ایمنسٹی اسکیم کی منظوری

ایڈیٹوریل  جمعرات 16 مئ 2019
بلاشبہ اسکیم کی کامیابی اس پر سنجیدگی سے عملدرآمد کرانے میں ہے۔ فوٹو: فائل

بلاشبہ اسکیم کی کامیابی اس پر سنجیدگی سے عملدرآمد کرانے میں ہے۔ فوٹو: فائل

وفاقی کابینہ نے کالا دھن سفید کرنے کی اجازت دینے کے لیے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کی منظوری دیدی جسے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے نافذ کیا جائے گا۔اسکیم کا اطلاق آمدنی پر نہیں صرف اخراجات اور اثاثہ جات پر ہوگا۔اس اسکیم میں ہر پاکستانی حصہ لے سکے گا ،اگربیرون ملک کے اثاثے ڈکلیئر کیے جائیں گے تو شرط یہ ہے کہ وہ کسی بینک اکاؤنٹ میں رکھے جائیں۔

ملک سے باہر لے جائی گئی رقم کے نقدی کی صورت میں چار فیصد ٹیکس دے کر اسے وائٹ کیا جا سکتا ہے لیکن وہ رقم پاکستان کے بینک اکاؤنٹ میں رکھنا ہوگی تاہم اگر کوئی شخص رقم وائٹ کروا کر پاکستان سے باہر ہی رکھنا چاہتا ہے تواس کے لیے ٹیکس کی شرح چار کے بجائے چھ فیصد ہوگی ۔

بلاشبہ معاشی صورتحال کی چیلنجنگ نوعیت کے پیش نظر ایمنسٹی اسکیم کا اعلان صائب اقدام ہے ، تاہم  اندیشہ تھا کہ اسکیم مخالفانہ شور میں کہیں موخر نہ کی جائے، کیونکہ اس سے قبل بھی ایمنسٹی اسکیموں کے اجرا پر حکومت اور اپوزیشن میں تند و تیز بحث جاری تھی جب کہ مجموعی طور پر معاشی اور مالیاتی ماہرین کا اس بات پر اتفاق تھا کہ ڈاکومینٹڈ معیشت کو یقینی بنانے کے لیے ایمنسٹی اسکیموں کا عوام کو کوئی فائدہ نہیںپہنچا، لوٹی گئی دولت پاکستان نہیں لائی جاسکی، نواز شریف اور پرویز مشرف دور میں بھی ایمنسٹی اسکیمز جاری کی گئی تھیں جن کے نتائج محدود رہے۔

بنیادی طور پر ایمنسٹی اسکیم کا مقصد ملکی معیشت کو صد فیصد دستاویزی بنانا تھا ، تاکہ زیر زمیں معیشت کے تباہ کن اثرات سے نجات ملے۔ حکومت کو اپنی اس اسکیم کے اجراء پر زبردست مزاحمت اور مخالفت کا اندیشہ بھی تھا ، حکومت کثیر جہتی دباؤ میں ہے ،ادھر وزیر خزانہ اسد عمر کی تبدیلی سے بھی اسکیم کے اعلان میں تاخیر ہوئی، ایک وجہ عمران خان کے دھرنے کے دوران پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی معاشی غلط کاریوں پرمسلسل تنقید بھی تھی، عمران خان نے دونوں حکومتوں کے بہت سار ے اقتصادی اقدامات پر نکتہ چینی اور مذمتی تقاریر کے ذریعے حملے جاری رکھے جس میں ایمنسٹی اسکیمیں بھی شامل تھیں۔اس لیے جب پی ٹی آئی کی اپنی حکومت نے ایمنسٹی اسکیم لانے کا عندیہ دیا تو اپوزیشن نے اسے آڑے ہاتھوں لیا۔

اپوزیشن نے اگلے روز حکومت کی ایمنسٹی اسکیم پرسخت تنقید کرتے ہوئے اسے مسترد کردیا اور ساتھ ہی وزیراعظم عمران خان سے سوال کیا کہ وہ بتائیں اب کون سے چور ڈاکوؤں کے لیے اسکیم لائی جارہی ہے۔اپوزیشن کا پوائنٹ آف اسکورنگ اس نکتہ پر ہے کہ ہماری اسکیم حرام پی ٹی آئی کی اسکیم حلال ہوگئی۔

صحافیوں کو بریفنگ میں بتایا گیا کہ جائیداد کی قیمت ایف بی آر کی متعین ویلیو سے 150 فیصد سے کم نہیں ہوگی۔اس اسکیم سے بے نامی اثاثہ جات و اکاؤنٹس،بیلنس شیٹس، غیر ظاہر کردہ سیل سمیت دیگر غیر ظاہر کردہ اثاثہ جات ڈکلیئر کیے جا سکتے ہیں اس اسکیم سے فائدہ نہ اٹھانے والے بے نامی جائیدادیں رکھنے والوں کے خلاف بے نامی قانون کے تحت کارروائی ہوگی جس میں جائیداد ضبط کرنے کے ساتھ ساتھ قید کی سخت سزائیں ہیں۔

وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد مشیرخزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ نے اعزازی چیئرمین ایف بی آرشبر زیدی، وزیر مملکت ریونیو حماد اظہراور معاون خصوصی اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس اسکیم کا بنیادی مقصد پیسہ اکٹھا کرنا نہیں بلکہ اثاثوں کو معیشت میں ڈال کر انھیں فعال بنانا ہے ۔

کوشش کی ہے کہ یہ اسکیم بہت آسان ہو ، تاکہ لوگوں کو دقت نہ ہو کیونکہ اس کے پیچھے فلسفہ لوگوں کو ڈرانا دھمکانا نہیں بلکہ قانونی معیشت میں حصہ ڈالنے کے لیے حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ انھوں نے اپوزیشن کی تنقید سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ پاکستان میں کچھ چیزیں شروع سے ہی خراب چلی آرہی ہیں ،انھیں ٹھیک نہیں کیا گیا۔ان بنیادی نقائص میں شروع سے ہی برآمدات کا نہ بڑھنا،بیرونی سرمایہ کاری کا نہ آنا اور ریونیو موبلائزیشن کا نہ ہونا شامل ہیں۔اگر یہ نقائص دور نہیں کیے جائیں گے تو کچھ عرصہ بہتری رہتی ہے اور اس کے بعد پھر سے یہ مسائل ابھر کے سامنے آجاتے ہیں اور حالات ایسے بن جاتے ہیں۔

حفیظ شیخ نے واضح کیا کہ اثاثے ڈیکلریشن اسکیم 30 جون تک کے لیے ہے اور اس کی مدت میں اضافہ نہیں کیا جائے گا۔وزیرمملکت برائے ریونیو حماد اظہر نے کہا کہ پچھلے سال جو اسکیم آئی تھی اس میں ٹیکس فائلر بننے کی کوئی شرط نہیں تھی، لیکن اس اسکیم سے فائدہ اٹھانے والوں کو ہر صورت ٹیکس فائلر بننا ہوگا۔ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم 31دسمبر 2019تک جاری رہے گی ۔

اب ضرورت ماضی کے تلخ اور ادھورے اقتصادی اقدامات اور ناکام پالیسیوں کے بجائے آؤٹ آف باکس فیصلوں کی ہے۔ ملکی معیشت ہر قیمت پر دستاویزی شکل اختیار کرے کیونکہ یہی ایک موقع ہے کہ کالا دھن سفید کر کے پاکستانی معیشت کی رگوں میں تازہ خون بن کر گردش کرسکے گا۔ بلاشبہ اسکیم کی کامیابی اس پر سنجیدگی سے عملدرآمد کرانے میں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔