اگلا شکار شبر زیدی

جاوید چوہدری  منگل 14 مئ 2019

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

’’ہماری معیشت اب ہمارے ہاتھ میں نہیں رہی‘ یہ آئی ایم ایف کے پاس چلی گئی ہے‘ یہ اگر چاہیں گے تو ہم سانس لیں گے‘ یہ نہیں چاہیں گے تو ہم پھڑک کر مر جائیں گے‘‘ سگار کی بو میری سانس کی نالی میں اٹک رہی تھی‘ میرا دم گھٹ رہا تھا لیکن صاحب کی بات سننا بھی ضروری تھا چنانچہ میرے پاس تمباکو برداشت کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا‘ میں سانس روک کر بیٹھ گیا‘ وہ لمبے لمبے کش لے رہے تھے اور ان کے نتھنوں اور بانچھوں سے تمباکو کی لکیریں نکل رہی تھیں۔

وہ بولے ’’آپ کے سابق گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ کے دو جرم تھے‘ وہ ڈالر کو بھی کنٹرول رکھنا چاہتے تھے اور وہ شرح سود بھی اوپر نہیں جانے دے رہے تھے‘ ان کا خیال تھا ڈالر کی ویلیو میں اگر مزید اضافہ ہو گیا‘ یہ 160 روپے تک پہنچ گیا تو ہماری معیشت دم توڑ جائے گی‘ ملک بے روزگاری‘ کساد بازاری اور مہنگائی کا شکار ہو جائے گا چنانچہ یہ چاہتے تھے وزیراعظم دو بلین ڈالر کا فنڈ دے دیں اور اسٹیٹ بینک ان دو ارب ڈالرز کے ذریعے ڈالر کنٹرول رکھے تاکہ مارکیٹ میں استحکام پیدا ہو جائے‘ وزیراعظم اس آئیڈیا کے خلاف نہیں تھے لیکن یہ فارمولا آئی ایم ایف اور وزیراعظم کے چند ساتھیوں کو پسند نہیں تھا۔

یہ لوگ ڈالر کو 160 روپے پر دیکھنا چاہتے تھے چنانچہ گورنر اسٹیٹ بینک حکومتی عتاب کا نشانہ بن گئے‘ رضا باقر نے اب ان کی جگہ اسٹیٹ بینک کا چارج سنبھال لیا ہے‘ یہ بہت اچھے معیشت دان ہیں‘ یہ ورلڈ بینک‘ ایم آئی ٹی یونیورسٹی اور یونین بینک آف سوئٹزرلینڈ میں بھی کام کر چکے ہیں اوریہ یوکرائن‘ تھائی لینڈ‘ پرتگال‘ جمیکا‘ یونان‘ گھانا اور قبرص میں بھی آئی ایم ایف کے نمائندے رہ چکے ہیں‘ یہ آخر میں تین سال مصر میں رہے‘ مصر 2016ء میں اس جگہ پر پہنچ گیا تھا جہاں آج پاکستان ہے‘ مصر کے زرمبادلہ کے ذخائر 36 ارب ڈالر سے 16 ارب ڈالر پر آ گئے تھے۔

مصری حکومت پاکستان کی طرح آئی ایم ایف کے دروازے پر دستک دینے پر مجبور ہوگئی‘ آئی ایم ایف نے دبائو ڈالا اور مصر نے اپنی کرنسی کی ویلیو کم کر دی‘ آئی ایم ایف پیکیج سے قبل ایک ڈالر میں 7 مصری پائونڈ آتے تھے‘ پیکیج آیا تو ڈالر 17مصری پائونڈ کا ہو گیا‘ افراط زر بڑھنا شروع ہوئی اور یہ 21 فیصد ہو گئی‘ اس کے نتیجے میں 28 فیصد عوام خط غربت سے نیچے آ گئے‘ آئی ایم ایف نے رضا باقر کو مصری معیشت پر نظر رکھنے کی ذمے داری سونپ دی‘ یہ مصر میں رہے‘ اس دوران بجلی اور گیس کی قیمتوں میں 130فیصد اضافہ ہوا‘ ویلیو ایڈڈ ٹیکس 14 فیصد بڑھ گیا اور بے روزگاری  10 فیصد‘ رضا باقر کے دور میںمصر کا قرضہ جی ڈی پی کا 103 فیصد ہو گیا ۔

حکومتی اخراجات 82 ارب ڈالر ہو گئے جب کہ آمدنی صرف 58 ارب ڈالر رہ گئی گویا 24 ارب ڈالر کا شارٹ فال ہو گیا یوں مصری معیشت کا جنازہ نکل گیا‘ مصر کے وزیر خزانہ ڈاکٹر محمد مائط نے پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اسد عمر کو مشورہ دیا آپ لوگ کسی قیمت پر اپنی کرنسی کی ویلیو کم نہ کریں کیونکہ ہم نے ایکسپورٹس بڑھانے کے لیے یہ غلطی کی تھی لیکن ہماری برآمدات بڑھنے کی بجائے مزید کم ہو گئیں‘ ہمارے قرضوں اور مہنگائی میں بھی اضافہ ہوگیا‘ڈاکٹر محمدمائط نے اسد عمر کو یہ مشورہ بھی دیا تھا تم کوشش کرو تم آئی ایم ایف سے جتنا بچ سکتے ہو تم بچ جائو۔

یہ مشورہ اسد عمرکے دل کو لگا چنانچہ یہ بھی طارق باجوہ کی طرح پاکستانی روپے کی مزید ویلیو کم کرنے پر تیار ہوئے اور نہ آئی ایم ایف کے دبائو میں آئے لیکن پھر نتیجہ کیا نکلا‘ طارق باجوہ بھی گئے اور اسد عمر بھی اور ان کی جگہ آئی ایم ایف کے آفیسر باقر رضا وائسرائے بن کر پاکستان آ گئے اور عالمی اداروں کے دوست حفیظ شیخ مشیر خزانہ بن گئے یوں گیم آئی ایم ایف کے ہاتھ میں چلی گئی‘‘ ۔وہ خاموش ہوگئے‘ سگار کا دھواں تیز ہو گیا‘ صاحب افطاری کے بعد سگار پینا شروع کرتے ہیں اور سحری تک دھواں اڑاتے رہتے ہیں اور میں افطاری کے وقت ان کے قابو آ گیا تھا اور دھواں دھواں ہو کر رہ گیاتھا۔

میں نے ان سے پوچھا ’’سر اب کیا ہو گا‘‘ وہ ہنس کر بولے ’’ڈالر حکومت کے کنٹرول سے نکل کر آئی ایم ایف کے پاس چلا گیا ہے‘ یہ اب 160 روپے میں ملے گا یا پھر 200 روپے میں یہ فیصلہ حکومت پاکستان نہیں کرے گی یہ آئی ایم ایف کرے گا‘ آئی ایم ایف ہمیںچھ ارب ڈالر کا پیکیج دے رہا ہے‘ ہمیں اس کے جواب میں ایران پاکستان گیس پائپ لائن کا منصوبہ مکمل طور پر بند کرنا ہوگا‘ سی پیک اور چین کی سرمایہ کاری کا والیم ڈائون کرنا ہوگا‘ ہمیں پی آئی اے‘ اسٹیل مل اور ریلوے کو فروخت کرنا ہوگا‘ ہمیں بجلی‘ گیس اور پٹرول کے نرخ کو اوپن کرنا ہوگا‘ عوام ان کی کاسٹ سے 20 فیصد زیادہ ادا کریں گے‘ یہ بیس فیصد ٹیکس ہو گا اور یہ ٹیکس آئی ایم ایف کے قرضوں کی ادائیگی میں استعمال ہو گا۔

حکومت تمام سبسڈی بھی ختم کر دے گی‘ کسانوں کو بھی بجلی‘ گیس اور پٹرول مہنگا ملے گا‘ کھاد کی سبسڈی بھی ختم ہو جائے گی‘ حکومت ادویات اور پولٹری کی سبسڈی بھی واپس لے لے گی اور غریبوں کی مراعات بھی تھوڑی تھوڑی کر کے ختم کر دی جائیں گی اور یوں مہنگائی‘ بے روزگاری اور افراتفری میں اضافہ ہو جائے گا‘‘۔

وہ خاموش ہو گئے‘ میں نے عرض کیا ’’لیکن سر نئے چیئرمین ایف بی آر شبرزیدی اچھے انسان ہیں‘ یہ ایماندار اور سمجھ دار بھی ہیں‘ یہ ملک کے ٹیکس سسٹم کو بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں اور ان کا پہلا فیصلہ بھی چھکا تھا‘ شبرزیدی نے آرڈر جاری کر دیا ایف بی آر کسی ٹیکس پیئر کو نوٹس دیئے بغیر اس کے اکائونٹس سے پیسے نہیں نکال سکے گا‘ لوگ اس آرڈر پر بہت خوش ہیں‘ ایف بی آر ٹیکس پیئرز اور کمپنیوں کو بتائے بغیر ان کے اکائونٹس سے رقم نکال لیتا تھا جس کی وجہ سے لوگوں نے اپنے اکائونٹس خالی کر دیئے تھے اور بینکوں میں کیش کم پڑ گئی تھی‘‘ صاحب نے قہقہہ لگایا۔

سگار کا ایک اور لمبا کش لیا اور بولے ’’لیکن شبر زیدی زیادہ دنوں تک ٹک نہیں سکیں گے‘ یہ بھی جلد جہانزیب خان کی طرح ہٹا دیئے جائیں گے‘‘ وہ خاموش ہو گئے‘ یہ میرے لیے خبر تھی چنانچہ میں ہمہ تن گوش ہو گیا‘ وہ بولے’’شبرزیدی کے خلاف سازشیں شروع ہو چکی ہیں‘ حفیظ شیخ ایف بی آر میں اپنی مرضی کا افسر لانا چاہتے تھے لیکن عین وقت پر ان کا تجویز کردہ شخص کرپٹ نکل آیا‘ وزیراعظم نے تعیناتی سے انکار کر دیا‘ شبر زیدی کا نام وزیر قانون فروغ نسیم نے پیش کیا‘ وزیراعظم ان پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ یہ تقرری کر دی گئی۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں حکیم علی ارشد چیئرمین بنائے گئے تھے‘ ان کی تقرری اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج ہو گئی تھی جس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے جون 2013ء میںحکم جاری کر دیا تھا حکومت اگر پرائیویٹ سیکٹر سے کسی سرکاری محکمے کا سربراہ تعینات کرنا چاہے گی تو یہ پہلے یہ پوزیشن مشتہر کرے گی‘ انٹرویوز ہوں گے‘ تین لوگوں کے نام شارٹ لسٹ ہوں گے اور حکومت ان میں سے کسی ایک کو مقرر کرے گی‘ شبر زیدی اس کرائی ٹیریا پر پورے نہیں اترتے تھے‘ یہ ایشو کابینہ میں زیر بحث آیاتو وزیر قانون نے وزیراعظم کو مشورہ دے دیا آپ شبر زیدی کو اعزازی چیئرمین بنا دیں‘ وزیراعظم کو آئیڈیا اچھا لگا۔

انھوں نے وزارت قانون سے تحریری مشورہ مانگ لیا ‘ فروغ نسیم نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو لکھ کر بھجوا دیا وزیراعظم شبرزیدی کو اعزازی چیئرمین تعینات کر سکتے ہیں یوں یہ ایشو حل ہو گیا لیکن مخالفین یہ فیصلہ قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں‘ یہ اب کابینہ کے مختلف وزراء اوروزیراعظم کے ساتھیوں کو ٹیکس کے 20 بڑے کیسز کی فائلیں بھجوا رہے ہیں‘ یہ اربوں روپے کے بیس بڑے کیس ہیں اور ان تمام کیسز میں بیرسٹر فروغ نسیم کمپنیوں کے وکیل ہیں اور شبرزیدی چارٹرڈ اکائونٹنٹ‘ یہ لوگ وزیراعظم کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں شبر زیدی اور فروغ نسیم دونوں پارٹنر ہیں۔

فروغ نسیم وزیر قانون بھی ہیں اور یہ ریاست کے خلاف مقدموں میں پرائیویٹ کمپنیوں اورلوگوں کے وکیل بھی ہیں‘ یہ سو سے دو سو ارب روپے کے مقدمے ہیں اور یہ دونوں اب بڑی آسانی سے اپنے موکلوں کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں‘ یہ لوگ شبر زیدی کے پہلے فیصلے کو بھی غلط رنگ دینے کی کوشش کر رہے ہیں لہٰذا شبرزیدی نے جس دن ایمنسٹی اسکیم اور کلیمز کے فیصلے کرنا شروع کر دیئے‘ یہ جس دن مارکیٹ کو استحکام دینے کے لیے بڑے مقدمات پر کارروائی رکوادیں گے اس دن سازشیوں کی سازشیں کامیاب ہو جائیں گی‘ یہ بھی اس دن فارغ کر دیئے جائیں گے‘‘ وہ خاموش ہوگئے۔

میں نے ان سے پوچھا ’’کیا شبرزیدی غلط چوائس ہیں‘‘ وہ ہنس کر بولے ’’یہ بہت اچھی چوائس ہیں‘ ایف بی آر کو اکانومسٹ نہیں چارٹرڈ اکائونٹنٹ ہی چلا سکتے ہیں‘ اسحاق ڈار بھی چارٹرڈ اکائونٹنٹ تھے‘ یہ وزیر خزانہ تھے لیکن یہ ایف بی آر بھی چلاتے رہے‘ ان کے دور میں ٹیکس کولیکشن بھی ڈبل ہو گئی‘ ڈالر بھی 103 پر ٹکا رہا‘ گروتھ ریٹ میں بھی اضافہ ہوا‘ مہنگائی بھی کم ہوئی‘ زرمبادلہ کے ذخائر بھی بڑھ گئے اورجنوری 2017ء میں تاریخ میں پہلی مرتبہ اسٹاک ایکس چینج کا 100 انڈیکس 50 ہزار پوائنٹس کی حد سے بھی تجاوز کر گیا‘ شبر زیدی بھی چارٹرڈ اکائونٹنٹ ہیں‘ یہ بڑی آسانی سے معیشت کو سنبھال سکتے ہیں‘ یہ ٹیکس کولیکشن بھی بڑھا دیں گے اور مارکیٹ کو بھی مستحکم کر دیں گے لیکن یہ بات منظوری دینے والوں کو منظور نہیں۔

یہ پاکستان کی معیشت کو مستحکم نہیں دیکھنا چاہتے چنانچہ شبرزیدی بھی بہت جلد سازش کا شکار ہو جائیں گے‘ یہ بھی آپ کو جہانزیب خان اور اسد عمر کی طرح سائیڈ پر بیٹھے نظر آئیں گے ‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا ’’لیکن کیوں؟‘‘ صاحب ہنس کر بولے ’’وزیراعظم نیک نیت ہیں بس ان میں دو خامیاں ہیں‘ یہ بے شمار لوگوں سے مشورے کرتے ہیں اور ہر مشورے کو صحیح سمجھ لیتے ہیں اور دوسرا‘ یہ دیوار کے پیچھے نہیں جھانک پاتے‘ یہ لوگوں کو ان کی فیس ویلیو پر پرکھتے ہیں‘ یہ ان کے عزائم نہیں دیکھتے اور یہ خامیاں پورے ملک کو لے کر بیٹھ گئی ہیں‘پورا ملک ہار رہا ہے لیکن جمہوریت کا انتقام جیت رہا ہے‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔