صنفی امتیاز: سفر کٹھن، منزل دُور ہے!

سدرہ ایاز  منگل 14 مئ 2019
چند روشن چہرے ترقی اور تبدیلی کے تأثر کو تقویت نہیں دے سکتے۔ فوٹو: فائل

چند روشن چہرے ترقی اور تبدیلی کے تأثر کو تقویت نہیں دے سکتے۔ فوٹو: فائل

ہمارے سماج میں اب عورت پہلے کے مقابلے میں زیادہ آزاد اور خود مختار ہے۔ اسے خانگی معاملات اور پیشہ ورانہ زندگی میں نہ صرف اہمیت دی جاتی ہے بلکہ کسی حد تک وہ فیصلہ ساز بھی ہے۔

معاشرہ اسے تسلیم کرتا ہے، اس کی قابلیت اور صلاحیتوں کا اعتراف کیا جانے لگا ہے۔ ملکی ترقی اور خوش حالی کے لیے معاشی میدان میں خواتین کی شراکت ضروری سمجھی جارہی ہے۔ یہ ایک تأثر ہے! بظاہر ہمارے معاشرے کی عورت کو بنیادی حقوق دینے کے ساتھ سیاسی، سماجی، معاشی میدان میں آگے بڑھنے کی زیادہ آزادی اور مواقع میسر ہیں، لیکن کیا حقیقی معنوں میں عورت کو اس کا جائز مقام اور حق دینے کی سمت ہم اپنا سفر شروع کرچکے ہیں؟

یہ ایک سوال ہے جس کا درست جواب تو مستند اور غیرجانب دار جائزہ رپورٹیں ہی دے سکتی ہیں، مگر اس تأثر کی مکمل نفی بھی نہیں کی جاسکتی۔ کیوں کہ چند برسوں کے دوران تعلیم یافتہ اور نیم خواندہ خواتین بھی مختلف شعبہ ہائے حیات میں آگے آئی ہیں۔ خصوصاً غیر روایتی یا غیر رسمی اور فنی مہارت کے شعبوں میں عملی طور پر خواتین کی شرکت سے اس تأثر کو تقویت ملی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ منزل ابھی بہت دور ہے! جب تک آبادی کے اس نصف کو، چار دیواری اور گھر سے باہر تحفظ، تعلیم و صحت، سفر کی سہولیات، فوری اور بلامعاوضہ قانونی مدد، مساوی تنخواہ اور کام کا معقول معاوضہ نہیں دیا جائے گا اور دیہاتی عورت کو نظر انداز کیا جاتا رہے گا، یہ تأثر۔۔۔ یقین میں نہیں بدل سکتا! اس کے ساتھ ساتھ اس بیمار ذہنیت اور رجعت پسند سوچ کو بدلنا ہو گا جو پاکستانی عورت کو بااختیار اور طاقت وَر بنانے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔

یقیناً انٹرنیٹ کی دنیا اور ذرایع ابلاغ نے ہماری فکر اور عورت سے متعلق تصورات پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ تعلیم یافتہ اور شہری علاقوں کی عورت جہاں اپنے حقوق سے زیادہ آگاہ ہے، وہیں ظلم اور ناانصافی کے خلاف اس میں مزاحمت کا جذبہ بھی بیدار ہوا ہے۔ وہ شاید زیادہ پُراعتماد اور باہمّت بھی ہے، لیکن افسوس کہ دیہات کی عورت روز ہی جبر اور استحصال کا کوئی نہ کوئی روپ دیکھنے اور اسے جھیلنے پر مجبور ہے۔ وہ بدترین حالات میں سسک سسک کر زندگی بسر کر رہی ہے اور کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ چند دہائیوں قبل تک تعلیم اور روزگار کا حصول عورتوں کے لیے فقط ایک خواب تھا، مگر آج صورتِ حال کسی حد تک مختلف ہے۔ اب عورت جہاں روایتی شعبوں میں سرگرمِ عمل ہے، وہیں ہیوی وہیکل کی ڈرائیونگ سیٹ سنبھالے اور گاڑیوں کے انجن ٹھیک کرتی دیکھی جاسکتی ہے۔

اسے امورِ خانہ داری نمٹانے کے ساتھ اپنے ہاتھوں میں بھاری اور آہنی اوزار اٹھا کر بھی کام کرتا دیکھا جارہا ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے بعد اسی عورت نے روزگار کے حصول کے لیے صرف سرکاری اور نجی اداروں کی ملازمت کا انتظار نہیں کیا بلکہ اپنا کاروبار شروع کیا اور کئی لوگوں کے روزگار کا ذریعہ بنی، لیکن کیا اسے عزت اور احترام کے ساتھ سماج میں تحفظ بھی حاصل ہوا ہے، اسے بہتر اور سازگار ماحول میسر ہے۔ کیا غیرت کے نام پر تشدد، قتل، تیزاب سے چہرہ جھلس جانے، شادی کے بعد بات بات پر مار پیٹ، جہیز نہ لانے یا کوئی مالی مطالبہ پورا نہ کرنے پر آگ لگائے جانے کے خوف سے یہ عورت کسی قدر آزاد ہو چکی ہے۔ گھروں میں ماسی اور آیا کی حیثیت سے کام کرنے والی کتنی آسودہ اور مطمئن ہے۔ کھیتوں میں مشقت کے بعد کسی عورت کو اجرت ملنے کا یقین ہوتا ہے۔

عورتوں کو سڑکوں پر آوارہ ذہنیت، پبلک ٹرانسپورٹ، دفاتر اور کام کی جگہوں پر جنسی ہراسانی سے نجات مل چکی ہے۔ کیا پاکستانی عورت کو اہلیت اور قابلیت کی بنیاد پر نوکری اور عہدوں پر ترقی دی جارہی ہے۔  حکومتی دعووں، قوانین کے شور کے بعد اب اسے بہتر تنخواہ یا معقول اجرت دی جارہی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو جان لیں کہ ابھی منزل دور اور راستہ کٹھن ہے۔ جب تک حکومت جامع اور واضح پالیسی کے ساتھ عورت کی حالت بہتر بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کرتی ترقی اور خوش حالی کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔ چند روشن چہروں اور کام یابی کی مثالوں کو انفرادی حیثیت ہی میں دیکھا جائے تو بہتر ہو گا جب کہ حکومت اور متعلقہ اداروں پر اس ضمن میں فوری، ٹھوس اور دیرپا اقدامات کے لیے دباؤ بڑھانے کی ضرورت ہے۔

یقیناً آج کئی خواتین ان عورتوں کے لیے مثال ہیں جوکچھ کرنا چاہتی ہیں، معاشی طور پر مستحکم ہونا چاہتی ہیں، لیکن نصف آبادی میں یہ محض چند نام ہی تو ہیں۔ ابھی اس راستے میں کئی مشکلات اور مسائل موجود ہیں۔ سب سے بڑھ کر عورت کا احساسِ عدم تحفظ دور کرنا ہو گا۔ ملازمت پیشہ خواتین کی بات کی جائے تو یہ بہت سارے مسائل کا سامنا کر رہی ہیں۔ یہ عورتیں ڈاکٹر، انجینئر، استانی یا کسی دفتر میں کلرک ہوں، ان کے مسائل اور عذاب مختلف نہیں۔ عالمی اداروں کے خواتین کی ترقی اور خوش حالی سے متعلق اہداف اور اس سمت میں حکومتی اقدامات اور کارکردگی کی جائزہ رپورٹوں پر نظر ڈالیں تو ہم بہت پیچھے ہیں۔ کام کی جگہوں پر عورت کا ایک بڑا مسئلہ محفوظ اور سازگار ماحول ہے۔ خواتین بَروقت دست یاب ٹرانسپورٹ اور محفوظ سفر سے محروم ہیں۔ یہ بات ہمیشہ کی جاتی ہے کہ عورت کو عزت، احترام دینے اور تحفظ کا احساس دلانے کی ضرورت ہے، لیکن کیا ہمارے سماج میں اس حوالے سے کوئی نمایاں تبدیلی آئی ہے؟

حکومتوں کے دعوے بلند بانگ اور ارادے ہمیشہ نیک رہے ہیں، مگر کیا عورتوں کو سفر کی محفوظ اور فوری سہولت میسر آئی جو کہ ایک بنیادی بات ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے جس کے باعث عورتوں کو سڑکوں پر انتظار کی زحمت اٹھانا پڑتی ہے، گھر یا کام کی جگہوں پر پہنچنے میں تاخیر کے باعث مسائل جنم لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سی قابل اور باصلاحیت خواتین ایسی ہیں جو پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم دست یابی کی وجہ سے گھروں میں رہنے پر مجبور ہیں جس سے ان کی تعلیم اورہنر ضایع ہو رہا ہے اور جو خواتین پبلک ٹرانسپورٹ سے سفر کرتی ہیں وہ ماحول کی وجہ سے ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی عوارض کا شکار ہو رہی ہیں۔ انھیں دورانِ سفر ہراساں کیا جانا اور ان کے ساتھ بدسلوکی عام ہے۔ جب تک عورت کو گھر اور کام کی جگہ تحفظ کا احساس نہیں ہو گا اور اسے سازگار ماحول نہیں ملے گا، اس وقت تک ایک خاندان سے لے کر ملکی ترقی کے عمل تک ان سے فعال کردار کی توقع بھی عبث ہے۔

بدقسمتی سے خواتین کے تحفظ اور شکایات کے ازالے کے لیے جو ادارے موجود ہیں، وہ قوانین پر عمل درآمد کروانے میں ناکام رہے ہیں۔ عورتیں کسی بھی موقع پر اپنے دفاع اور تحفظ میں خود کو ناکام اور بے بس تصور کرتی ہیں۔ ایک اور مسئلہ شکایت کے اندراج کا ہے۔ پولیس اسٹیشن ایک ایسی جگہ ہے جہاں مرد بھی داخل ہوتے ہوئے خوف کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں کوئی عورت کسی مسئلے اور شکایت کی صورت میں قانون کی مدد لینے کے لیے رابطہ کرنے، تھانے جانے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ ظلم کی انتہا دیکھیے کہ گھروں میں تشدد اور سڑکوں پر تنگ کیے جانے کو جرم ہی تصور نہیں کیا جاتا اور اکثر پولیس یا انتظامیہ رپورٹ کرنے کی صورت میں اس پر ایکشن لینے سے گریز کرتی ہے۔ اس پر توجہ دینا ہو گی۔ پاکستان میں خانگی امور پر اختلاف اور جھگڑے کے بعد عورت پر تشدد کے علاوہ غیرت کے نام پر مار پیٹ بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔

اس حوالے سے حکومت نے اقدامات تو کیے ہیں، لیکن معاشرے کو بھی اپنی سوچ بدلنا ہو گی۔ اس حوالے سے مسلسل اور بڑے پیمانے پر کوششیں کی جائیں تبھی بہتری لائی جاسکتی ہے۔ عورتوں کی معاشی اور سماجی حالت میں واضح بہتری اور ترقی اور خوش حالی کے سفر میں ان کی بامعنی شمولیت یقینی بنانے کے لیے امتیازی سلوک اور تشدد کا خاتمہ کرتے ہوئے محفوظ اور سازگار ماحول کی فراہمی یقینی بنانا ہو گی۔ اس حوالے فقط قانون سازی اور چند ادارے یا ہیلپ سینٹر قائم کرنا کافی نہیں بلکہ ہر حالت میں، ہر صورت میں قانون پر عمل درآمد یقینی بنانا ہوگا، تبھی عورت سے متعلق مذکورہ تأثر یا کسی تصور کو یقین کا پیراہن نصیب ہو گا اور ملکی ترقی و خوش حالی کا خواب پایۂ تکمیل کو پہنچے گا۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔