نہیں جناب وزیراعظم نہیں

اسلم خان  اتوار 25 اگست 2013
budha.goraya@yahoo.com

[email protected]

امن کی خواہش سے بھلا کس کو انکار ہو سکتا ہے۔ کون احمق ہو گا جو جنگ کی خواہش میں بے تاب ہو لیکن حالیہ انتخابات میں اپنی کامیابی کو بھارت سے امن کا مینڈیٹ قرار دینا، حقائق کے مطابق نہیں ہے۔ کون ظالم ہو گا جو بھارت سے دشمنی چاہتا ہو گا لیکن بھارتی اشرافیہ بھی ہم سے دوستی چاہتی ہے؟ 60 سال سے حل طلب مسائل حل کرنا چاہتی ہے؟ بنیادی سوالات یہ بھی ہیں کہ یہ مسائل کس کے پیدا کردہ ہیں، ہمارے یا بھارتی نیتائوں کے۔ امن کی خواہش بجا لیکن با وقار طریقے سے برابری کی سطح پر مذاکرات کے ذریعے کہ مکالمے سے ہی پیچیدہ مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ اب اس غلط فہمی کا ازالہ کرنا  ناگزیر ہو گیا کہ جناب نواز شریف کو  عوام نے ووٹ بھارت سے دوستی کے لیے دیے تھے۔ اپنی کامیابی کو امن کے لیے مینڈیٹ قرار دینے سے کسے انکار ہوسکتا ہے لیکن جناب وزیراعظم آپ پر پاکستان کے عوام اس لیے نچھاور ہوئے کہ آپ نے انھیں لوڈشیڈنگ سے نجات دلانے کا وعدہ کیا، کاروبار کے مواقع پیدا کرنے کا یقین دلایا تھا۔

معیشت کا جام پہیہ چلانے کی یقین دہانی کرائی تھی اور سب سے بڑھ کر دہشت گردی کا شکار پاکستان میں امن کے قیام کے لیے عسکریت پسندوں سے مذاکرات کر کے امن قائم کرنا تھا۔ بھارت سے قیام امن کی خواہش، سراب سے زیادہ کچھ نہیں کہ بھارت تو ہم سے کسی قسم کے سنجیدہ مذاکرات کے لیے تیار نہیں‘ بھارتی شہ دماغ اپنی شرائط پر بات کرنا چاہتے ہیں۔ رہا کشمیر کا متنازعہ مسئلہ تو خوش فہمیوں کا شکار اپنے بھائیوں سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ بھارت مقبوضہ کشمیر کے  بجائے ہمارے آزاد کشمیر کی واپسی کے لیے مذاکرات کی میز پر آئے گا۔ اب تو بھارت نے سری نگر کو اپنے عظیم الشان ریلوے نیٹ ورک سے منسلک کر دیا ہے۔ وہی ریلوے جس کا پاکستان کو ملنے والا حصہ بہتر بنانے کے بجائے ہم ریل کی پٹریاں بیچ کر کھا گئے۔ سابق وزیر ریلوے حاجی غلام احمد بلور بڑے طمطراق سے دوبارہ منتخب ہو کر پارلیمان میں جلوہ افروز ہونے والے ہیں۔ اگر بھارتی منصوبہ سازوں کے ذہن میں مسئلہ کشمیر حل کرنے کا کوئی امکان ہوتا تو انھیں اربوں ڈالر خرچ کر کے سری نگر کو ریلوے نیٹ ورک سے منسلک کرنے کی کیا ضرورت تھی۔

جناب وزیراعظم۔ یکطرفہ عشق خراب کرتا ہے، تو پھر بھارت سے یک طرفہ عشق اور وارفتگی کا جواز کیسے پیش کیا جا سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا بھارت بھی پاکستان سے کسی قسم کے با معنی مذاکرات کی خواہش رکھتا ہے اگر ایسا ہوتا تو پھر لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کی خلاف ورزیاں‘ نہتی آبادیوں پر گولہ باری‘ شہدا کے جنازے یہ سب کیوں کر ہوتا۔ (کہتے ہیں کہ آزادی کے بعد ابتدائی سالوں میں کسی نیک نیت رہنما نے پنڈت جواہر لال نہرو کو مشورہ دیا تھا کہ پاکستان کے ساتھ متنازعہ تمام امور کو حل کر لیا جائے اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق رائے شماری کرا دی جائے۔ اس پر جواہر لال نہرو نے کہا تھا، پاکستان کے ساتھ متنازعہ امور حل کرنے میں جلد بازی کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں صرف انتظار کرنا ہو گا کہ وقت ہمارے ساتھ ہے، ہر گزرتے لمحے بھارت مضبوط سے مضبوط ہوتا جائے گا اور ادارہ جاتی تشکیل نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان بتدریج کمزور سے کمزور ہوتا جائے گا اور پھر ہم اپنی شرائط پر تمام حل طلب مسائل پر مذاکرات کریں گے۔ اس کالم نگار سے زیادہ کس کو بھارت سے دوستی کی خواہش ہو گی کہ جس کا خمیر باغات اور محلات کے لیے مشہور و معروف پٹیالہ سے اٹھایا گیا تھا جس کے والد گرامی رانا محمد اشرف خاں اپنی جنم بھومی کے دیدار کے لیے ہر دم بیتاب اور بے چین رہتے ہیں کہ بڑھاپے میں پٹیالہ مقناطیس بن کر انھیں اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔

جناب والا!

بھارت میں جمہوریت کا کھیل اور اس کی رنگ برنگی بساط کو سمجھنا بھی بہت ضروری ہے، وہاں اقتدار کے ڈھانچے میں پنجاب اور ہریانہ کے دو فیصد ووٹ کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ پاکستان کے ساتھ  تعلقات صرف ان پنجابیوں کا مسئلہ ہے، دریائے جمنا کے اس پار کی دنیا بالکل مختلف ہے جہاں اب ہندو قوم پرستی زور پکڑ رہی ہے، آگے بڑھ رہی ہے جس کا اس سے بڑا کیا ثبوت ہو گا کہ بی جے پی کے نریندر مودی آیندہ انتخابات میں وزارت عظمیٰ کی دوڑ میں صف اول پر ہیں۔ کہاں انسان دوست اٹل بہاری واجپائی، کہاں مسلمانوں سے اپنی نفرت کا برملا اظہار کرنے والے نریندر مودی۔ یہ وہی مودی ہیں جنہوں نے گجرات کے مسلمانوں کی حفاظت کرنے کے بجائے وزیراعلیٰ ہوتے ہوئے انھیں خاک و خون میں نہلا دیا تھا۔ صرف بھارتی پنجاب اور ہریانہ میں بے بس اور لاچار پنجابیوں کے دل آج بھی پاکستان کے لیے دھڑکتے ہیں اور اس میں ہندو یا سکھ کی کوئی تخصیص نہیں،  سکھوں کے لیے پاکستانی پنجاب مکہ مدینہ کی طرح مقدس ہے، سکھ مذہب کے بانی بابا جی گورو نانک دیو کی جائے ولادت ننکانہ صاحب اور آخری آرام گاہ دربار صاحب کرتار پور ضلع نارووال میں واقع ہے۔

بھارتی اشرافیہ اور مقتدر طبقے پاکستان سے بھارتی پنجابیوں کے اس فطری لگائو کو بھی برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ بھارتی دفتر خارجہ‘ سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت ہمارے بزرگوں کو بھارتی پنجاب کے شہروں کا ویزا دینے کے لیے تیار نہیں ہے، خود میرے تایا جی رانا عبدالباری خاں بجھتی آنکھوں سے صرف ایک بار اور صرف ایک بار تلونڈی ملک ریاست پٹیالہ دیکھنے کی ناتمام حسرت لیے ہوئے ہیں اور یہ کالم نگار اپنے تمام تر مبینہ اثر و رسوخ کے باوجود آج تک ان کے لیے پٹیالہ کا ویزا حاصل نہ کر سکا جب کہ مشرقی پنجاب میں بین الاقوامی سرحد کو حقیقت تسلیم کر کے ہمارے لیے دعائیں مانگی جا رہی ہیں۔

واہگے دی اے سرحدے‘ تینوں تتی وا نہ لگے

تیرے دویں پاسے وسدے پت پنجاب دے

گزشتہ دنوں پاکستان اور بھارت نے دو طرفہ مذاکرات کے بعد 65 سال سے زائد بزرگوں اور بچوں کو سرحد پار فوری ویزا دینے کا معاہدہ کر کے اس پر عملدرآمد کا اعلان کر دیا جو بظاہر بڑا خوش آیند اقدام تھا لیکن ہوا کیا؟ مشرقی پنجاب کو اس معاہدے کے دائرہ کار میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ اپنی جنم بھومیوں کی دیکھنے کی آس میں 6 دہائیوں سے تڑپتے ہوئے بزرگوں سے مہان بھارت کو کیا خطرہ ہوسکتا تھا ،کچھ بھی نہیں۔ لیکن قومی معاملات جذبات سے نہیں ٹھوس حقائق کی روشنی میں طے کیے جاتے ہیں۔ بھارتی تو دوسری طرف منہ کیے بیٹھے ہیں، بگڑے بچے کی طرح ہم سے بات کرنے کو تیار نہیں اور ہم ہیں کہ یک طرفہ امن کی تلاش میں مرے جا رہے ہیں۔ کیا ہمیں کنٹرول لائن پر ہونے والی گولہ باری بھی نہیں سنائی دے رہی۔ گزشتہ دنوں ایک بزرگ دانشور اس بات پر اظہار تاسف کر رہے تھے کہ بھارت سے خوشگوار تعلقات کے حوالے جناب نواز شریف اپنی جماعت میں بھی تنہائی کا شکار ہیں۔بھارتی قیادت نہرو کی فلاسفی پر دل و جان سے عمل پیرا ہے۔ دیکھو اور انتظار کرو کی حکمت عملی کو اپنائے ہوئے۔ ویسے بھی اب تو عام انتخابات سر پر کھڑے ہیں، اب کون ہمارے دست دوستی کو تھامے گا۔

جناب وزیراعظم‘ پہلے پاکستان میں امن لائیے، لوڈ شیڈنگ سے نجات دلائیے۔ بھارت کہیں بھاگا نہیں جا رہا۔ لائن آف کنٹرول پر گرجتی توپوں کی گھن گرج میں یک طرفہ امن کے شادیانے بجانا بے وقت کی راگنی ہے۔

احتیاط‘ پس احتیاط لازم ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔