حکومت کا آئی ایم ایف سے معاہدہ، معیشت پر کیا اثرات ہونگے؟

ارشاد انصاری  بدھ 15 مئ 2019
کیا عوام کا سکون غارت کرکے حکومت زیادہ دیر سکون میں رہ سکے گی۔ فوٹو: فائل

کیا عوام کا سکون غارت کرکے حکومت زیادہ دیر سکون میں رہ سکے گی۔ فوٹو: فائل

 اسلام آباد: اس سے بہتری آنے کی بجائے بگاڑ بڑھے گا، کمپنیوں کے منافع میں کمی آئے گی اور معیشت پر اسکے منفی اثرات پڑیں گے۔

اسٹاک ایکسچینج چونکی ملکی معیشت کا اقتصادی چہرہ اور ونڈو ہوتی ہے اس لئے پروگرام کے اگلے روز مارکیٹ کا یہ ردعمل یقینی طور پر حکومت کیلئے بہت بڑا دھچکا ہے کیونکہ ابھی پروگرام کیلئے سٹاف سطح کا معاہدہ ہوا ہے اورآئی ایم ایف بورڈ کی منظوری باقی ہے جس کیلئے حکومت کو بجلی مہنگی کرنے سمیت کئی پیشگی اقدامات کرنا ہیں جس سے یقینی طور پر عوام کی بے سکونی اور مشکلات بڑھیں گی البتہ حکومتی وزیر مملکت برائے ریونیو کا کہنا ہے کہ اس معاہدہ سے حکومت کو سکون ملا ہے۔

حماد اظہر کا سکون اپنی جگہ مگر سوال یہ ہے کہ کیا عوام کا سکون غارت کرکے حکومت زیادہ دیر سکون میں رہ سکے گی کیونکہ سٹاف سطح کے معاہدہ کی ابھی تک کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں وہ عوام کیلئے ایک بڑی تباہی اور مہنگائی کے سونامی کا پیغام دے رہی ہیں۔

اس پروگرام کیلئے میمورنڈم آف اکنامک اینڈ فنانشل پالیسی (ایم ای ایف پی) اور لیٹر آف انٹنٹ (ایل او آئی)کی تفصیلات ابھی سامنے آنا باقی ہیں جو کہ پروگرام کی آئی ایم ایف بورڈ سے منظوری کے ساتھ ہی آئی ایم ایف کی جانب سے پبلک ہو جائیں گی جس میں آئی ایم ایف سے طے پانے والی شرائط کی تفصیلات قوم کو معلوم ہو جائیں گی مگر ابھی آئی ایم ایف کی طرف سے جو اعلامیہ آیا ہے اس نے پہلے ہی عوام کیلئے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے اور آئی ایم نے اپنے اعلامیہ میں واضح کیا ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف بورڈ سے قرضے کی منظوری لینے کیلئے پیشگی اقدامات کرنا ہوں گے، یہی نہیں بلکہ حکومت نے بجلی اورگیس مزید مہنگی کرنے کیلئے آئی ایم ایف کی شرط مان لی ہے، پاکستان آئندہ بجٹ کے خسارے میں 0.6 فیصد کمی لائے گا جبکہ پاکستان کو 6 ارب ڈالر 39 ماہ میں قسطوں میں جاری کیے جائیں گے اور ہر قسط سے پہلے پاکستان کو آئی ایم ایف سے طے شُدہ شرائط پوری کرنا ہونگی ۔

یہی وہ باتیں ہیں جو آئی ایم ایف کے اعلامیہ میں سامنے آئی ہیں لیکن آئی ایم ایف سے مذاکرات کرنے والی ٹیم میں شامل واقفان حال تباہ کن مہنگائی کا عندیہ دے رہے ہیں، یہی نہیں آئی ایم ایف مذاکراتی ٹیم میں شامل کئی ممبران میں بھی پریشانی پائی جاتی ہے مگر ساتھ ہی بے بسی بھی ہے کیونکہ اس حوالے سے حکومت بند گلی میں جا چکی تھی اور متبادل کے طور پر کوئی پلان بی نہیں تھا جو دوست ممالک سے عارضی انتظامات کئے گئے تھے وہ بھی کام نہ آسکے، اگرچہ سعودی عرب، چین اور یو اے ای سے ہمیں امداد ملی مگر موخر ادائیگیوں پر تیل کی فراہمی شروع نہیں ہو سکی جبکہ پاکستان کے ادائیگیوں کے توازن کی سب سے بڑی وجہ آئل امپورٹ بل ہے اس وجہ سے ان حالات میں حکومت کے پاس آئی ایم ایف کی شرائط ماننے کے سواء کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا اور اگر مزید تاخیر کی جاتی تو دیوالیہ ہونے کا خطرہ تھا اور انہی حالات نے کپتان کو ٹیم بدلنے پر مجبورکیا۔

نئی ٹیم نے کپتان کو آئی ایم ایف سے پروگرام دلانے کیلئے پہلا مرحلہ تو کامیابی سے مکمل کر لیا ہے لیکن کپتان کے نئے فنانس مینجرز کی اصل کامیابی اس پروگرام کو کامیابی سے مکمل کرنے سے مشروط ہے۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ کپتان کے نئے فنانس مینجرز اور نجی شعبہ سے لئے گئے نئے چیئرمین ایف بی شبر زیدی کوئی معجزہ دکھا پائیں گے کیونکہ سارا پروگرام ایف بی آر کی کارکردگی پر منحصر ہے۔ ایف بی آر کو نہ صرف رواں مالی سال کا ساڑھے تین سو ارب روپے کا شارٹ فال پورا کرنا ہوگا بلکہ اگلے سال بھی ہائی گروتھ حاصل کرنا ہوگی۔

اب اگر حکومت کالا دھن سفید کرنے کی اجازت دینے کیلئے ایمنسٹی سکیم لاتی ہے تو یہ کپتان، اسکی اقتصادی ٹیم اور خصوصاً نئے چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کا پہلا امتحان ہوگا کہ اگر ایمنسٹی آتی ہے تو کیا اس سے 300 ارب روپے ریونیو اکٹھا کرنے کا ہدف حاصل کر پائیں گے یا نہیں۔ دوسری طرف اس پروگرام کی سیاسی سطح پر بھی حکومت کو بھاری قیمت چکانا پڑی ہے اور آگے چل کر مزید قیمت ادا کرنا ہوگی اور اگر حالات قابو سے باہر ہوئے تو کپتان کے گھر جانے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔

اگرچہ عوامی مسلم لیگ کے رہنما اورکپتان کے قریبی ساتھی شیخ رشید احمد عید کے بعد کابینہ میں تبدیلیوں کی پیشنگوئی کر رہے ہیں مگر بعض حلقوں کی جانب سے ٹیم کے کپتان کی تبدیلی کی باتیں کی جا رہی ہیں اور یہاںتک کہا جا رہا ہے کہ کپتان نے کچھ عرصہ قبل اپنا استعفٰی پیش کیا تھا مگر قبول نہیں کیا گیا اور مقتدر قوتوں کی جانب سے عمران خان کو کام جاری رکھنے کا کہا گیا ہے مگر سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ اگلے تین چار ماہ میں نئی گیم ہونے جا رہی ہے اور حالات ان ہاوس تبدیلی کی طرف جا رہے ہیں اور نئے کپتان کیلئے شاہ محمود قریشی اور شاہد خاقان عباسی کا نام گردش میں ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں کچھ عرصہ سے جمہوری حکومتیں قائم بعد میں ہوتی ہیں سازشی تھیوریاں پہلے شروع ہوجاتی ہیں یہی کچھ پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں ہوا اور ایسا ہی کچھ پاکستان مسلم لیگ(ن)کے پچھلے دور حکومت میں دیکھنے کو ملا ۔ حالات ایسے ہی رہے کہ حکومت اب گئی اور اب گئی لیکن ان دونوں حکومتوں نے اپنی مدت تو پوری کی مگر ماڈل ایک جیسا رہا۔

ان ہاوس تبدیلیاں پچھلی دونوں حکومتوں کے دوران ہوئیں اور اب پاکستان تحریک انصاف اقتدار میں ہے تو ابھی ماڈل وہی معلوم ہو رہا ہے وہی سازشی تھیوریاں وہی حکومت گھر جانے کی تاریخیں اور اب کہا جا رہا ہے کہ پہلے ٹیم بدلی ہے تو اب کپتان بدلنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں لیکن عمران خان کے حوالے سے بعض سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ کپتان ماضی کے حکمرانوں سے مختلف ثابت ہونگے اور کپتان کسی کے کہنے پر گھر نہیں جائے گا اور اگر ایسی صورتحال بنی تو پورا نظام ہی جائے گا ۔ اب یہ تو آنے والے حالات بتائیں گے کہ کیا ہونے جا رہا ہے۔

دوسری طرف جنوبی پنجاب کے صوبے کے معاملہ پر پیر کو قومی اسمبلی میں پیشرفت ہوئی ہے اور جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کیلیے آئینی ترمیمی بل کی تحریک قومی اسمبلی میں منظور کر لی گئی تاہم مسلم لیگ (ن) نے جنوبی پنجاب صوبہ کی تحریک کی مخالفت کردی ہے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت شروع ہوا جس میں تحریک انصاف کے رکن اسمبلی مخدوم سید سمیع الحسن گیلانی نے جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کی تحریک پیش کی جسے کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔ جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کے حوالے سے اپوزیشن تقسیم دکھائی دی، پیپلزپارٹی جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کی حامی ہے لیکن مسلم لیگ (ن) نے جنوبی پنجاب صوبہ کی تحریک کی مخالفت کر دی اور مسلم لیگ (ن) کے ارکان نے نشستوں پر کھڑے ہوکر احتجاج کیا، اس دوران ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) بہاولپور اورجنوبی پنجاب دو صوبے چاہتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔