دوا ناپید، تھیلیسیمیا میں مبتلا بچوں کا علاج رک گیا

طفیل احمد  پير 26 اگست 2013

کراچی: خون کے کینسر کی دوائوں کا ذخیرہ ختم ہونے سے تھیلسیمیا کے مرض میں مبتلا بچوں کا علاج بھی رک گیا تھیلیسیمیا میں مبتلا بچوںکی زندگیاں بھی خطرے میں پڑگئی ہیں۔

خون کے کینسر میں استعمال کی جانے والی بعض دوائیں تھیلیسمیا کے بچوں کے بون میرو ٹرانسپلانٹ میں بھی استعمال ہوتی ہیں دوائیں نہ ہونے سے کراچی سمیت ملک بھر میں تھیسلیمیا کے بچوں کا علاج رک گیا ہے، ماہرین امراض خون کے مطابق کراچی میں 12 ہزار اورملک بھر میں ایک لاکھ بچے تھیلیسیمیا میں مبتلا ہیں ان میں سے 90 فیصد بچوں کو بون میرو ٹرانسپلانٹ کرکے زندگی بچائی جا سکتی ہے۔

خون کے کینسر کے ماہر ڈاکٹر طاہر شمسی اور بچوں میں تھیلیسمیا کے علاج کے ماہر ڈاکٹر ثاقب انصاری نے بتایا ہے کہ پاکستان میں تھیلسیمیا کے سالانہ 3 ہزارمریضوں اور بچوں کو بون میروٹرانسپلانٹ کی ضروت ہوتی ہے لیکن صرف 100 مریضوں کے بون میروٹرانسپلانٹ ہوتے ہیں تاہم دوائوں کی عدم دستیابی سے مریضوں اور معالجین کو مشکلات کا سامنا ہے۔

تھیلیسیمیا کے مرض کا شکار بچوں میں خون بنانے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے جس کا مستقل علاج بون میرو ٹرانسپلانٹ ہوتا ہے بون میرو ٹرانسپلانٹ کے دوران انجکشن سائیٹوسار میسینا لگایا جاتا ہے جو بازار میں ناپید ہوچکا ہے،ملک میں خون کے کینسر کے علاج کی دوائیں ناپید ہوجانے سے بون میرو ٹرانسپلانٹ کا عمل رک گیا ہے جس سے مریضوں اور خصوصاً تھیلیسمیا کے بچوں اور ان کے والدین پریشان ہیں، واضح رہے کہ ملک میں لمفوما (غدود کے کینسر) کے مریضوں کی تعداد 10 ہزار سے زائد ہوگئی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔