گندم خریداری اور رمضان بازار، حکومتی اقدامات پر عوام کا عدم اطمینان

رضوان آصف  بدھ 15 مئ 2019
عمران خان کی خواہش ہو گی کہ علیم خان کسی نہ کسی حیثیت میں پنجاب حکومت کے معاملات میں حصہ ڈالیں۔  فوٹو: فائل

عمران خان کی خواہش ہو گی کہ علیم خان کسی نہ کسی حیثیت میں پنجاب حکومت کے معاملات میں حصہ ڈالیں۔ فوٹو: فائل

 لاہور:  پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت شدید دباو کا شکار ہے، وزیر اعلی سردار عثمان بزدار کی 9 ماہ کی کارکردگی پر عمران خان غیر مطمئن ہیں لیکن ابھی وہ ’’آن دی ریکارڈ‘‘ اس کا اظہار نہیں کر رہے لیکن بجٹ کے بعد صورتحال یکسر تبدیل ہو سکتی ہے۔

عمران خان کے ’’راز داروں‘‘ کا کہنا ہے کہ کپتان نے پنجاب میں اپنے ’’وسیم اکرم پلس‘‘ کو تبدیل کرنے کا ارادہ کر لیا ہے اور اب انتظار صرف مناسب وقت کا کیا جا رہا ہے۔

تحریک انصاف کی قیادت نے وزیر اعلی پنجاب کی وجہ سے خود پر شدید تنقید برداشت کی ہے لیکن سب کچھ سہنے کے باوجود عمران خان نے عثمان بزدار کو کارکردگی بہتر بنانے کا بھرپور موقع دیا،کپتان کے قریبی حلقوں کے ذریعے عثمان بزدار کو یہ بھی سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ وہ چند خوشامدی وزراء اور ترجمانوں کے نرغے سے باہر نکل کر معاملات کو ہینڈل کریں۔خوشامدیوں کا ٹولہ اسقدر حاوی ہے کہ جن مقامات یا جن اجلاسوں سے ان کا کوئی تعلق بھی نہیں ہوتا یہ لوگ وہاں بھی وزیر اعلی کے دائیں بائیں دکھائی دیتے ہیں۔

پنجاب کابینہ کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو نہایت مایوس کن صورتحال دکھائی دیتی ہے۔ وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد ،جن سے عمران خان کو غیر معمولی توقعات وابستہ تھیں وہ اپنی وزارت میں کامیاب نہیں ہو پائیں، پنجاب کے ہسپتالوں میں مسائل جوں کے توں ہیں، ینگ ڈاکٹرز کا احتجاج اور مریضوں کی مشکلات میں بھی کمی نہیں آئی ہے، پنجاب کے وزیر خزانہ ہاشم جواں بخت کا ابتدائی دنوں میں گراف بہت اچھا تھا اور لوگوں کو ان سے توقعات بھی تھیں لیکن وہ بھی اسد عمر کی طرح ’’درشنی پہلوان‘‘ ثابت ہوئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پنجاب کے مالی معاملات چلانے کیلئے سابق وزیر اعظم شوکت عزیز کے مشیر اور سابق نگران وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ کو وزیر اعلی پنجاب کے مشیر کے عہدے پر تعینات کیا جا رہا ہے، اطلاعات کے مطابق سلمان شاہ کی تقرری کیلئے موجودہ مشیر اکرم چوہدری کو ہٹانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے، اکرم چوہدری کو یہ آپشن دی گئی ہے کہ وہ چاہیں تو انہیں چیئرمین پنجاب فوڈ اتھارٹی مقرر کیا جا سکتا ہے۔

پنجاب کے وزیر خوراک سمیع اللہ چوہدری کی رضامندی کے بغیر نسیم صادق کو سیکرٹری فوڈ تعینات کیا گیا جنہوں نے تحریک انصاف حکومت کیلئے انتہائی حساس اہمیت رکھنے والی گندم خریداری مہم کا جو حشر نشر کیا اس کی وجہ سے وزیر اعلی پنجاب کی ہدایت پر چیف سیکرٹری نے تمام کمشنرز کو گندم خریداری کے حوالے سے براہ راست ہدایات جاری کی ہیں، رمضان بازاروں کا معاملہ بھی حکومت کے دعووں کے برعکس ہے، وزیر صنعت میاں اسلم اقبال کی بنائی گئی پالیسی سے عوام کو فائدہ کم اور خواری زیادہ ہو رہی ہے، سیاسی فائدے اور پوائنٹ سکورنگ کی خاطر بعض اشیاء پر غیر معمولی سبسڈی مقرر کی گئی لیکن ان کی راشن بندی کردی گئی ہے، طویل قطار میں لگنے کے بعد جب خریدار کو ایک پاو لیموں اور ایک، ایک کلو پیاز اور ٹماٹر ملتا ہے تو وہ حکومت کو کوسنے لگ جاتا ہے۔

وزیر ہاوسنگ پنجاب میاں محمود الرشید ان چند گنے چنے وزراء میں شامل ہیں جو اپنی وزارت میں فعال اور مفید دکھائی دے رہے ہیں۔ وزیر قانون راجہ بشارت جن کے پاس بلدیات کا قلمدان بھی ہے وہ دو کشتیوں کے سوار بن کر کسی ایک محکمہ پر بھی پوری توجہ نہیں دے پا رہے ہیں، نوجوان وزیر ایکسائز حافظ ممتاز احمد اپنے محکمہ پر توجہ دیتے ہیں اور محکمانہ امور میں دلچسپی بھی لیتے ہیں لیکن ابھی انہیں بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ پنجاب کابینہ کے باقی کے دو درجن کے لگ بھگ وزراء تو صرف جھنڈے والی گاڑی اور سرکاری مراعات سے لطف اندوز ہونے کو ہی ’’حکومت‘‘ سمجھتے ہیں۔

تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اور سابق سینئر صوبائی وزیر عبدالعلیم خان کی اسیری کے ایام ختم ہونے والے ہیں اور قوی امید ہے کہ آج ان کی ضمانت منظور کر لی جائے گی بصورت آئندہ پیشی پر وہ آزاد ہوجائیں گے۔ علیم خان نے بہت استقامت اور صبر کے ساتھ گزشتہ تین ماہ کی قید برداشت کی ہے۔ نیب ابھی تک علیم خان کے خلاف عدالت میں کوئی ٹھوس شواہد پیش نہیں کر سکا ہے اور عدالت نے بھی متعدد مرتبہ اپنے ریمارکس میں نیب کو اس حوالے سے ڈانٹ ڈپٹ کی ہے۔

علیم خان کا شمار کپتان کی ٹیم میں شامل پہلے پانچ بڑے کھلاڑیوں میں ہوتا ہے،2011 ء سے لیکر آج تک علیم خان نے پنجاب بالخصوص لاہور میں تحریک انصاف کی وسعت اور مضبوطی کیلئے بہت کام کیا ہے،علیم خان کو ہمیشہ ’’اپنوں‘‘ نے ڈسا ہے،لاہورمیں تنظیمی معاملات میں بھی علیم خان کو ایسے مخالفوں کا سامنا رہا جو انگلی کٹا کر شہیدوں میں شامل ہونا چاہتے تھے اور جب عام انتخابات جیتنے کے بعد پنجاب کی وزارت اعلی علیم خان کو ملنے والی تھی تب بھی ’’اپنوں‘‘ کی بے وفائی اور احساس عدم تحفظ نے علیم خان کو نقصان پہنچایا ورنہ عمران خان تو علیم خان کے نام کا اعلان کرنے والے تھے۔کسی ’’اپنے‘‘ نے ہی نیب کو متحرک کروایا اور کپتان کو بھی بدظن کیا تھا۔

حکومت بننے کے بعد علیم خان نے سینئر صوبائی وزیر اور وزیر بلدیات کی حیثیت سے بہت محنت کی، نیا بلدیاتی قانون بنانے میں کریڈٹ علیم خان کو ہی جاتا ہے لیکن یہاں بھی کچھ شرارتی عناصر نے وزیر اعلی سردار عثمان بزدار کے کانوں میں زہر انڈیلنا شروع کردیا تھا اور عثمان بزدار خود کو علیم خان کی موجودگی میں غیر محفوظ سمجھنے لگے تھے۔ عمران خان نے علیم خان کی حراست کے دوران اپنے اس کھلاڑی کو تنہا نہیں چھوڑا ہے ۔

اہم ترین حکومتی اکابرین نے علیم خان کے ساتھ ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھ کر یہ پیغام دیا کہ علیم خان آج بھی ان کی پارٹی کا اہم کھلاڑی ہے۔ عبدالعلیم خان یہ واضح فیصلہ کر چکے ہیں کہ نیب مقدمات کا حتمی فیصلہ ہونے تک وہ پنجاب کابینہ کا باضابطہ حصہ نہیں بنیں گے اسی لئے کہا جا رہا ہے کہ عبدالعلیم خان ضمانت پر رہائی کے بعد وفاقی سطح پر عمران خان کی حکومتی ٹیم میں کسی طور شامل ہو جائیں گے، ماضی میں بھی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ صوبائی اسمبلی کا رکن ہوتے ہوئے کسی ایم پی اے کو وفاقی حکومت میں مشیر، معاون یا کوئی اور عہدہ دیکر اہم ذمہ داری سونپ دی گئی۔

بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت کی موجودہ ابتر صورتحال کو دیکھتے ہوئے عمران خان کی خواہش ہو گی کہ علیم خان کسی نہ کسی حیثیت میں پنجاب حکومت کے معاملات میں حصہ ڈالیں۔ تحریک انصاف کی تنظیم نو کا آغاز ہو چکا ہے اور چیف آرگنائزر سیف اللہ نیازی اور سیکرٹری جنرل ارشد داد اس حوالے سے بہت متحرک ہو چکے ہیں، تنظیم سازی کے معاملے میں پہلے ہی غیر معمولی تاخیر ہو چکی ہے لہذا اب اس عمل کو جلد از جلد مکمل کر کے آئندہ بلدیاتی الیکشن کی تیاریوں کی جانب بڑھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تنظیم سازی کا عمل بھی بھرپور رسہ کشی کا شکار ہے اور لابنگ عروج پر دکھائی دیتی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ سفارشی عہدیدار لانے کی بجائے ایسے افراد کو آگے لایا جائے جو حقیقی معنوں میں پارٹی کیلئے مفید ثابت ہو سکتے ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔