دہی میں ناکام رہی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اصل ذمے دار نہ صرف عوام کی آنکھوں سے اوجھل ہیں بلکہ انتہائی جارحانہ انداز میں مہنگائی سمیت تمام مسائل کی ذمے داری نئی حکومت پر اس قدر طاقت سے ڈال رہے ہیں اور اس حوالے سے اس قدر منظم اور سائنٹیفک انداز میں پروپیگنڈے کا طوفان اٹھادیا گیا ہے، عوام تو عوام خواص بھی اس منصوبہ بند پروپیگنڈے سے متاثر ہو رہے ہیں اور حکومت کا حال یہ ہے کہ اس کا سارا زور نئے پاکستان اور 50 لاکھ مکانات کی تعمیر پر خرچ ہو رہا ہے۔ جس کی تعمیر کے لیے ایک عرصہ درکار ہے۔

عوام آج کی درپیش مہنگائی سے بدحواس ہو رہے ہیں، اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ حکومت اپوزیشن کے لگائے ہوئے الزامات کی تسلی بخش تردید میں ناکام رہی ہے اور ذمے داروں کے بھرپور پروپیگنڈے کا جواب دینے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت کا میڈیا سیل اپوزیشن کی خامیوں کو عوام کے سامنے لانے میں بری طرح ناکام رہا ہے، اپوزیشن ماضی کے گھاگ اور تجربہ کار درجنوں شخصیات کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عوام کو اس ماہرانہ انداز میں مس گائیڈ کر رہی ہے کہ عوام کا اپوزیشن کے ماہرانہ اور منصوبہ بند پروپیگنڈے سے متاثر ہونا ایک فطری امر ہے، اس نااہلیت کے ساتھ ساتھ حکومتی وزرا وغیرہ کی اس میں ہونے والی چپقلش نے عوام کو حکومت کی اہلیت سے مایوس کر دیا ہے۔

پاکستان میں 71 سال سے اشرافیہ کی حکومت ہے، اس کی کئی نسلیں حکمرانی کے مزے لوٹتی رہی ہیں اور لوٹ مار اس ماہرانہ انداز میں کرتی ہیں کہ مدعی سست اور ملزم چست والا معاملہ درپیش ہے، بے چاری سیدھی سادھی عوام حکمرانیوں کے اسرار سے ناواقف ’’چہ کنم‘‘ کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔ رمضان کا مہینہ پاکستانی مسلمانوں کا ایک مقدس کے ساتھ ساتھ جذباتی مہینہ ہے، عوام اس مہینے کو انجوائے کرنا چاہتے ہیں لیکن آسمان کو چھوتی ہوئی مہنگائی نے غریب عوام کی ساری خوشیاں چھین لی ہیں اور وہ سخت مضطرب ہیں۔

اشرافیائی اپوزیشن اور اس کے ایجنٹوں کو اس حقیقت کا اچھی طرح ادراک ہے کہ اگر مڈل کلاس کی یہ حکومت عوام کے مسائل حل کرکے عوام کا دل جیتنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اشرافیہ کا مستقبل تاریک ہوجائے گا اور اسے اس کروفر سے ہاتھ دھونا پڑے گا جو 71 سالوں سے ان کی پہچان بنا ہوا ہے۔ اشرافیہ اس پہچان کو میراث میں بدلنے کی بھرپور کوشش کرتی رہی شہزادوں، شہزادیوں، ولی عہدوں کا یہ مغلیہ کلچر انھی کوششوں کی ایک کڑی ہے اور ماضی کے اندھیروں میں بھٹکنے والے عوام اشرافیہ کی اس سازش کو سمجھنے سے اس لیے قاصر ہیں کہ حکومت وقت اپنی نااہلیوں سے اپوزیشن کے ہاتھ مضبوط کر رہی ہے۔

ہم نے آغاز میں اس حقیقت کی نشاندہی کردی تھی کہ جمہوریت کے نام پر اشرافیہ کی لوٹ مار کا جو سلسلہ چل رہا ہے اس کا ماخذ سرمایہ دارانہ نظام ہے اور پاکستان کے عوام کو اس حقیقت کا احساس ہونا چاہیے کہ اشرافیائی لوٹ مار کی حکومتوں اور مڈل کلاس کی حکومتوں میں کیا فرق ہوتا ہے۔ نئی حکومت اقتدار میں آئے نو دس ماہ ہو رہے ہیں لیکن اس پر نو دس روپوں کی کرپشن کا الزام نہیں جب کہ اشرافیہ پر اربوں روپوں کی لوٹ مار کے مقدمات زیر سماعت ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔