6 ارب ڈالر کا اسلحہ فروخت ہوگا

ظہیر اختر بیدری  جمعرات 16 مئ 2019
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

ایک خبر کے مطابق امریکا نے بحرین اور امارات کو 6 ارب ڈالر کا اسلحہ فروخت کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ متحدہ عرب امارات اس کے علاوہ امریکا سے پیٹریاٹ میزائل سسٹم کے 2 ارب ڈالرکے اضافی آلات بھی خریدے گا۔ یاد رہے کہ گزشتہ ماہ امریکا نے سعودی عرب کو 2 ارب 40 کروڑ مالیت کے تھاڈ میزائل خریدنے کی منظوری بھی دی تھی۔ دنیا کے مختلف متحارب ممالک خاص طور پر اسرائیل سے خوفزدہ عرب ممالک امریکا اور دوسرے مغربی ملکوں سے اربوں نہیں کھربوں ڈالر کا اسلحہ خرید رہے ہیں۔

یہ خریداری برسوں سے جاری ہے۔ ذرا اس عیارانہ حکمت عملی پر نظر ڈالیں کہ امریکا عرب ملکوں کو نہ اسلحہ زبردستی فروخت کر رہا ہے نہ عرب ممالک مغرب سے اسلحہ زبردستی یا بلا ضرورت خرید رہے ہیں بلکہ صورت حال یہ ہے کہ عرب ملک خوشامد کرکے اربوں ڈالر کا اسلحہ امریکا اور اس کے اتحادی ملکوں سے خریدتے ہیں اور ذہنی تسکین کا سامان کرلیتے ہیں ۔ امریکا اور اتحادی ملک اپنا اربوں ڈالر کا اسلحہ اس طرح عربوں کو بیچتے ہیں جس طرح ان پر کوئی بڑا احسان کر رہے ہیں ۔ عرب ملکوں کی مغربی ملکوں سے اسلحے کی خریداری کھربوں ڈالر تک پہنچ گئی ہے لیکن یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر عرب ملک اپنی قومی دولت کو اسلحے کی خریداری پر پانی کی طرح کیوں بہا رہے ہیں؟

یہ سوال اس لیے ضروری ہے کہ اگر اربوں ڈالر کو اسلحے کی خریداری سے بچایا جائے تو عرب عوام کا معیار زندگی بلند ہو سکتا ہے دوسرا یہ کہ عرب ممالک اسلحے کی خریداری پر جو کھربوں ڈالر خرچ یا ضایع کر رہے ہیں وہ پسماندہ مسلم ممالک کی ترقی پر لگائے جاسکتے ہیں لیکن ایسا کیوں نہیں ہو رہا ہے؟

مغربی تھنک ٹینکس کے ماہرین رات دن اسی منصوبہ بندی میں لگے رہتے ہیں کہ پسماندہ ملکوں سے ان کی دولت کس طرح چھینی جائے؟ اس مسئلے کا حل انھوں نے یہ نکالا کہ عرب ملکوں کو ہمیشہ خوف میں مبتلا رکھا جائے اور خوف میں مبتلا رکھنے کا بہترین ذریعہ اسرائیل کو بنادیا۔ یہ اسرائیل ہی ہے جو ہمیشہ عرب حکمرانوں کے اعصاب پر سوار رہتا ہے خوف کی ایک احتیاطی شکل یہ ہے کہ عرب ملکوں میں نام نہاد سرمایہ دارجمہوریت بھی نہیں ہے بلکہ ہر جگہ شخصی اور خاندانی حکومتیں قائم ہیں جنھیں ہر وقت یہ خطرہ رہتا ہے کہ عوام ان کی حکومتوں کا تختہ نہ الٹ دیں۔

اس خوف کا ازالہ بھی امریکا نے یوں کر دیا ہے کہ ان جدید سلاطین کی حکومتوں کو عوام کے سیلاب سے محفوظ رکھنے کی ذمے داری بھی اٹھالی ہے۔ اور اس کا طریقہ یہ اپنایا گیا ہے کہ ملک بھر میں جاسوسوں کی فوج اس طرح پھیلادی ہے کہ ہر بندہ بشر اپنے آپ سے ڈرنے لگا ہے کہ کہیں وہی تو اپنا جاسوس نہیں ہے۔ اس اعلیٰ پائے کے انتظام سے عربی حکمران مطمئن تو ہیں اور اس کا بھاری معاوضہ امریکا کو ادا بھی کرتے ہیں لیکن جیسے جیسے دنیا میں جمہوریت میں پھیلاؤ آتا جا رہا ہے اور عوام میں جمہوری شعور بیدار ہو رہا ہے عرب حکمرانوں کی مدت اقتدار گھٹتی جا رہی ہے اور حکمرانوں کی پریشانی بڑھتی جا رہی ہے۔

عرب حکمران طبقات جتنا بھاری سرمایہ مغرب سے اسلحے کی خریداری پر خرچ کرتے ہیں اتنا سرمایہ اگر اسلحہ سازی کے کارخانوں کی تعمیر پر لگا دیں تو مشرق وسطیٰ مغربی اسلحے کی خریداری سے آزاد ہوجائے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکا اور اس کے حواری ملک عربوں کو اسرائیل کے خوف سے آزاد نہیں کرسکتے؟ اس سوال کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ امریکا اربوں ڈالر کی انکم سے دستبردار کیوں ہوگا جو اسلحے کی تجارت کی شکل میں حاصل ہے۔

عرب ملکوں کا المیہ یہ ہے کہ انھیں ایسے حکمران ملے ہیں جو شکروں کی خریداری پر کروڑوں روپے پھونک ڈالتے ہیں ، ایسے حکمران اسرائیل سے مقابلے کی سوچ بھی نہیں سکتے۔ یہی وہ المیہ ہے جس کی وجہ امریکا اور دوسرے مغربی ملکوں کی اسلحہ ساز کمپنیاں دنیا خاص طور پر متحارب پسماندہ ملکوں کو اربوں ڈالر کا اسلحہ فروخت کرکے اربوں ڈالر کما رہی ہیں۔ جب تک روس اور چین ایک سوشلسٹ ملک تھے وہ اسلحے کی اندھی تجارت نہیں کرتے تھے نہ اسلحے کی تجارتی دوڑ میں شامل تھے لیکن جب سے سامراجی سازشوں نے سوشلسٹ بلاک کو توڑ کر تتر بتر کردیا ہے اب سوشلسٹ ملک خاص طور پر روس بھی اسلحے کی تجارت میں پیش پیش ہے اور اسلحے کی منڈی کا ایک بڑا فروخت کنندہ بن گیا ہے۔

دنیا کے اربوں غریب اور مفلوک الحال عوام کو سامراجی ملکوں نے کرپٹ جمہوریتوں کی رسی سے ایسا مضبوطی سے باندھ دیا ہے کہ عملاً ان کا حال عرب عوام سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ عرب عوام جمہوریت کی بات نہیں کرسکتے۔ وہ دنیا کے سرمایہ دارانہ جمہوری ملکوں کے عوام الیکشن میں اپنی مرضی سے اپنے قاتلوں کا انتخاب کرتے ہیں اور ان کے پیروں کے فٹبال بنے رہتے ہیں۔ حیرت اس بات پر ہے کہ کیا عرب ملکوں سمیت پسماندہ ملکوں میں ایسی طاقتیں موجود نہیں جو نظریاتی حوالوں سے عوام میں اس پورے کرپٹ نظام کے خلاف شعور بیدار کریں۔

بحرین اور امارات ابھی تک خاندانی غلامی کے آزار میں پھنسے ہوئے ہیں اور بدقسمتی یہ ہے کہ ان ملکوں میں نظریاتی قیادت ایسی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے کہ اس حوالے سے منہ کھولنے کا مطلب موت کو دعوت دینا ہے۔ عرب اور مسلم ملکوں کے مسائل حل کرنے کے لیے کئی امریکی غلاموں کی تنظیمیں موجود ہیں لیکن ان سے کسی بھلائی کی توقع اس لیے فضول ہے کہ ان کا دانہ پانی سب امریکا فراہم کرتا ہے ۔ فرانس میں پیلی واسکٹ تحریک مہینوں سے جاری ہے یہ تحریک مہنگائی کے خلاف شروع ہوئی تھی اب یہ تحریک سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف بھی آواز اٹھا رہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔